راز پر لب کشائی۔۔۔خط نمبر 7 اور 8۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل/مقدس مجید

خط نمبر07
انتخاب
عزیز ڈاکٹر سہیل!
اینزائٹی’ ڈیرپیشن اور او سی ڈی  نے ماضی میں میری زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ کبھی تو میں ان مسائل سے بالکل اپاہج ہو جاتی تھی۔ حتیٰ کہ آج بھی یہ مجھے متاثر کرتے ہیں مگر اُس شدت سے نہیں۔ بار بار چیزیں چیک کرنے کی عادت سے مفلوج ہو جانے کے خوف کے بغیر میں اب باہر جا سکتی ہوں۔ بس مجھے دروازے کو تالا لگانے میں کسی عام شخص سے کہیں زیادہ وقت لگتا ہے۔ ہر رات میری چولہے اور دروازے کھڑکیوں کے تالے چیک کرنے کی عادت اچھا خاصا وقت لیتی ہے لیکن اس کے بعد میں سونے جا سکتی ہوں۔ اب یہ ایسی چیز بن گئی ہے جس کے ساتھ میں نے جینا سیکھ لیا ہے۔ کافی عرصہ پہلے ایک تھراپسٹ نے مجھے بتایا کہ او سی ڈی بچپن میں ہوئی جنسی زیادتی کی ایک نشانی ہو سکتا ہے۔ اس وقت میں تھراپسٹ کی بات کا یقین نہیں کر پائی تھی کیونکہ میری یادداشت میں بچپن میں ہوئی جنسی زیادتی کے حوالے سے کچھ نہیں تھا لیکن اب مجھے اس کی بات پر یقین  ہے۔ ستائیس سال کی عمر میں جب میں نفسیاتی ہسپتال میں سائیکو تھراپی پروگرام میں زیرِ علاج تھی اس وقت تک میرا ذہن اِس جنسی زیادتی کے حوالے سے بالکل خالی تھا۔
سائیکو تھراپی پروگرام میں میرے داخلے سے پہلے مجھے داخلے کے وارڈ میں تشخیص کے لیے رکھا گیا۔ وہاں میرا واسطہ ایک سخت اور بدلحاظ سینڈی نامی نرس سے پڑا جس نے مجھ سے کہا کہ اگر میں نے جانے کی کوشش کی تو وہ مجھے بغیر مرضی کے رہنے والے INVOLUNTARY WARD میں بھیج دے گی۔ انتخاب میرے ہاتھ میں تھا۔ سینڈی کوئی مذاق نہیں کر رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا ” بالآخر کوئی تو ہے جو مجھے اپنے آپ سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ شاید مجھے یہاں وہ مدد میسر آ جائے جس کی میں ایک عرصے سے  متلاشی ہوں۔” میں نے وہاں ٹھہرنے کو ترجیح دی۔ داخلے کے وارڈ میں یہی نرس مجھے ہرروز چیلنج کرتی رہی۔ ایک دن اس نے پوچھا  “تمہیں کیا لگتا ہے کہ اس سے پہلے کہ تمہارے شوہر اور گھر والوں کو تم سے دور ہونا پڑے کیونکہ وہ تمہیں اپنے آپ کو اذیت دیتے نہیں دیکھ سکتے۔ ایسا کب تک چلے گا؟” میں نے اپنے شوہر اور گھر والوں کے بغیر اپنی زندگی کے بارے میں سوچا اور مجھے یہ تصور بالکل بھی اچھا نہ لگا۔ اس نے مجھے خوفزدہ کر دیا۔ مجھے ابھی بھی خودکشی کے خیالات آتے تھے مگر میں اپنے آپ کو اذیت دینے کی بجائے اپنی نرس سے بات چیت کر لیتی۔ سینڈی ابھی بھی مجھ پر سختی کرتی تھی مگر مجھے لگتا تھا جیسے وہ میرے ساتھ مخلص تھی۔
ایک دن سائیکو تھیریپی وارڈ میں داخل ہونے کی حقیقت مجھ پر بری طرح سے آشکار ہوئی۔ مجھ سے چند سال چھوٹی ایک مریضہ نے کہا کہ میں صبح تین بجے کے قریب باتھ روم میں جانے سے گریز کروں۔ اپنے آپ کو کسی بھی مصیبت سے دور رکھنے کے لیے میں اس مریضہ اور باتھ روم دونوں سے دور رہی۔ صبح چار بجے کے قریب جب میں مزید انتظار نہ کر سکی تو ہال کے نیچے باتھ روم میں چلی گئی۔ میں اندر گئی تو وہاں فرش پر خشک ہوا خون پایا۔ جب میں باتھ روم سے نکلی تو میں نے اس لڑکی کو ہال میں کھڑے اپنے بازو کو پٹی سے دباتے ہوئے دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور مجھے اپنے بازو کے اندر کی طرف گہرا بڑا زخم دکھانے کی نیت سے پٹی کو ہٹا دیا۔ میں واپس اپنے کمرے میں دوڑ آئی۔ اگلی صبح جب میں اس سے ملی تو میں نے اس حرکت کی وجہ پوچھی۔  مجھے امید تھی کہ اس کا جواب یہ ہو گا کہ وہ درد کو مزید جھیل نہیں پا رہی تھی تبھی اس نے ایسا کیا لیکن اس کے جواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ اس نوجوان مریضہ نے کہا کہ اس نے ایسا اس لیے کیا تاکہ وہ اس نرس کو مزا چکھا سکے جس نے اس سے کچھ مراعات چھینے تھے۔ اس مریضہ کے نزدیک یہ سب کسی کھیل جیسا تھا۔ مجھے اس کی نرس پر ترس آیا جو دل سے اس کی مدد کرتی دکھائی دیتی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بلیڈ کہاں سے آیا جبکہ ہر مریض کی یہاں داخل ہوتے۔ وقت تلاشی لی جاتی ہے۔ وہ مسکرائی اور مجھے اپنے پیچھے واش روم میں آنے کا کہا۔ وہ ایک اسٹال میں داخل ہوئی اور  کھڑکی کے فریم کے اوپر سے ایک زنگ لگا بلیڈ پکڑا۔
“لیکن تم نرسوں کے ہاتھ لگے بغیر اس بلیڈ کو یہاں تک کیسے لے آئی؟”
 اس نے بتایا کہ وہ اس بلیڈ کو اپنی اندام نہانی میں چھپا کر لائی تھی اور مجھ سے کہا کہ میں جب چاہوں اسے استعمال کر سکتی ہوں۔ مجھے اس کی بات سن کر زور کا جھٹکا لگا۔ میں واش روم سے باہر کی طرف بھاگی اور اس کے بعد اس لڑکی سے دور رہنے لگی۔  میں نے قسم کھائی کہ بیماری کی اس الگ اور شدید حد تک پہنچنے سے خود کو بچاؤں گی۔
بعد میں یونٹ کے ماہرِ نفسیات نے مجھ سے پوچھا کہ میں  اپنے مسائل کے لیے عارضی اور وقتی حل چاہتی ہوں یا دیرپا حل۔ میں نے بےتابی سے جواب دیا کہ دیرپا حل۔ میں نے پہلے مرہم پٹیوں کا بہت سہارا لیا تھا مگر ان سے بہتری نہیں آتی۔ میں اپنے مسائل کا دیر پا حل چاہتی ہوں ورنہ میں یہ سب کرتی جاؤں گی جب تک مر نہ جاؤں۔ دیرپا حل کے لیے انھوں نے مجھے ہسپتال کے نفسیات کے پروگرام میں نو مہینوں کے قیام کی پیشکش کی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے نفسیات کے پروگرام کے اسٹاف کو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریضوں کی زندگیاں بدلتے دیکھا ہے۔ اس یونٹ کے مریضوں کو تمام ادویات ترک کر دینا ہوتی تھیں اور شراب یا نشہ آور ادویات سے گریز کرنا ہوتا تھا۔ وہ پورا ہفتہ یونٹ میں رہتے اور ہفتے کے اختتام پر اپنے گھروں کو جا سکتے تھے۔ پروگرام میں داخلے کے لیے مجھے اپنی تمام ادویات اور خود کو نقصان پہنچانے کی کاوش سے دور رہنا تھا۔ میں نے داخلے کے وارڈ پر کہا کہ مجھے کیا کرنا ہوگا اگر میں نفسیات کے پروگرام میں اگر جلدی جانا چاہوں ؟ یونٹ کی ماہرِ نفسیات نے مذاق میں کہا
 “ہمیں جلد ہی تمہیں یہاں سے فارغ کرنا ہو گا کیونکہ اگر تم یہاں پاگل شخص کے طور پر آئی نہیں ہو تو زیادہ قیام کی وجہ سے پاگل ہو جاؤ گی”.
تین ہفتوں کے طویل وقت میں مجھے سائیکو تھیریپی کے وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ سینڈی کا رویہ میرے ساتھ سخت ہی رہا۔ وہ مجھے یاد دلاتی رہی کہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی کوشش سائیکو تھیریپی کے وارڈ میں میری درخواست منسوخ کر دینے کے لیے کافی ہو گی۔ اس نے مجھے حوصلہ دیا کہ جب کبھی بھی خودکشی کے خیالات آئیں میں اس کے پاس جا سکتی ہوں۔ وہ مجھے بتاتی رہتی کہ
 “تم جوان اور ذہین ہو۔ تمہاری زندگی کو اس طرح نہیں ہونا چاہئیے”.
 ایسی بھی راتیں گزریں جب میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی سوچوں سے پریشان ہو جاتی اس وقت یہ ہمدرد عورت باتوں سے مجھے پر سکون کرتی اور یہ بتلاتی کہ سائیکو تھراپی پروگرام کے علاج کے بعد میں اصل زندگی گزارنے کے قابل ہو جاؤں گی۔ میں نے اور اس نے کبھی ہمت نہ ہاری۔
یہ سب سینڈی کے لیے بھی میری وجہ سے آسان نہیں تھا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھے میرے وجود سے جان کیوں چھڑا لینے نہیں دیتی تو اس کے الفاظ میرے درد میں کمی کا باعث بنتے۔ “اگر تم واقعی خودکشی کرنا چاہتی ہو تو میں تمہیں روک نہیں سکتی کیونکہ جیسے ہی تم یہاں سے نکلو گی تم ایسا کر سکو گی۔ میں صرف اس صورت میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں اگر تم چاہو۔ میں جانتی ہوں کہ تم واقعی بڑی اذیت میں ہو اور چاہتی ہو کہ یہ درد تھم جائے۔ اگر تم چاہو تو ہم تمہاری مرد کر سکتے ہیں لیکن تمہارے مر جانے کی صورت میں ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔”
کسی اور رات  جب مجھے خودکشی کے خیالات بہت شدت سے آ رہے تھے۔ اس وقت میں کمرے میں پڑی سوچ رہی تھی کہ کھڑکی  کے شیشے کو توڑ کر شیشے کا ٹکڑا حاصل کروں لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ تاروں کے جال کی وجہ سے میں شیشے کے ٹکڑوں تک پہنچ بھی پاؤں گی یا نہیں۔ اس وقت سینڈی آ گئی اور  مجھے اس حالت میں دیکھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں کھڑکی کا شیشہ توڑ کر اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ اس کے جواب نے مجھے محتاط کر دیا
 “ٹھیک ہے۔ لیکن ہسپتال کھڑکی کے شیشے کو ٹھیک کرنے کا جرمانہ تم پر ڈال سکتا ہے” اس نے کہا۔
اس کے نتائج میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ بہت سے نفسیاتی مریضوں کو اپنے مرض کی وجہ سے ڈھیل بھی مل جاتی ہے۔ اپنے اقدام کی ذمہ دار ٹھہرا دیے جانے کی سوچ مجھے چونکا رہی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا لیکن نتائج کی سوچ بعد میں بھی آتی رہی۔ اب چونکہ وہ میری توجہ حاصل کر چکی تھی لہٰذا اس نے میری شدید اداسی کی وجہ کے بارے میں پوچھا۔
گزشتہ رات مجھے خودکشی کے خیالات آ رہے تھے تو میں نے کسی اور نرس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے صبح تک کا انتطار کرنے کو کہا تاکہ میں اپنی نرس سے بات کر سکوں۔ وہ میری کوئی بھی بات نہیں سننا چاہتا تھا اور اس کو اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ میں اپنی جان لینے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس نے مجھے دھمکایا کہ اگر میں اپنے کمرے میں واپس نہ گئی تو وہ مجھے isolation روم میں بند کر دے گا۔ اس واقعے سے میں نے یہ سیکھا کہ مجھے مدد کے لیے سینڈی جیسے لوگوں کے پاس جانا چاہئیے جو واقعی میری مدد کرنا چاہتے ہیں نہ کہ اس نرس جیسے کمینے لوگوں کی۔
ڈاکٹر سہیل!
جب میں ماضی کی طرف نظر دوڑاتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایسے بہت سے مواقع تھے جہاں مجھے انتخاب کرنا تھا۔ جھیل کنارے اپنے ہاتھوں میں بلیڈ لیے میں نے مدد حاصل کرنے کو ترجیح دی۔ داخلے کے وارڈ میں میں نے نرس پر بھروسا کر کے اس کے ساتھ کھل کر اپنے معاملات کا اظہار کیا اور اس کی مدد حاصل کی۔ ایسے بھی دن گزرے جب میں مر جانا چاہتی تھی لیکن مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ میں صرف درد سے نجات چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ کوئی شخص میرا خیال رکھے اور میری مدد کرے۔ میں چاہتی تھی کہ میں کسی کے لیے اہم بنوں۔ داخلے کے وارڈ کی نرس اور ماہرِ نفسیات نے میرا بہت خیال رکھا اور حقیقتاً میری مدد کی۔ وہ مجھ میں تبدیلی لے کر آئے اور سیدھے راستے کی طرف مجھے موڑا۔ وہ راستہ سائیکو تھراپی پروگرام کا راستہ تھا۔
میں نے اپنے خودکشی کی کوشش کے وقت کے احساسات پر ایک نظم The Shore of Nowhere لکھی۔ یہ میری نظموں کی طویل فہرست میں سے پہلی نظم تھی۔
گمنام کنارا
ایک جمتی ہوئی بارش
مجھے یاد دلاتی ہے
اس وقت کی
جب میں
کنارے پر کھڑی تھی
ایک گمنام کنارہ
زندگی اور موت کے درمیان
باریک سی لکیر
کا سوچتی ہوئی
اپنے ذہن میں گونجتے
گیت کے ساتھ گنگناتی ہوئی
میں
اس کی شاعری
اور دھن کو
خود میں سمانے لگتی ہوں
کہ یہ میرے درد کو
آرام دے
پھر ایک لمحے کے لیے
میں اس گیت کو
اپنے ذہن سے نکال باہر کرتی ہوں
اور
اس لکیر کی جانب
واپس مڑتی ہوں
جیسے ہی لہریں
کنارے سے ٹکراتی ہیں
میں چلاتی ہوں
“کہ اب اور نہیں!”
ایک بےفکرے آسمان سے
جو مجھے دھیرے دھیرے مرتے
دیکھتا رہتا
جب میں
ایک گمنام کنارے پر
 پڑی ہوئی تھی۔
مخلص
جیمی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خط نمبر08
ادویات
عزیز ڈاکٹر سہیل!
مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ دوا کو تھراپی کے دوران ضرورت پڑنے پر تجویز کرتے ہیں نہ کہ تھراپی کی جگہ۔  نفسیات کے ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے میں جس ڈاکٹر کے زیرِ علاج تھی وہ ادویات کے ذریعے ہی علاج کرتے تھے اور مریض سے بات چیت کے ذریعے تھراپی (Talk Therapy) بہت کم تھی۔ ڈے ٹریٹمنٹ  والا ماہرِ نفسیات ایک اچھا آدمی تھا لیکن وہ بھی ادویات کے ذریعے علاج پر ہی توجہ دیا کرتا تھا۔ میں جن سے بھی ملی آپ وہ پہلے ماہرِ نفسیات جن کے زیادہ تر مریض ادویات پر نہیں بلکہ آپ کی توجہ بات چیت کے ذریعے تھراپی پر ہوتی ہے نہ کہ ادویات پر۔
ہماری ملاقات کے ابتدائی سالوں میں میں psychotropic ادویات کے بہت خلاف تھی۔ اس سے چند سال پہلے ہی میں سائیکو تھراپی یونٹ سے باہر آئی تھی جہاں ادویات منع تھیں۔ اس وجہ سے ان ادویات کے متعلق میرا ماننا یہی تھا کہ مجھے ان ادویات کی ضرورت تھی اور نہ ہی خواہش۔ پہلے ماہرِ نفسیات نے مجھے بہت سی دوائیوں پر لگا دیا تھا جن سے میرے ذہن پر ہر وقت دھند چھائی رہتی۔ اس تجربے کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ایسی ادویات کبھی بھی استعمال نہیں کروں گی۔
آپ کے ادویات کے موضوع کو چھیڑنے سے پہلے ہم نے سالوں ایک ساتھ کام کیا۔ میں ادویات کے بہت خلاف تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ Antidepressants کی وجہ سے میرا خود پر سے اختیار ختم ہو جاتا ہے اور خودکشی کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ دو جوان بچوں کی ماں ہونے کے ناطے میں ایسے جذبات نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ میں اپنے بچوں کے لیے ہمیشہ زندہ رہنا چاہتی تھی۔  بد قسمتی سے میرے ڈپریشن کی ساتھ ساتھ میری عدم برداشت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ میں بات بات پر غصہ کرنے لگی۔ اس بات نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا کیونکہ پہلے یہ میرے مزاج کا حصہ نہ تھی۔ مجھے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے خیالات بھی آنے لگے جن سے میں مزید خوفزدہ ہو گئی۔ سائیکو تھراپی کے یونٹ میں مجھے یہ بات سکھائی گئی تھی کہ ایسے خیالات کا پیدا ہونا مسئلے کی بات نہیں جب تک آپ ان پر عمل پیرا نہ ہونے لگیں۔  میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں خوفزدہ تھی کہ کہیں میرا ڈپریشن آپے سے باہر ہوگیا تو میں ان خیالات پر عمل پیرا ہو جاؤں گی۔  اس وقت آپ نے ادویات کا ذکر کیا اور میں نے آپ کی بات پر غور بھی کیا۔
آپ نے مجھے بتایا تھا کہ میں Cyclothymic ہوں جو کہ  Bipolar Disorder کی ہلکی سی شکل ہے۔ آپ نے وضاحت کی کہ میرے مزاج میں اتار چڑھاؤ کو موڈ اسٹیبلائزر سے آفاقہ ہو گا نہ کہ Antidepressant سے۔
ایک اینٹی ڈپریسنٹ میرے لیے حالات کو بدترین بنا سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔  Prozac اور دوسری اینٹی ڈپریسنٹ لیتے وقت میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والی سوچوں سے روک نہیں پاتی تھی اور یوں میں تین مرتبہ ہسپتال میں داخل بھی رہی۔ میں نے Cyclothymia کی نشانیوں پر تحقیق کی اور مجھے احساس ہوا کہ شاید میں Cyclothymic ہی تھی۔ مجھے دوبارہ سے بےچینی اور خوف محسوس ہونے لگا۔ چاہے میں ادویات کے خلاف ہی تھی پھر بھی میں نے آپ پر بھروسہ کرتے ہوئے علاج کروانا جاری رکھا۔ میں ایک موڈ اسٹیبلائزر Carbamazepine کے استعمال پر راضی ہو گئی۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی طبیعت میں بہتری دیکھی۔ جیسے اینٹی ڈپریسنٹ لیتے وقت میں آپے سے باہر محسوس کرتی تھی اس دفعہ ایسا نہیں تھا۔ میں خوشی محسوس کر سکتی تھی۔ اس سے مجھے مزاج میں توازن قائم رکھنے کی کوشش  میں مدد ملی۔
آج بھی میں Carbamazepine استعمال کرتی ہوں اور یہ ابھی بھی فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے۔ میں آپے سے باہر محسوس نہیں کرتی اور اگر کبھی ڈپریشن محسوس ہو بھی تو وہ اتنی شدت سے دیر تک نہیں رہتا۔ میں ایک نارمل زندگی گزار سکتی ہوں۔ میں نے اور میرے شوہر نے دو ذہین، خیال رکھنے والے اور ذمہ دار بچوں کی پرورش کی جو اب بالغ ہو جانے کے بعد اپنی اپنی زندگیوں اور محبت کے رشتوں کی ڈوریں اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ گزشتہ پچیس سال میں ڈپریشن کی وجہ سے میں کبھی ہسپتال داخل نہیں ہوئی۔
لیکن ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جانے میں صرف ادویات کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ اس کہانی میں اور بھی بہت سے عناصر اور کردار تھے۔۔۔۔۔
مخلص
جیمی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply