جانور۔۔۔۔روبینہ نازلی

(اس شخص کا قصہ جس کی شکل مسخ ہو گئی تھی )

بس مناسب رفتار سے کشادہ سڑک پر دوڑی جارہی تھی ۔!
کوئی مسافر سو رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا ۔!
اچانک بس بری طرح لہرائی ۔
جھٹکا لگتے ہی سب مسافر چونک کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ۔
سب کی نظریں ونڈ اسکرین پر مرکوز ہو گئیں ۔
کیا ہوا ۔؟ کیا ہوا ۔؟
مسافر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ۔!
ایک مسافر نے ونڈا سکرین کے پار سائیکل سوار کی طرف اشارہ کیا ۔!
سامنے ایک سائیکل سوار مین روڈ پر چلا جارہا تھا۔!
وہی بس کے نیچے آتے آتے بچاتھا- اس نے عین وقت پر بڑی پھرتی سے اپنی سائیکل کچے میں اتارلی تھی ورنہ وہ بس کے نیچے آہی جاتا ۔ٍ سڑک پہ زیادہ رش نہیں تھا ۔کوئی اکا دکا گاڑی آس پاس سے گذر جاتی تھی ۔
وہ سائیکل سوار سڑک کے کنارے کھیتوں کے درمیان پگڈنڈی سے اچانک ہی نمودار ہو ا تھا ۔اور سڑک پہ آتے ہی ڈرائیور نے اسے اپنی  زد میں لے لیا تھا ۔
نشہ کرکے ڈرائیونگ کرتے ہیں۔! انہیں کسی کی زندگی موت کی پرواہ ہی نہیں ۔
!سب مسافر اپنے اپنے انداز میں ڈرائیور کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔سائیکل سوار اب کچے میں ہی سائیکل چلا رہاتھا ۔سائیکل کے مقابلے میں تیز رفتار بس کو اب تک اس سے آگے نکل جانا چاہیے تھا لیکن نہ جانے کیوں ڈرائیور نے بس کی رفتار سست کر لی تھی ۔سائیکل سوار اب بھی بس سے آگے ہی تھا ۔
اور پھر اچانک ہی بس ایک دفعہ پھر لہرائی اور کچے میں اتر گئی ۔سائیکل سوار شاید پہلے ہی ڈرائیور کی نیت بھا نپ گیا تھا اُس نے بھی بڑی پھرتی سے سائیکل دوبارہ سڑک پر چڑھائی لیکن اس دفعہ ڈرائیورنے اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا اُ س نے بس کچے سے اُوپر چڑھاتے ہوتے سیدھی سائیکل سوار پہ جا چڑھائی ۔
پہلا ٹائر اس پر سے گذار کر دوسرا ٹائر اُس پر چڑھا کر ڈرائیور نے بریک لگا دیئے۔
وہ مارا !اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔
سب مسافر دم بخود یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔
غم و غصے سے سب کا برا حال تھا ۔
ایک جاہل ،ظالم ڈرائیور نے سب کے سامنے ایک انسان کو کچل کے مار ڈالا تھا ۔سب اس کی دیدہ دلیری پہ سخت حیران تھے اتنا بہیمانہ قتل کرنے کے بعد وہ خوفزدہ یا شرمندہ ہونے کے بجائے فاتحانہ انداز میں مسکر ا رہا تھا جیسے اس نے کوئی شیر مار ڈالا ہو ۔تمام مسافر اُسے سخت بُرا بھلا کہنے لگے ۔کچھ لوگ اشتعال میں اسے مارنے کو دوڑے تو ایک صاحب نے انہیں بمشکل روکا –
یہ پولیس کیس ہے میں نے پولیس کو اطلاع کردی ہے تم لوگ اس کو اپنے ہاتھ میں لے کر مزید خون خرابہ مت کرو ۔میری ابھی پولیس افسر سے بات ہوئی ہے وہ اپنا نام حسن جاوید بتا رہا تھا وہ بس پہنچنے ہی والا ہے تم سب لوگ ذرا صبر سے کام لو ۔
میں اس وقت گشت پر تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ ایک بس ڈرائیور نے راہگیر کو کچل دیا ہے وقوعہ مین روڈ سے کچھ دُور ہوا تھا ۔میں وہاں سے کچھ ہی فاصلے پہ موجود تھا لہذا تاخیر کیے بغیر جائے وقوعہ پر پہنچ گیا ۔وہاں بہت بھیڑ لگ چکی تھی ۔ٹریفک بلاک ہو رہی تھی ۔پولیس کو دیکھ کر تماشائی ادھر ادھر چھٹنے لگے ۔لیکن چشم دید گواہ یعنی بس کے تمام مسافر حیرت انگیز طور پر وہیں کھڑے رہے تھے۔ان میں سے کسی نے بھی وہاں سے ہلنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔وہ سب ہی مشتعل نظر آرہے تھے ان سب نے بس کو گھیر رکھا تھا اور انہیں میں سے کسی ایک نے پولیس کو اطلاع کی تھی ۔’’اس بدبخت ڈرائیورنے جان بوجھ کر سائیکل سوار کو مار ڈالا ہے ‘‘ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے غصے سے کہا ۔!باقی مسافر بھی ہاں میں ہاں ملانے لگے ۔سب ہی کچھ نہ کچھ کہہ کر اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کررہے تھے میں نے اشارے سے سب کو خاموش رہنے کی ہدایت کی ۔سب مسافر غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے جبکہ ڈرائیورحیرت انگیز طور پر مطمن اور پُر سکون نظر آرہا تھا ۔اُس نے بس سے نیچے اترنے تک کی زحمت نہیں کی تھی اس کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں’’شاید بہت اوپر والا بندہ ہے‘‘
ا وپر تک تعلقات ہو ں گے کسی بڑی ہی آسامی کا بندہ ہے جو یوں سر عام قتل کر کے بھی مطمن بیٹھا ہے میں نے دل میں سوچا جو بھی ہے بڑا پروفیشنل اوراپنے کام کابڑا ماہرہے۔! اس کے حد درجہ اطمینان سے تو یہی ظاہر ہو رہا تھا ۔میں لاش اور جائے وقوعہ کا معائنہ کر چکا تھا ۔وہ کوئی اتفاقی ہادثہ معلوم نہیں ہوتا تھا کیونکہ لاش بالکل کُچلی ہوئی تھی اور ابھی تک بس کا پچھلا ٹائر لاش کے اُپر ہی تھا یعنی اسے جان بوجھ کر کُچلا گیا تھا ۔اگر یہ اتفاقی حادثہ ہوتا تو بدحواسی میں نیچے آجانے والے پر سے بس گذر جاتی ،روکتے روکتے بھی کچھ آگے نکل ہی جاتی ہے ۔لیکن ڈرائیورنے اگلا ٹائر اس کے اُوپر سے گذار کر پچھلا ٹائر باقائدہ اس کے اُوپر چڑھایا تھا یعنی قتل باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تھا ۔پوری بس کے مسافر اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے اور اپنے اپنے انداز میں مجھے اس واقعے کی تفصیلات بتانے کی کوشش کر رہے تھے ۔میں نے سب کو خاموش رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے سپاہی نور خان کو اشارہ کیا ۔سپاہی نور خان آگے بڑھا ’
’اوئے کھوتے کے پتر بندہ مار دیا اور چوہدری بنا بیٹھا ہے ۔نیچے اُتر !نور خان نے گالی دے کر ڈرائیور کو کندھے سے پکڑ کرگھسیٹا اور میرے سامنے لاکر کھڑا کر دیاسچی بات تو یہ ہے کہ میرا دماغ بھی اس کی ڈھٹائی پر غصے سے کھول رہا تھا ۔
میں نے بندہ نہیں مارا ۔!وہ بہت ٹھہرے ہوئے لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوا تھا’’
کیا ۔۔۔۔کیا کہا بندہ نہیں مارا ۔! میں غصے سے چیخ پڑا ۔میں نے اس کا کالر پکڑا اور گھسیٹا ہوا اسے بس کی پچھلی طرف لے آیا جہاں وہ سائیکل سوار کچلا پڑا تھا’’یہ کیا ہے اتنا بڑا بندہ نظر نہیں آیاتجھے ؟ میں نے غصے سے کہا ۔
میں صحیح کہہ رہا ہوں میں نے بندہ نہیں مارا ‘‘وہ پھر اسی اطمینان سے بولا تو میرا دماغ کھول کر رہ گیا ۔تم پاگل ہوکیا۔!یا ہم تمھیں اندھے نظر آ رہے ہیں یہ کچلی ہوئی لاش تمہارے سامنے پڑی ہے ،تمام گواہ بھی یہیں موجود ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ میں نے بندہ نہیں مارا ‘‘’’
او سر جی اس کو چھوڑیں ۔یہ تو یہی کہے گا دس نمبر کا چھتر لگے گا تو اس کی یادداشت خودبخود واپس آجائے گی آپ ضابطے کی کاروائی مکمل کریں اس سے ہم نبٹ لیں گے ۔نور خان نے لقمہ دیا ۔
میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ۔!’’میں نے بندہ نہیں خنزیز مارا ہے ۔وہ پھر اسی انداز میں بولا تو میں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگا مجھے اب واقعتا اس کی دماغی کیفیت پر شُبہ ہو چلا تھا’’ کیا مارا ہے ؟میں نے حیرت اور غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پو چھا۔؟’’ میں نے خنزیر مارا ہے یقین نہ آئے تو آپ خود چل کر دیکھ لیں ۔اس نے عجیب سے انداز میں کہا’’ آئیں میرے ساتھ آئیں ‘‘مجھے اپنے پیچھے آنے کااشارہ کرتا ہوا وہ جاکر دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ،اور تھوڑا سا ترچھا ہو کر بولا ادھر سے دیکھیں ،آئیں ادھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر دیکھیں ۔وہ سیٹ پر سے اٹھتے ہوئے بولا ۔میں اس کی عجیب و غریب حرکات پر غور کرتا ہواڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔’’ ہاں کیا دیکھوں ۔؟ میں نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔’’ آپ بیک مرر میں پیچھے دیکھیئے ‘‘میں نے بیک مرر میں دیکھا تو چونک پڑا ۔وہ منظر حیرت انگیزیز تھا ۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔میں نے آنکھیں ملیں اور دوبارہ دیکھا۔ابھی جہاں میں ایک آدمی کی کچلی ہوئی لاش دیکھ کر آرہا تھا اس آئینے میں وہاں آدمی کی جگہ ایک موٹا خنزیر کُچلا ہو ا نظر آرہا تھا ۔یاخدا یہ کیا ماجراہے ۔’’نور خان ادھر آؤ ۔میں گھبرا گیا تھا ۔ادھر بیٹھو اور بیک مرر میں دیکھ کر بتاؤ کیا نظر آرہا ہے ۔’’
سس۔۔۔۔سر ۔یہ تو خنزیر ہے ۔نور خان بھی گبھرا گیاتھا میں نے نیچے اتر کر دوبارہ دیکھا ۔نیچے انسان کی لاش پڑی تھی پھر میں نے دوبارہ بیک مرر میں دیکھا لیکن وہاں سے وہ انسان کی لاش خنزیر کی لاش ہی نظر آرہی تھی ۔نہ جانے یہ کیا معمہ تھا ۔!میری عقل دنگ رہ گئی تھی اور پھر سب مسافروں نے باری باری ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر یہ منظر دیکھا ۔سب کے ساتھ یہی معاملہ پیش آرہا تھا ۔اگر صرف ڈرائیور یا کوئی ایک آدھ شخص ایسا دعویٰ کرتا تو اس کی عقل پہ یقیناًسب ہی افسوس کرتے ۔لیکن یہ عجیب منظر تو سب ہی دیکھ رہے تھے ۔اب مجھے ڈرائیو ر کے اطمینان کی وجہ سمجھ میں آرہی تھی ۔لیکن یہ بات بہت حیرت انگیز تھی کہ وہ شخص کو ن تھا جو یوں خنزیر کی شکل میں موت کا شکار ہوا تھا ۔میں نے ضابطے کی کاروائی مکمل کی ۔لاش پوسٹ مارٹم کیلئے بھجوائی اور بس ڈرائیور کو تھانے لے آیا ۔میں نے اسے پہلے ٹھنڈا پانی پیش کیا اور پھر اس سے بیان دینے کو کہا اس نے بیان ریکارڈ کروانا شروع کیا ۔’’
میرا نام شکیل احمد ہے ۔میں معمول کے ڈرائیوروں سے ذرا مختلف ہوں میں نشہ نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی دوسری برائی مجھ میں موجود ہے ۔میں ایک شریف شہری ہوں ۔نہ ہی حد رفتار سے بڑھ کر گاڑی چلاتا ہوں گاڑی چلاتے ہوئے بھی ٹریفک قوانین کا خیال رکھتا ہوں ۔آج بھی میں حسب معمول اپنے روٹ پر گاڑی چلا رہا تھا ۔آج جب مصریال روڈ سے میرا گذر ہوا تو دائیں طرف کھیتوں سے میں نے ایک موٹے خنزیر کو نکلتے دیکھا ۔میری گاڑی جب تک کھیتوں کے قریب پہنچی وہ سڑک پہ آچکا تھا ۔میں نے تیزی سے گاڑی اس پر چڑھائی لیکن وہ پھرتی سے کچے میں اُتر گیا۔ میں اس کے تعاقب میں کچے میں گاڑی اُتار لے گیا ۔وہ پھر سڑک پہ چڑھا اور میں اس کے پیچھے سڑک پہ چڑھا اور میں نے اسے وہیں جا لیا ۔مجھے نہیں معلوم کہ ایک انسان مجھے خنزیر کی شکل میں کیوں نظر آیا اور میرے دل میں اسے مارنے کی خواہش کیوں اُبھری۔ میں کوئی شکاری بھی نہیں ہوں ۔میں نے تو کبھی چڑیا بھی نہیں ماری ۔اگر مجھے پتا ہوتاکہ یہ خنزیر نہیں بلکہ انسان ہے تو میں اپنی جان پر کھیل جاتا لیکن کسی انسان کی جان ہر گز نہ لیتا ۔
مسافروں میں سے ایک آدمی نے مقتول کو شناخت کیا تھا ۔ بقول اس کے وہ اسی کے گاؤں کا رہائشی تھا ۔گاؤں جائے وقوعہ سے قریب ہی تھا میں نے وہیں سے نور خان کو اس کے ساتھ گاؤں روانہ کر دیا تھا ۔کچھ گھنٹوں بعد ہی نور خان کی واپسی ہو گئی تھی ۔وہ گاؤں سے ساری معلو مات اکٹھی کر لایا تھا ۔
ان تفصیلات کے مطابق ۔مقتول کا نام شمس تھا ۔شمس کا بھائی رزاق بھی نور خان کے ساتھ ہی آیاتھا ۔میں نے رزاق کو رات تھانے میں ہی گذارنے کا حکم دیا ۔اگلے دن میں نے دو سپاہیوں اور رزاق کو ساتھ لیا اور گاؤں پہنچ گیا –
یہی گھر ہے جناب ! نور خان جو ایک دن قبل ہی تمام معلومات لے گیا تھا اس نے ایک گھر کے سامنے رُکتے ہوئے اشارہ کیا ۔
وہ ایک بہت معمولی سا کچا گھر تھا ۔گھر والوں کی عسرت کا اندازہ با ہر ہی سے ہو رہا تھا ۔میں نے آگے بڑھ کے دروانے پر دستک دی ۔تھوڑی دیر بعد ایک چار پانچ سالہ لڑکا دروازے پر نمودا ر ہوا –
بیٹے امی کو بلاؤ ۔میں نے اسے پیار سے تھپکا تو وہ خاموشی سے اندر چلا گیا ۔کچھ ہی دیر بعد دروازے کے پیچھے ایک عورت نمودار ہوئی ۔وہ درمیانی عمر کی معمولی شکل و صورت کی عورت تھی اور پولیس کو اپنے دروازے پر دیکھ کر گھبرا گئی تھی ۔بی بی گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہمیں تم سے کوئی ضروری بات کرنی ہے اور تمہاری ایک امانت ہمارے پاس ہے ہم وہی تمہارے حوالے کرنے آئے ہیں ،کیا بیٹھنے کی کوئی جگہ ہے ؟میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تو اس نے ڈرتے ڈرتے دروازہ پورا کھول دیا اندر ایک چارپائی اور دو کرسیاں رکھی تھی ۔میں اور میرے ساتھی چارپائی پر براجمان ہو گئے ۔عورت سہمی ہوئی ایک طرف کھڑی تھی ۔’’بی بی تم بھی بیٹھ جاؤ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ بھی بیٹھ گئی۔

تمہارے شوہر کا انتقال کب ہوا نور خان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں میں نے اس سے پہلا سوال کیا ۔؟ابھی تو اس کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ۔وہ ایک دم ہی سسک پڑی ۔کل ہی اس کا چالیسواں ہوا ہے ۔اس کی موت کے بعد کوئی تم سے اُدھا ر مانگنے آیاتھا۔؟’’ جی آیا تھاایک نا ہنجار ۔خدا اسے غارت کرے شمس نام تھا اس کا کہہ رہا تھا کہ میرے شوہر نے اس سے چالیس ہزار لیئے تھے ۔ہماری گاؤں میں ایک مرلہ زمین تھی میرے شوہر نے کاروبار کے چکر میں وہ چالیس ہزار میں فروخت کر دی اسی شمس کے کہنے میں آکر اُسے تو مہلت نہ ملی لیکن اس کی مو ت کے بعد شمس مجھ سے چالیس ہزار مانگنے لگا اسے پتا تھا کہ یہ رقم میرے پاس ہے اُس کا کہنا تھا کہ کریم بخش نے چالیس ہزار اس سے قرض لیا تھا ۔میں نے اس جھوٹے کی بڑی منتیں کی کہ میرا شوہر ایسا نہیں تھا ہم فاقے کرتے تھے لیکن ہم نے کبھی قرض نہیں لیا جو بھی وہ مزدوری کر کے لاتا تھا ہم اسی میں گذر بسر کرتے تھے ۔اور اگر اس نے قرض لیا تھا تو وہ رقم کہاں گئی ۔کریم بخش تو مجھے بتائے بغیر کوئی کا م نہیں کرتا تھا ۔اتنی بڑی رقم کا اس نے کیا کیا ۔

لیکن شمس نے میری ایک نہیں سنی وہ کہہ رہا تھا مجھے پیسے ابھی چاہیں ۔میرے انکار پر اس نے شور ڈال کر محلے والوں کو اکٹھا کر لیا محلے والے جمع ہو گئے ۔اس نے سب کے سامنے قرآن اُٹھا لیا پھر محلے والے تو پیچھے ہٹ گئے اور توبہ توبہ کرتے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔میں تو جانتی تھی کہ ہم نے اس سے کوئی قرض نہیں لیا وہ جھوٹا ہے ۔لیکن اب تو وہ قرآن اُٹھا گیا تھا اور میرے پاس تو کوئی ثبوت بھی نہیں تھا ۔مجھے وہ پیسے اُسے دینے پڑے ۔ہمارے پاس بس وہی جمع پونجی تھی جو کل وہ کمبخت مجھ سے لے گیا ۔یہی تفصیلات تھیں جو کل نور خان معلوم کر گیا تھا اور میں آج شمس کے بھائی رزاق کو لے کر اس مظلوم عورت کی امانت اس کے چالیس ہزار روپے اسے دینے یہاں پہنچا تھا ۔شمس کل چالیس ہزارلے کر واپس جا ہی رہا تھا کہ راستے میں ہی اللہ کے عتاب کا شکار ہو گیا۔اس نے اللہ کی مقدس کتاب کو گواہ جو بنایا تھا ۔میں نے شمس کے ساتھ پیش آیا تمام واقعہ کریم بخش کی بیوہ کے گوش گزار کیا تو وہ سکتے کی سی کیفیت میں آگئی ۔میں نے شمس کے بھائی رزاق کو اشارہ کیا ۔وہ آگے بڑھا اور روپوں کا لفافہ اس کے سامنے رکھ دیا اور بولا ۔’’بہن ہمیں معاف کردو ۔یہ تمہاری رقم ہے تمہیں لوٹا رہے ہیں ۔شمس نے بڑی غلطی کی ،تمہارے ساتھ بہت زیادتی ہوئی اور شمس نے اپنے اس ظلم کا گواہ اللہ کی مقدس کتاب کو ٹھہرایا جس کی اسے بہت بڑی سزا ملی ۔ اس کا عبرت ناک انجام سب دیکھ ہی چُکے ہیں۔! پتا نہیں اس کی بخشش ہو گی بھی یا نہیں یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن ہم بے قصور رہیں شمس کے گناہ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تم ہمیں معاف کر دینا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کریم کی بیوی بالکل خاموش تھی وہ آسمان کی طرف منہ کیئے ہوئے روئے چلی جارہی تھی ۔بلاشبہ اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے ۔یہ میری پیشہ ورانہ زندگی کا انوکھا کیس تھا جو بغیر کسی کاروائی کے مکمل ہوا ،جس کا میں نے کوئی پرچہ درج نہیں کیا تھا ۔شمس نے اپنے فریب کا گواہ کلام الہی کو بنایا تھا اور وہ قدرتِ الہی کے غضب کا شکار ہو کر خنزیر کی صورت میں موت کا شکار ہوا ۔دوسری طرف بے گناہ اور حقداروں کو خدا نے ان کا حق لو ٹا دیا تھا ۔یہ اللہ کی قدرت اوراس کی کتاب کی صداقت کی گواہی تھی ۔

روبینہ نازلی کی کتاب “کہانی “سے انتخاب!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply