پاکستان کوارٹرز کا نوحہ ۔۔۔منصور ندیم

آج پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کو ان کے گھروں سے محروم کیا جارہا ہے، ان معمولی کوارٹروں کے بدلے میں وہ کیا کیا نہ چھوڑ کر آئے تھے۔ کراچی میں آج پاکستان کوارٹرز پر جس طرح سے پولیس گردی کی گئی اور پھر جس طرح سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور زخمی کیا گیا ہے، وہ یقینا انتظامیہ کے لئے شدید شرمناک ہے ، یہاں پر 35 سالوں سے رہنے والے ان مکینوں کے بزرگوں کو یہ کوارٹرز حکومتی نوکریوں کی بنیاد پر رہائش کے لئے ملے تھے، یہی اردو بولنے والے آج سیاسی حیثیت میں بھی تقسیم در تقسیم ہیں۔ اور اپنی ہی نظروں میں مجرم بنے ہوئے ہیں ، مجھے پاکستان کی ہجرت کے زمانے کے ایک شاعر کے یہ چند اشعار یاد آرہے ہیں –

انڈیا کے شاعر منور رانا کی نظم “مہاجر نامہ” کے چند اشعار ہیں، یہ کلام ہجرت کے ماروں کے لیے نوحہ ہے جو آج ان گھروں سے نکالے جارہے ہیں۔

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں

ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بڑبڑاتی تھیں
سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا
جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر
تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی
وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں_

آج کا یہ واقعہ یقینا نفرتوں کو مزید تقویت ہی دے گا ۔ جن کے بزرگ کل مہاجر بن کر آئے تھے، جنہوں نے ایک آگ کا دریا تو عبور کیا ہے۔  انہیں کیا پتہ تھا کہ جس چمن کے خواب کے لئے سب تیار کر جارہے ہیں، اس چمن کو آگ لگانے والے ھی اپنے ہی ہونگے ۔

ابھی مزید حیرت کی بات یہ رہے گی کہ اس پولیس گردی کو اب میڈیا پر تماشہ بننے کے بعد کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔

نہ بابا رحمتا جاگے گا۔

نہ انصاف کے نام پر بننے والی حکومت۔


نہ ہی غریبوں کا خیال کرنے والی صوبائی حکومت کی پارٹی  اور نہ ہی اس ملک کے وہ محافظ جو چند تنقیدی جملے لکھے جانے پر لوگوں کو لا پتہ کردیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیونکہ اس ملک کے غریب فقط ذلت سے سسک سسک کر جینے کے لئے ہی پیدا ہوتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply