• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی کمیونٹی کو پاکستانی کمیونٹی سے خطرہ ہے۔۔ طارق چوہدری

پاکستانی کمیونٹی کو پاکستانی کمیونٹی سے خطرہ ہے۔۔ طارق چوہدری

میری یہ تحریر ہر اس پاکستانی کے لئے ہے جو اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر، اپنے پیاروں سے جدا ہو کر، اپنی ان گلیوں سے بچھڑ کر جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا، دیار ِ غیر میں آن آباد ہوئے۔ ان کے باہر آنے کی کوئی بھی وجہ ہو مگر ایک بات سب میں مشترکہ ہے کہ وہ اپنے اور اپنے پیاروں کے خوبصورت مستقبل کو سنوارنے آئے تھے’ آئے ہیں اور آتے رہیں گے۔

ایک بات تقریباً تقریباً بہت سے پاکستانیوں میں مشترک  ہے کہ وہ یہاں نجی محفلوں میں بتاتے’ اِتراتے ہیں کہ پاکستان میں تو وہ بہت “سوکھے” تھے ‘انکا فلاں فلاں رقبہ ہے’ اتنے پلاٹ ہیں ‘ یہاں تو بس ایسے ہی آن آباد ہوئے ہیں ورنہ میں پاکستان میں ہوتا تو زیادہ آسودہ حاصل اور خوشحال ہوتا۔ ایسا سب کچھ کہنے کے باوجود یہ لوگ پاکستان پھر بھی نہیں جاتے بلکہ ہر ممکن جائز نہ جائز کوشش میں مسلسل لگے رہتے ہیں کہ ان کو ان مغربی ممالک میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی مل جائے۔

میں اگر اپنے آپ سے آغازِ گفتگو کروں اور اپنا بھید کھولوں تو میں اپنے قریبی دوست ساتھیوں سے بڑے فخر کے ساتھ اپنے بارے میں بتاتا ہوں کہ میں ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے اپنا بچپن سندھ پنجاب کی سرحد پر واقع ایک نہایت ہی پسماندہ علاقے میں گزارا۔ میرے والد صاحب سرکاری ملازم تھے ایک غیور ‘ باوقار’ خاندانی وضع دار، زمانہ شناس شان سے جینے والے انسان تھے۔ ہمیں یہ سکھایا “انسان” کون ہوتا ہے اور “انسانیت” کسے کہتے ہیں۔ مذہب اور سیاست سے بالاتر ہو کر ہمیں ایک مکمل “انسان” بنانے کی خاطر ہم سب بہن بھائیوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور پیارے نبی ﷺ کا درس ہمیں بھی ازبر کرایا کہ ہم “انسان” پہلے ہیں اور ہم جہاں بھی رہیں اس معاشرے کا حق ہمیں بطور انسان ادا کرنا ہے۔ میں نے ایک پسماندہ علاقے سے اٹھ کر تعلیم اور ترقی کی منزلیں طے کیں  اور پہلے معاشیات کی اور پھر قانون کی ڈگری نہایت اعلیٰ و امتیازی نمبروں سے حاصل کی اور پھر پاکستان میں “Prosecutor General department” میں بطور Public Prosecutor ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں خدمات سرانجام دیں۔ ہائیکورٹس آف پاکستان کا تاحیات ممبر ہوں،امریکن بار ایسوسی ایشن، انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن برطانیہ، جیورسٹ ایسوسی ایشن امریکہ کا باقاعدہ ممبر رہا ہوں، برطانیہ میں قانون کی اعلیٰ ڈگری ایک نہایت ہی شاندار اور مہنگی یونیورسٹی سے حاصل کی، بطور Investor, entrepreneur اپنا نام اپنے زور بازو سے باوقار طریقے سے بنایا۔ برطانوی سرکاری اداروں تک اپنی قابلیت سے رسائی حاصل کی۔ برطانوی فلاحی اداروں کا باقاعدہ رجسٹرڈ ممبر رہا ہوں،دیگر بہت سے اعزازات ہیں جن کا ذکر اس مضمون کی طوالت کی وجہ سے نہیں کر رہا۔بس کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ ایک پسماندہ ترین علاقہ سے ہونا شرمندگی کا باعث نہیں ہے بلکہ اگر کسی کے پاس وسائل موجود تھے اور وہ پھر بھی ان ممالک میں “ترلے” لے لے کر “سیٹ”ہوئے ہیں’ یہ بات باعث شرمندگی ہے۔

تو بات ہو رہی تھی کہ پاکستانیوں کو پاکستانیوں سے خطرہ ہے۔ جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ ان ممالک میں رہتے ہوئے پاکستانی ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں، ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، فیملی میل جول رکھنے ہیں، اکٹھے نمازیں روزے عیدیں پڑھتے ہیں، یہ سب دیکھ کر گورا لوگ سمجھتے ہیں پاکستانی کمیونٹی میں بڑا اتفاق ہے مگر وہ اندر کی بات نہیں جانتے کہ یہ ایک دوسرے کی اس لئے خبر نہیں رکھتے کہ یہ انسانیت کا اعلیٰ درجہ ہے بلکہ اس لئے کہ اس کی کوئی کمزوری ہاتھ لگ سکے اور وہ اس کی اداروں میں شکایت لگا کر اس کی ترقی میں باقاعدہ رکاوٹ ڈال سکے۔ اکٹھے نماز ضرور پڑھتے ہیں مگر اس بات کا بھی بہت غور سے دھیان رکھتے ہیں کہ اسکے ساتھی دوست کا مذہبی اعتقاد اگر اس سے ذرا سا بھی مختلف ہے تو وہ اسے اس اختلاف کا باقاعدہ سبق سکھا سکے، دھیان رکھتے ہیں کہ اسکا دوست ‘ساتھی کس طرح محنت کر کے ترقی کر رہا ہے اور اس کی محنت پر کن کن طریقوں سے پانی پھیرنا ہے۔ جب کسی سے پہلی دفعہ ملتے ہیں تو پہلا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ ” کب سے اس ملک میں آباد ہو” اس کے جواب سے اندازہ لگاتے ہیں کہ “کچا ہے” یا پکا ہے ” (کچے سے مراد ابھی اس کا برٹش پاسپورٹ نہیں بنا) اس کے جواب کے مطابق عزت دینے کا سوچتے ہیں۔

جو پاکستانی پرانے وقتوں میں آ کر آباد ہوئے ہیں وہ نئے آنے والوں سے ایک ناسمجھ آنے والی خار پال لیتے ہیں انکو تنگ کرتے ہیں مختلف قسم کی ایذا ء  دیتے ہیں بلیک میل کرتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ نیا آنے والا یا تو انکا مکمل تابع دار بن کر رہے، غلام بن جائے یا اس ملک سے بھاگ جائے (میری اس بات کی سچائی کی گواہی تقریباً ہر پاکستانی دے گا آپ اپنے قریبی لوگوں سے اکثر یہ کہتے سنتے ہونگے کہ انہوں نے ان ممالک میں بہت مشکلات برداشت کی ہیں، یہی وہ مشکلات ہوتی ہیں ) یہ لوگ اس لئے ایسا کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ نااہل ہوتے ہیں’ اپنے قریبی دوست ساتھیوں کے لئے اور معاشرے کے لئے بھی۔ بس یہ ان مغربی ممالک کا حسن ِ نظر ہے کہ ان جیسوں کا بھی پیٹ پالتے ہیں کیونکہ مغربی ممالک جان اور سمجھ گئے ہیں کہ ” انسان اور انسانیت” کو پہلا مقام حاصل ہے۔ میں حالانکہ ایک self sufficient, خودمختار کے طور پر یہاں رہ رہا تھا مگر مجھ پر بھی ان لوگوں نے وار کرنے کی کسر نہیں چھوڑی تو تصور کرتا ہوں یہ ان لوگوں کا کیا حشر کرتے ہوں گے جو ملازمت کے لئے ان پر انحصار کرتے ہوں گے۔

میں اگر اپنی بات کروں تو سچ پوچھیں میں یہاں رہتے ہوئے، ان گورا لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے خود کو اور اپنی فیملی کو بہت زیادہ محفوظ تصور کرتا ہوں۔ یہ گورا لوگ بہت ہی سادہ اور شاندار لوگ ہیں۔ فلاحی کاموں کو حقیقتاً فلاحی کام سمجھ کر کرتے ہیں، انسان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ یہ بھی انسان ہے اور غلطی کر سکتا ہے اور ناسمجھی و انجانے کی غلطی قابلِ معافی ہوتی ہے۔ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اسکے بھی بچے ہیں، انکے اچھے مستقبل کے لئے محنت کر رہا ہے اس کو بھی بطور “انسان” ترقی کا حق حاصل ہے۔ جانتے ہیں کہ مغربی ممالک ایک multi cultural society کا بہترین نمونہ ہیں ہر کوئی اپنے اعتقاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہے اس لیے یہ گورا لوگ ہماری مذہبی رسومات میں نہ صرف خوشی سے شریک ہوتے ہیں بلکہ قانون تک بنا دیتے ہیں کہ کسی کو بھی مذہبی آزار و تکلیف نہیں پہنچائی جاسکتی ‘قانون اسکی گرفت کرے گا۔

یہاں ان مغربی ممالک میں ہم پاکستانی اس بات کا بہت پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ Racisim بہت ہے’ گورے Racist ہیں۔
مجھ سے میرا سچ پوچھیں تو بتاتا ہوں ‘میں ایک مکمل گورا ہاؤسنگ سوسائٹی میں دو دہائیوں سے رہتا ہوں۔ میں اور میرے بچے یہاں مکمل محفوظ ہیں، مکمل مذہبی آزادی ہے، چلنے پھرنے باہر آنے جانے کی مکمل آزادی ہے، کوئی تانک جھانک کرنے والا نہیں ہے، یہ دیکھنے والا نہیں ہے کہ اس کے گھر کون کون آتا ہے کیوں آتا ہے، یہ کیا کرتا ہے کیوں کرتا ہے۔ کچا ہے کہ پکا ہے، نمازیں پڑھتا ہے کہ بے نمازی ہے، رمضان کے مہینے میں میرے منہ کی طرف دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کرتا کہ واقعی روزہ دار ہے یا ویسے ہی کہہ رہا ہے کہ “میرا روزہ ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گورا لوگوں میں مجھے تو مکمل مذہبی، سیاسی، سماجی آزادی حاصل ہے اور میں ہر قسم کے “شر”سے بھی محفوظ ہوں۔۔ قسمیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply