• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور ان کا تدارک ۔۔۔ ہارون ملک

پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور ان کا تدارک ۔۔۔ ہارون ملک

ایڈیٹر نوٹ: یہ مضمون جناب ہارون ملک صاحب کی جانب سے مکالمہ کو بھیجا گیا ہے تاہم مکالمہ پر جاری مقابلہ مضمون نویسی کا حصہ نہیں۔

شراب خانے اور ڈانس کلب معاشرے کی برداشت اور رواداری کا مظہر ہوتے ہیں۔ تُرکی کو ہی دیکھ لیں۔ جِتنا ڈنڈے کے زور پر ہم نے ریاست کو مُسلمان کیا ہے شاید ہی کِسی اور مُلک نے یہ حماقت کی ہو۔ اوپر سے مزید ستم یہ کہ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اِن اِقدامات پر آپ کو بغلیں بجاتے مِلیں گے۔

کبھی ہم بھی خُوبصورت تھے!

پاکستان اور ہم سب ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ کبھی یہاں پر بھی پرندے (سیاح) موسموں کے حساب سے آتے تھے، رہتے تھے، انجوائے کرتے تھے اور پھر چلے جاتے۔ پھر کبھی ہمارا کراچی ایسا ہی تھا جیسا آج دُبئی ہے۔ دُنیا کی ہر پرواز وہاں آتی ہے، رُکتی ہے اور اگلا پُڑاؤ کہاں ہوگا یہ دُبئی سے طے ہوتا ہے۔ 

کبھی ہمارے ساحل بھی نیلگُوں پانیوں کے لئے مشہور تھے۔ ہمارے کراچی کا معتدل موسم دُنیا بھر میں اپنی مِثال آپ تھا۔ یہاں کی دُھوپ میں نرمی اور گرمی تو تھی ہی ساتھ مہمان نوازی اور جذبہ دوستی ایسا بھی تھا جِس کی نظیر کہیں اور نہیں مِلتی تھی۔ وُہ جذبہ تو کہیں نہ کہیں اب بھی موجُود ہے لیکن وُہ نیلگوں پانی ہم نے برباد کردیئے۔

افغان رُوس جنگ کیا ہماری تھی؟ نہیں بالکل نہیں لیکن اُس نے افغانستان کا تو جو حشر کیا سو کیا ہم مُفت (مُفت کا لفظ محاورتاً ہے) میں مارے گئے۔ ہمارے شہر اُجڑ گئے، ہمارے ساحل، پہاڑ اور وادیاں وحشت کی نظر ہو گئیں۔

آج میری عُمر کے لوگ، مُجھ سے پانچ سات بڑے اور دو چار سال چھوٹے شاید میری سمجھ سکیں۔ ہمارے بڑوں نے تو وُہ پاکستان دیکھا ہُوا ہے لیکن ہماری نوجوان نسل جو پچیس سال سے آس پاس ہے اُس کو یہ بات بالکل نہیں سمجھ آنے والی کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔ 

زیادہ تر لوگ اِس کو ضیا الحق کا کارنامہ گردانتے ہیں لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ ضیا الحق سے بھی پہلے جب بُھٹو کو اِسلامی اتحادی تحاریک نے گُھٹنے ٹیکنے پر مجبُور کیا تو بُھٹو جیسا شخص بھی یہ دباؤ برداشت نہ کرسکا اور یُوں سیاست میں مُلا  کا عمل دخل یا یُوں کہئیے طاقت نے مضبُوط جڑیں پکڑ لیں۔

بات یہاں تک بھی رہتی تو شاید ٹھیک تھی مگر ضیاالحق نے جِس شِدت پسندی اور مذہبی عدم برداشت کی بُنیادیں رکھیں۔ جو نظامِ تعلیم ہمیں غیر مُسلموں سے نفرت کا سبق پڑھاتا رہا اُس میں واضح تبدیلی نہ مُحترمہ بے نظیر بُھٹو کے دو ادوار کرسکے نہ جناب میاں نواز شریف کے دو دو ادوار کرسکے۔

آخری فوجی آمر جنرل مُشرف نے چند ایک اقدامات کئے، پاکستان کا روشن چہرہ جِس پر دُھول اور مٹی پڑ چُکی تھی صاف کرنے کی کوشش کی۔ لال مسجد کے شِدت پسندوں کا آپریشن ہو یا آزاد میڈیا کا قیام، یہ سب دُرست سمت کی طرف پہلا قدم تھا لیکن مُشرف بھی اپنے اقتدار کو طُول دینے کے چکر میں غلطیوں پر غلطی کرتا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

دوبارہ تھوڑا سا ماضی کا سفر۔ میں جب لڑکپن سے نوجوانی کی طرف بڑھ رہا تھا تب نازیہ حسن اور زوہیب حسن گانے بُہت بھاتے تھے، کرکٹ، ہاکی، سُنوکر، سکواش جیسے کھیلوں میں ہمارا شاندار نام تھا۔ ہر شے اچھی لگتی تھی اور ابھی بربادی کہیں دُور تھی لیکن اب ۔۔۔۔۔

یہ کیسا سفر ہے، کیسا آسیب ہے کہ حرکت تو ہورہی ہے لیکن سفر معکُوس ہے۔ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آگئے ہیں؟ دُنیا میں ترقی ہورہی ہے اور ہم دِن بدن پیچھے جارہے ہیں (کم از کم ذہنی طور پر)۔ 

آج ہمارا تعلیم یافتہ (ڈگری والا بندہ تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے) جوان جب یورپ پر تنقید کرتا ہے اگر اُسے کہا جائے کہ آپ تو کبھی وہاں نہیں گئے یا نہیں رہے تو وُہ کہتا ہے کہ انٹرنیٹ پر سب دستیاب ہے۔ ہائے خُدا یہ سمجھ اور یہ عقل۔

یعنی جِس مُعاشرے میں آپ رہے ہی نہیں جہاں آپ کبھی گئے ہی نہیں اُس کی اقدار اور معاشرتی تانے بانے آپ گُوگل سے سمجھیں گے! کمال ہوگیا یہ تو۔ آج کل ہمارے ہاں یورپ کی اقدار، خاندانی نظام، مذہبی اور چند دیگر پہلوؤں کا تقابل چل رہا ہے۔ یہ ایک لمبی تفصیل ہے، کوشش کروں گا کہ سٹیپ بائی سٹیپ اِن کو ڈسکس کیا جائے۔ لیکن اُس سے پہلے چند ماضی کی باتیں اور یادیں تصاویر میں، کہ کبھی ہم بھی خُوبصورت تھے، کتابوں میں بسی خُوشبُو کی مانند۔۔۔۔

کبھی ہم بھی خُوبصورت تھے ۔۔۔

….‏A glance into Pakistan’s forgotten history and revisiting the contrary years

پاکستان کا  جب معرضِ وُجود میں آنا واضح ہوگیا تو قائدِ اعظم مُحّمد علی جِناح نے تقسیمِ برِصغیر کے سرکاری اعلان پندرہ اگست 1947 سے چند دِن قبل یعنی گیارہ اگست 1947 کو پاکستان کے بارے میں اپنا وژن کُچھ یُوں بتایا تھا:

‏”.You are free. You are free to go to your temples, you are free to go to your mosques, or to any other place of worship in the State of Pakistan”

‏”You may belong to any religion or caste or creed. That has nothing to do with the business of the state. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens of one state… You will find that in due course of time, Hindus will cease to be Hindus and Muslims will cease to be Muslims, not in the religious sense … but in the political sense as citizens of the state.

آپ کِسی بھی عقیدے ،مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ریاست کا اِس سے کُچھ لینا دینا نہیں۔ ہم اِسی بُنیادی اُصول، کہ ہم سب ایک ہی ریاست کے شہری ہیں، سے اپنا آغاز کررہے ہیں۔ ہندو محض ہندو یا مُسلمان محض مُسلمان نہیں رہیں گے۔ میں مذہبی طور پر نہیں کہہ رہا کیونکہ کسی بھی شخص مذہبی عقیدہ ذاتی عقیدہ ہوتا ہے، میں سیاسی (ریاستی) طور پر بات کررہا ہُوں اور یہ بات صرف میں نہیں کررہا بلکہ یہ بانی پاکستان کی بات ہے کہ وُہ کیسا پاکستان دیکھنا چاہتے تھے، اُن کے ذہن میں پاکستان کے بارے میں کیا خیال تھا۔ بدقسمتی سے زندگی نے وفا نہ کی اور اُن کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان اور پاکستان مُسلم لیگ کے چند دیگر رہنماؤں نے قرارداد مقاصد کے ذریعے مذہبی طبقے کو سیاست میں آنے کا ایک راستہ دے دیا۔ 

آگے چلنے سے پہلے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ قائد اعظم لیاقت علی خان کو ناپسند کرتے تھے اور اُنھیں اور چند دیگر کو کھوٹے سِکوں میں شُمار کرتے تھے۔ سٹینلے وولپرٹ اپنی کتاب جناح آف پاکستان میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ جب زیارت میں قائد شدید بیمار تھے تو لیاقت علی خان کابینہ کے چند دیگر ارکان کے ہمراہ اِن کی طبیعت پُوچھنے آئے۔ اُن کے جانے کے بعد قائد نے فاطمہ جناح سے کہا کہ یہ دیکھنے آئے تھے کہ میں مزید کتنا زندہ رہ سکتا ہُوں۔

قرارداد مقاصد کا پہلا بُنیادی پہلو یا مقصد غالباً بھی یہی تھا کہ آنے والے وقت میں پاکستان بننے کا مقصد کیسے بیان کیا جائے۔ جلد بازی کہہ لیں یا سُستی کہ اِس قراردادِ مقاصد  نے سیاست اور طاقت کے ایوانوں میں مذہبی طبقے کا راستہ بنادیا۔

لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر وغیرہ کا اِسلام کو سمجھنا اور دیکھنا، مولانا اُبوالاعلیٰ مُودودی، جناب شبیر احمد عُثمانی اور ڈاکٹر اشتیاق حُسین قُریشی  سے ظاہر ہے مُختلف تھا۔ لیاقت علی خان اور دیگر زُعماء کا خیال تھا کہ یہ ماڈرن انٹرپریٹیشن اِس مُلک میں ہمارے ہاتھ میں ہی رہے گی اور عام مُلا کی دست برد سے محفوظ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جلد ہی مذہبی طبقہ اپنا زور پکڑتا گیا۔

لیاقت علی خان کے بارے میں حُسین حقانی اپنی کتاب میں واشنگٹن ہیرالڈ کو کوٹ کرتے ہُوئے لکھتے ہیں کہ امریکا کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ جارج میگھی پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم کی اِس بات سے بُہت مُتاثر تھے کہ وُہ ہارڈ ڈرنکس کو بغیر ہوش کھوئے پی سکتے تھے۔ 

اِس کے اثرات ابھی تک واضح نہیں ہُوئے تھے۔ 1956 کا آئین معمولی اثر لئے ہُوئے تھا۔ 1962 کے آئین میں ایوب خان جیسا ڈکٹیٹر جو ایک سیکولر خیالات کا حامی تھا اُس کو بھی مذہبی طبقے کے آگے گُھٹنے ٹیکنے پڑے اور جمہوریہ پاکستان سے نام اِسلامی جمہوریہ رکھنا 

/تبدیل کرنا پڑا۔ اِس کے بعد بالاخر 1973 کا آئین، ایک واضح مذہبی رنگ اور چھاپ لیکر پاس ہُوا۔ ایوب خان 1956 کے آئین کی منسُوخی کے بعد نئے آئین 1962 میں اِسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام واپس جمہوریہ پاکستان رکھنا چاہتا تھا۔

اپریل 1953 میں مُنیر کمیشن رپورٹ کی فائنڈنگ میں بھی قرادادِ مقاصد کو تمام فساد کی جڑ اور آنیوالے وقت میں مزید خرابیوں کا قرار دیا گیا تھا لیکن کِسی نے پرواہ نہیں کی۔

قرادادِ مقاصد، مذہبی گروہ کا بڑھتا ہُوا اثر رُسوخ تقریباً دو عشروں تک واضح نہ ہوسکا۔ یقیناً اِس کی ایک وجہ مشرقی پاکستان میں غیر مُسلم (ہندوؤں) اقلیت کی ایک بڑی تعداد بھی تھی کہ مذہبی اجارہ داری ابھی تک کہیں کُھل کر سامنے نہیں آسکی تھی۔

اِس سب عرصے کے دوران بار بار سیاسی رہنماؤں اور بیوروکریسی کی اقتدار کی بندر بانٹ و چھینا چھپٹی اور بعدازاں جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ کی براہِ راست مُداخلت نے پاکستان کی نسبتاً نوزائیدہ ریاست کو، ریاستی اداروں کو اور بالخُصوص جمہوریت کو کافی زیادہ کمزور اور بیک فُٹ پر لاکھڑا کیا تھا۔ 

مُلک میں جب مسائل دِن بدن بڑھ رہے ہوں اور مُلک کی اکثریتی آبادی والا ونِگ یعنی مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحاریک بھی سر اُٹھا رہی ہوں تو ایسے میں جو بھی غلط ہو جائے اُس کی اُمید کی جاسکتی تھی۔ شومئی قسمت کہ ایسا ہی کُچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہُوا۔

مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں یہ نعرہ بُہت مشہور تھا کہ مغربی پاکستان بالخُصوص پنجاب میں اُن کی محنت، خُون پسینہ اور پٹ سن کی کمائی سے عیاشیاں ہورہی ہیں۔ مغربی پاکستان میں ترقی ہورہی ہے، نئی نئی سڑکیں بن رہی ہیں اور جانے کیا کیا۔ یہ سب باتیں کتنی سچی اور کتنی غلط تھیں یہ الگ بحث ہے لیکن مشرقی پاکستان کی عوام میں نفرت دِن بدن بڑھ رہی تھی۔ اِس کو ابھی رہنے دیتے ہیں اور اِس بات تک محدُود رہتے ہیں کہ ہم ایک معتدل اور نسبتاً لبرل مُلک سے اِتنے شِدت پسند کیسے بنے؟ 

پاکستان کی بھارت کے ساتھ کشیدگی پہلے دِن سے ہی واضح تھی۔ پھر مسلۂ کشمیر اور سرحدوں پر مسائل بھی اِسی پریشانی کا حصہ تھے۔ 1965 میں ہونے والی جنگ نے بھی پاکستان کی معشیت پر کاری ضرب ڈالی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب پُورے پاکستان میں اِس جنگ کی شِدت نہ صرف محسُوس کی گئی بلکہ اِس کا اثر سیاحت پر بھی نظر آنا شُروع ہوگیا تھا۔ ابھی ہم بُھٹو کے دور تک نہیں پُہنچے جہاں سے اصل قصہ شُروع ہوتا ہے جِس کو ضیاالحق نے تباہی کی آخری حد تک کمال کامیابی اور مُنافقت سے پُہنچایا۔

اِس موضوع کو کنٹریری ائیرز آف پاکستان کے موضوع کے تحت بھی ڈسکس کیا گیا ہے۔ خیر، پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے موڑ آئے جنہوں نے اِس مُلک کی تاریخ کا رُخ ہی موڑ دیا۔ سُقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہماری فوج کافی مایُوس اور بددِل تھی۔ ایسے میں ذُوالفقار علی بُھٹو شہید نے پاکستان کو سنبھالا۔ قریباً نوے ہزار قیدی واپس لائے گئے، نئی جمہوری حُکومت تشکیل دی اور 1973 کا نیا آئین دیا۔ 

ظاہر ہے بُھٹو صاحب سے چند ایک سیاسی غلطیاں بھی ہُوئیں تھیں۔ 1977 کے ضیاالحق مارشل سے پہلے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا گرینڈ الائینس بُھٹو صاحب کو بُہت کمزور کرچُکا تھا۔ اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے اُنہوں نے بُہت سارے مُطالبے بھی مانے لیکن سب بیکار گیا اور بالآخر پھانسی گھاٹ تک جاپُہنچے۔

جب 1979 میں رُوس نے افغانستان پر چڑھائی کی تو امریکا کے لئے یہ ایک بہترین موقع تھا کہ ایک ملٹری ڈکٹیٹر (جو پہلے ہی اپنے اقتدار کو ایک لمبی سیاہ رات کی طرح کھینچنا چاہتا تھا) کو ساتھ مِلا کر امریکی اسلحے، ڈالر ،سُعودی ریال، ضیاء کی چالاکیوں اور سادہ لوح پاکستانی نوجوانوں کو مذہبی جذباتیت کے ذریعے ایک جہاد پر تیار کرنے کے لئے جابجا جہادی تربیتی کیمپ بنائے۔ پُورے مُلک کو جہاد کی سبز یا لال بتی کے پیچھے لگا کر ایک جُنون کا شِکار بنادیا گیا۔ 

اپنے مضامین کے مجموعے کلچر اینڈ امپیرئلزم میں ایڈورڈ ویڈی سیڈ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ القائدہ اور اُسامہ بِن لادن کو امریکا یعنی سی آئی اے نے خُود تیار کیا تاکہ کمیونسٹ رُوس کو نیچا دِکھایا جاسکے۔ یہ کمیونزم اور کیپٹلزم کی جنگ تھی مگر پاکستان میں جہاد کے نام پر لوگوں کے بچے مروا دیے گئے اور کہا گیا کہ وُہ شہید ہورہے ہیں۔ 

امریکا نے اپنے مفادات کی جنگ لڑی اور سعودیہ نے بھی اربوں ڈالرز اُن مدرسوں میں جھونکے جو سُنی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یُوں سعودیہ نے پاکستان کی مذہبی سیاست میں اپنا اثر و رسُوخ بُہت گہرا بنا ڈالا۔ 1988 میں ضیا الحق ایک ہوائی حادثے میں فوت ہُوئے، اور اس کے اگلے سال رُوس نے اپنے فوجی دستے افغانستان سے واپس بُلا لئے۔یوں امریکا نے فتح کا نعرہ لگاتے ہُوئے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لِیا۔

اب جو مہاجرین افغانستان سے پاکستان آئے تھے، جو جہادی پاکستان سے افغانستان گئے، خُود افغان طالبان، مُلا عُمر، اُسامہ بِن لادن وغیرہ اِن سب سے عملی طور اور غیر اعلانیہ طور  پر امریکا نے اپنا دامن چُھڑا لِیا۔

اب ہم تھے، افغانستان کے مہاجرین، اُن کی منشیات، کلاشنکوف کلچر اور سب سے بڑھ کر اُن کا قبائلی رنگ میں رنگا ہُوا اِسلام۔ جب یہ سب ہمارے معاشرے کے ساتھ مِکس ہُوا تو پہلے سے کمزور سوشل فیبرک اِس کا بوجھ سہہ نہ پایا اور پُورا معاشرتی ڈھانچہ جیسے ٹُوٹ کر رہ گیا۔

ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو طُول دینے کے لئے جو بیج بوئے تھے وُہ ہمارے معاشرے کی مذہبی رواداری اور معتدل مزاجی کے تابُوت میں آخری کیل تھے۔ تعلیمی نصاب میں جو تبدیلیاں اور مَن چاہا سبق اُس نے پڑھایا تھا، آج دو نسلوں تک اُس کی شِدت محسُوس ہوتی ہے اور جانے کب تک ہوتی رہے گی۔ ضیاالحق کے بعد آنے والی لگاتار چار جمہوری حُکومتوں کی آپس میں باہمی چپقلش اور فوج کی مُداخلت ہمیں سیدھے راستے پر نہ ڈال سکی۔ ویسے اُن حُکومتوں میں ایسا کُچھ کرنے کی خواہش بھی تھی یا شاید اُن کے مدِ نظر کئی دیگر ‘مسائل‘ اہم رہے ہوں۔ 

جنرل پرویز کے دور میں اس معاملے پر کچھ توجہ دی گئی لیکن 9/11 کے بعد دُنیا کا رنگ ہی بدل گیا اور مُشرف بھی اپنے آمرانہ اقتدار کو طُول دینے کے چکر میں پڑ گیا۔ یوں کُچھ بھی نہ ہوسکا اور آج مذہبی عُناصر ہمارے مُلک میں اِس قدر طاقتور ہوچُکے ہیں کہ واپسی کا سفر نامُمکن لگتا ہے۔ تفصیل بُہت زیادہ ہے لیکن اب مزید اِس پر کیا لکھا جائے۔

یہ سب غیر مُلکی اور غیر جانبدار مُلکی مُصنف اور مورخ بھی کہتے ہیں۔ اگر آپ کا سچ اِس سے مُختلف ہے تو اِن سب حقائق کو جُھوٹ سمجھ کر اگنور کردیں۔

اب جبکہ یہ شِدت پسندی کا جِن بوتل سے پُوری طرح باہر آکر بے قابُو ہو ہی چُکا ہے تو اِس کا مُقابلہ بھی کثیر الجہتی انداز سے ہی ہونا چاہئیے۔ اِس میں کُچھ اقدامات فوری نوعیت کے ہیں یعنی اُن کا نتیجہ جلدی سامنے آئے گا اور کُچھ ذرا طویل المُدت منصوبے ہیں جو عرصہ پندرہ سے بیس سال بعد فائدہ دیتے نظر آئیں گے۔

سب سے پہلے نفرت آمیز مواد جیسا کہ کئی مولوی حضرات اور دیگر لوگ، زُعما کِسی خاص فرقے یا کِسی قومیت کے خِلاف کررہے ہوتے ہیں اُن کو نشانِ عبرت بنانا چاہئیے۔ ریاست کی اپنی ایک رِٹ ہوتی ہے لہٰذا اِس میں کُوئی بھی زید یا بکر قتل کے فتاویٰ جاری کرے تو اُس کے لیے لمبی مُدت کے لئے سرکاری مہمان نوازی کا موقع فراہم کیا جائے۔

مذہبی جماعتوں کو سیاست میں حصہ لینے سے مکمل طور پر روکا جائے۔ 

تمام مدارس اور مساجد کو حُکومتی نگرانی میں کیا جائے۔ مدارس کے نصاب اور مساجد کی تقاریر پر کُڑی نگاہ رکھی جائے۔

بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کو رواج دِیا جائے۔

تعلیمی نصاب یعنی سُکولوں کے نصاب سے “عظمتِ رفتہ“ کے قصوں کو ختم کریں یا نہ کریں لیکن اُن سے نفرت آمیز مواد ضرور ختم کریں۔ مثلاً ہندو مکار ہوتے ہیں، یہودی سازشی ہوتے ہیں اور عیسائی آپ کے دُشمن ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آخر یہ آپ اپنی نسلوں کو کیا سِکھا رہے ہیں؟ یہ ایک لمبا اور سست عمل ہے جو کئی سالوں میں اپنا نتیجہ دے گا۔

ایک طاقتور قومی/وفاقی سطح کا ادارہ بنایا جائے جو نفرت انگیز تقاریر، مواد اور افراد پر نظر رکھے، نصاب کو معتدل بنائے۔ قومی سیکیورٹی کاؤنسل اپنا کام بہتر طور پر نہیں کررہی، اُس کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

بعض افراد کے مُطابق بُہت سارے مدرسوں اور عُلما کے پیچھے سعودی و ایرانی فنڈنگ ہے اور کئی افراد، گروہ اور عالموں کو آرمی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ اِن پر قابُو پانا ازحد مُشکل ہے لیکن کہیں سے آغاز تو ہو۔

لاسٹ بٹ ناٹ لِیسٹ، ہر قِسم کی فارن فنڈنگ چاہے وُہ مذہبی ہو یا میڈیا میں اُس پر مکمل قابو اور پابندی کے بنا ہم کبھی بھی شِدت پسندی  کو کم نہیں کرپائیں گے۔

نوٹ: یہ پوسٹ لکھنے کے لئے جو ریفرینسز استعمال کئے گئے ہیں وُہ درج ذیل ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

Jinnah of Pakistan by Stanley Wolpert
(Constitutional and Political History of Pakistan by Hamid Khan , (recommended by Jameel Jaami
(Pakistan A Hard Country by Anatol Lieven , (recommended by Jago Bhi
(‏.Murder of History by K.K. Aziz (Help sought from Rana Hakim for some dates, like 15 August as an Independence Day etc)
(Article from The Friday Times 14/03/2014 ( Historic Blunder by Shahzad Raz
(‏Objective Resolution , the root of religious orthodoxy Dawn , 20/06/2010)
The Objective Resolution Lives on , Uzair Younus’s article in The Express Tribune dated 10/07/2014
(‏A History of Pakistan and its Origins by Christofe Jafferlot ( With thanks to Ali Jibran who gave me this book back ten years back
Magnificent Delusions by Husain Haqqani
(‏Islam’s Fault Line Pakistan (article in National Geographic September 2007 Issue

Facebook Comments

ہارون ملک
Based in London, living in ideas

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply