سندھ کی کونج کو قتل نہ کرو۔۔۔۔۔محمد خان داؤد

اوشو نے کبیر کے لیے کہا تھا کہ، “باقی شاعر ایسے ہیں کہ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں اور اپنے الفاظ کو بہت ہی نزاکت سے کام میں لاتے ہیں، دھیرے دھیرے اور اپنے الفاظ سے سامنے والے کا کام کر جاتے ہیں۔ پر کبیر وہ لکڑہارا ہے جو اپنے الفاظ کی کلھاڑی اُٹھاتا ہے اور دنیا کے شعور پر مار دیتا ہے جس سے دنیا کے شعور کے دو حصے ہو جاتے ہیں! وہ کچھ نہیں سوچتا، وہ کچھ نہیں سمجھتا!”

یہی حال سندھ کے مرد کا ہے جب وہ اپنے آس پاس موجود کسی عورت پر کوئی ظلم ڈھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے رجھاتا نہیں، اسے ٹھگاتا نہیں، اسے رومانس میں لے کر اپنی بہانوں میں نہیں لیتا۔ اس کا پیار سے نام لے کر بلاتا نہیں۔ اس کے حسین چہرے کی تعریف نہیں کرتا۔ اس کی سیاہ زلفوں کو چہرے اٹھاتا نہیں۔ اسے کوئی لال گلاب نہیں دیتا۔ اس کے جسم پر کوئی خوشبو نہیں مَلتا۔ اس کے چہرے کے نقوش میں نہیں کھو جاتا۔ اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں دیکھ کر یہ نہیں کہتا کہ، “تم بہت خوبصورت ہو!”

وہ اس بدن کی تعریف نہیں کرتا جو نہیں معلوم کہ وہ بدن جھیل ہوتا ہے یا جھیل میں جھولتا کنول!

بس جب سندھ کا مرد اپنے ہاتھوں سے سندھ کی عورت کو قتل کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مزاج میں وہ کبیر بن جاتا ہے جس کے لیے اوشو نے کہا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں میں کلھاڑی لیتا ہے اور بس جا کر مار دیتا ہے اور شعور کے دو حصے کردیتا ہے!

سندھ کا مرد بھی یہی کرتا ہے جب وہ اپنی بیوی، اپنی بہن، بیٹی حتیٰ کہ ماں کو بھی سزا دینا چاہتا ہے تو اپنے ہاتھوں میں کلھاڑی لیتا ہے اس کے پاس جاتا ہے اور اس کے سر کے دو حصے کر دیتا ہے۔

سر کا ایک حصہ بہت دور جا کر گرتا ہے اور ایک حصہ اس ظالم سندھی مرد کے پیروں میں گرجاتا ہے۔ وہ سر کے دو حصے ہوتی ماں، بیوی، بہن، بیٹی کے سر کا دوسرا حصہ اپنی زباں سے کہہ رہا ہوتا ہے؛ “اماں اماں اماں ں ں ں ں ں ں ں!”

وہ ان کاریوں کی ماں ہوتی ہے جو ان کے بعد جینے کی سزا میں جی رہی ہوتی ہے۔
ان کاریوں کے قتل ہو جانے کے بعد ان کے مقتول ہو جانے کے بعد ان کی زندگیاں بھی بہت مختصر، بہت طویل ہو جاتی ہیں… جو نہ کٹتی ہیں اور جو نہ گزرتی ہیں!

سندھ کا بے غیرت ، غیرت مند مرد اپنی موچھوں کو تاؤ دیتا بس اتنا کہتا ہے کہ وہ ، “کاری” تھی!

یہ کوئی ڈرامہ کا کوئی ایکٹ نہیں ہوتا کہ جس عورت کا سر دھڑ سے جدا ہو کر دو حصوں میں تقسیم ہوا وہ کٹ کی آواز پر اُٹھ کر بیٹھ جائے گی، نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ وہ سر سے جدا دھڑ کئی گھنٹوں تک ایسے ہی برہنہ وہیں پر پڑا رہتا ہے جہاں سندھ کے بے غیرت، غیرت مند آدمی نے اپنی ماں کو کاری قرار دے کر کلہاڑی کے وار سے قتل کر دیا تھا۔

قاری کی روایت کو کئی سال گزر گئے۔ سندھ میں کاریوں کا قبرستان بھی بھرا ہوا ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے تو بس وہ کلھاڑی!
اب کلھاڑی کی جگہ آتیش گیر مادہ نے لے لی ہے۔
سندھ میں اب بھی عشق کرتی لڑکیاں، انکاری بہنیں اور بوڑھی مائیں کاری ہو رہی ہیں۔
کوئی بھی سندھ کا بے غیرت، غیرت مند آدمی اُٹھتا ہے اور کسی کے بھی سینے میں کئی گولیاں اتار دیتا ہے، ناحق قتل ہوتی لڑکی کے سوکھے حلق سے اللہ نہیں نکلتا، وہ اپنے جسم پر گھاؤ جیسی گولیاں برداشت کرتے وقت بس اتنا ہی کہہ پاتی ہے کہ، “اماں اماں اماں اماںں ں ں ں ں ں ں ں”

تو سندھ میں قدیمیت سے جدیدیت تک کیا بدلا ہے؟
بس وہی کلھاڑی سے بندوق!!!
آج بھی سندھ میں کاچھے سے لے کر اتر تک سندھ کی مظلوم لڑکیوں کو کاری کیا جا رہا ہے۔ ان کاری کی ہوئی لڑکیوں پر جرگے کیے جا رہے ہیں۔ بھاری بھاری جرُمانے عائد کیے جا رہے ہیں۔

جیسے جیسے سندھ کا سفر جدیدیت سے قدیمیت کی طرف جاری ہے ویسے ہی کاری کی خوف ناک روایت کا سفر بھی جاری ہے۔ کاری! یہ ایک ایسا طوق ہے جو اس اکیسویں صدی میں بھی سندھ کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ سندھ میں ہر روز کئی لڑکیاں کاری ہو رہی ہیں۔ جو کیس رپورٹ ہوتے ہیں وہ بھی تین سے چار ہوتے ہیں پر جو کیس رپورٹ نہیں ہوتے ان کیسوں کا تو کہیں بھی اندراج نہیں!

ایسے ماحول اور ایسے حالات میں بھی جس میں سندھ میں بچیاں بس اس لیے قتل ہو جاتی ہیں کہ وہ تیزی سے جوان کیوں ہو رہی ہیں۔ ایسے حالات اور ماحول میں امر سندھو سندھ کو یہ بتانے نکلی ہے کہ
اپنی بچیوں کو عزت دو!
اپنی بیگموں کو محبت دو!
اپنی بہنوں کو آزادی دو!
اپنی ماؤں پر شک نہیں کرو!
ماں،بہن، بیٹی، بیگم کو عزت نہیں انسان سمجھو!
انہیں وہ برابری دو جو انسان ہوتے ان کا حق ہے!

امر سندھو بہت بہادر ہے اور آج سیکڑوں خواتین کو حیدرآباد کی سڑکوں پر لا کے سندھ کے بے غیرت مرد سے کہہ رہی ہے، “خدارا انہیں جینے دو!”

پر امر سندھو کو یہ جاننا ہوگا کہ سندھ کا دردیلا مرد ایسا ہے جس کے لیے اوشو نے کہا تھا کہ، “باقی شاعر ایسے ہیں کہ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں اور اپنے الفاظ کو بہت ہی نزاکت سے کام میں لاتے ہیں، دھیرے دھیرے اور اپنے الفاظ سے سامنے والے کا کام کر جاتے ہیں۔
پر کبیر وہ لکڑہارا ہے جو اپنے الفاظ کی کلہاڑی اُٹھاتا ہے اور دنیا کے شعور پر مار دیتا ہے جس سے دنیا کے شعور کے دو حصے ہو جاتے ہیں!”

Advertisements
julia rana solicitors

سندھ کا مرد جاہل ہے، اب کلہاڑی کی جگہ بندوق لیتا ہے اور کسی بھی معصوم کے سینے کو دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دیتا ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply