لفٹ ۔۔۔۔۔ کے ایم خالد/افسانہ

مجھے دفتر آنے کے لئے عموماً لفٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ میرا دفتر کسی مین روڈ پر نہیں ہے اور اگر میں اپنے گھر سے مین روڈ تین کلومیٹر پیدل آ بھی جاؤں تو دفتر تک مجھے تین ویگن بدلنا پڑتی ہیں اس قباحت سے بچنے کے دو حل ہیں یا تو ٹیکسی لوں یا پھر لفٹ ،ٹیکسی میں افورڈ نہیں کر سکتا اس لئے مجھے ہفتے میں پانچ دن لفٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ ہفتہ اتوار دفتر بند ہوتا ہے ۔میں لفٹ لینے کے لئے عموماً سڑک کے بیچ تک چلا جاتا ہوں جس سے بعض اوقات گاڑی یا موٹر سائیکل کے ڈرائیور کو ہنگامی بریک بھی لگانے پڑ جا تے ہیں لیکن میرے اس عمل سے مجھے لفٹ ملنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ اس سوموار مجھے مین روڈ تک پہنچتے کافی دیر ہو چکی تھی میں نے ایک سرخ رنگ گاڑی کو دیکھا اس کی رفتار قدرے تیز تھی میں نے اپنا طریقہ آزمایا اور ڈرائیور کو مجھے بچانے کے لئے ہنگامی بریک لگانے پڑے وہ مجھے شیشے میں سے غصے سے دیکھ رہا تھا میں لفٹ کے لئے انگوٹھے کا اشارہ کیا اس نے قریب آنے کا اشارہ کیا اور ڈرائیور کے ساتھ والا فرنٹ دروازہ کھول دیا ۔’’چوٹ تو نہیں لگی ‘‘۔
’’نہیں ‘‘میں سپاٹ لہجے میں جواب دیا
’’کہاں جانا ہے ۔۔۔۔؟ ‘‘ اس نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے کہا
میں نے اسے اپنے دفتر کے ایڈریس سے آگاہ کیا
دفتر کے قریب اترتے ہوئے میں نے اس سے کہا ’’ معافی چاہتا ہوں میں نے آپ کو تنگ کیا ‘‘
’’ نہیں کوئی بات نہیں ،مجھے آپ کے کام آ کر خوشی ہوئی ‘‘۔
دوسرے دن مجھے پھر اسی وقت پر وہی کار نظر آ گئی اور میں نے اس کے ساتھ کل والی حرکت دہرا دی ۔مجھے اس گاڑی والے نے خوش دلی سے پھر ڈراپ کر دیا میں نے اترتے ہوئے پوچھا ’’ آپ کا روٹ یہی ہے ‘‘
’’نہیں ،روٹ تو یہ نہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا ۔۔۔۔؟ ‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا
لیکن اس نے گاڑی آگے بڑھا دی
اس سے اگلے دن پھر مجھے لفٹ مل گئی زندگی کچھ پر سکون سی محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی اسی لفٹ کے سہارے یہ پورا ہفتہ اختتام پذیر ہوا ۔دودن کی چھٹی کے بعد سوموار کے روز میں پھر اسٹاپ پر تھا لیکن سرخ رنگ کی گاڑی نظر نہیں آ رہی تھی میں نے کسی موٹر سائیکل والے سے لفٹ لینے کا سوچا اتنی دیر میں مجھے وہی گاڑی نظر آ گئی میں فوراً لفٹ کے لئے انگوٹھا اٹھائے سڑک کے درمیان تک پہنچ گیا ۔نوجوان نے گاڑی روک لی اور میں اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا ابھی میں دفتر سے کافی پیچھے تھا کہ اس نے گاڑی روک دی اور میری طرف دیکھنے لگا مجھے اس کے اس طرح دیکھنے سے گھبراہٹ ہو رہی تھی ’’ کیا بات ہے ۔۔۔۔؟‘‘ میں گھبراتے ہوئے کہا
’’ وہ آپ سے ایک بات کرنا تھی سوچ رہا ہوں کروں یا نہ کروں ‘‘۔
’’ہاں ،ہاں کہیں ‘‘۔ میں نے بڑی مشکل سے کہا
’’ بات یہ ہے میرے والد صاحب بیمار ہیں اور ان کو ایک گردے کی اشد ضرورت ہے اور اس بیماری کے ساتھ انہیں جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لئے بھی ایک ڈونر کی ضرورت ہے ۔اگر آپ ہماری یہ مشکل حل کر دیں تو ‘‘
میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سی لہر اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی یوں لگ رہا تھا جیسے جسم میں خون کی جگہ چیونٹیاں سی رینگ رہی ہوں وہ عجیب سی نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا
’’گاڑی ہسپتال کی طرف موڑوں ،چلیں آج ٹیسٹ تو کروا لیں ‘‘۔
اس نے اگنیشن میں چابی گمائی میں یک دم ہوش میں آ گیا ’’وہ بات دراصل یہ ہے دفتر میں میرے ذمے ایک اسپیشل اسائنمنٹ ہے ،اور میں نے ابھی گھر بھی نہیں بتایا میں آپ کو کل بتاؤں گا ‘‘۔میں نے اسے اعتماد میں لیا
’’ڈاکٹر نے ایک ہفتے میں سارے انتظامات کا کہا ہے ،ہمارے پاس  زیادہ وقت نہیں میں آپ کا کل انتظار کروں گا اور ایک اور بات آپ نے ہسپتال میں اپنے آپ کو ابا جان کا بھائی ظاہر کرنا ہے یہ ہسپتال والوں کی طرف سے مجبوری ہے ‘‘۔
’’ٹھیک ‘‘ میں نے دروازہ کھولا اور گاڑی سے باہر نکل آیا
’’وہ ابھی آپ کے دفتر والا اسٹاپ تو آیا ہی نہیں ‘‘ ۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا
’’ میں بس چلا جاؤں گا ‘‘
کبھی ذہن میں آتا شاید اس نے میری لفٹ سے جان چھڑانے کے لیے  یہ ساری کہانی گھڑی ہو لیکن دوسرے ہی لمحے یہ سوچ کر دل بیٹھ جاتا کہ اگر یہ سب کچھ سچ ہوا ۔۔۔
مجھے دفتر میں ہی حرارت محسوس ہو رہی تھی چھٹی تک میں اچھا بھلا بخار میں تپ رہا تھا سارا جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا افسر نے میری حالت دیکھتے ہوئے اپنے چپڑاسی کو مجھے موٹر سائیکل تک گھر چھوڑنے کے لئے کہا ۔چپڑاسی مجھے گھر چھوڑ گیا بخار کی شدت کم نہ ہو سکی بیوی اور بچے پریشا ن تھے جسم کانپ رہا تھا لیکن ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کہا انہیں ملیریا نہیں ہے کوئی خوف ہے جس کی وجہ سے ایسا بخار ہوا ہے ۔
دوسری صبح میں نے اپنے بیٹے کو گاڑی کا  نمبر دیا اور اسٹاپ تک بھیجا کہ چیک کرو یہ گاڑی تو وہاں نہیں کھڑی ۔تقریبا ً ایک گھنٹے بعد بیٹے نے آ کر بتایا کہ گاڑی اسٹاپ پر پینتیس منٹ کھڑی رہی میں نے دفتر سے چھٹی کر لی ۔بخار اترتا پھر چڑھ جاتا جسم سے گردے اور جگر کھسکتا ہوا محسوس ہوتا ۔دوسرے دن بھی مخبر یہی خبر لایا کہ گاڑی وہاں ایک گھنٹہ کھڑی رہی ۔تیسرے دن بھی حالات یہی رہے گاڑی بھی گھنٹہ کھڑی رہی ۔اس کے بعد ہفتہ اور اتوار کے دن تھے ان دنوں میں گاڑی بھی نظر نہیں آئی اور طبیعت بھی کچھ بہتر ہوئی میں اپنے بیٹے کے ساتھ بازار گیا اور ایک بائیس نمبر کی بائیسکل لے آیا گھر والے اس تبدیلی پر حیران تھے بیگم نے حیرانی سے مجھے دیکھا اور کہا ’’جب میں کہتی تھی کہ سائیکل پر دفتر چلے جایا کرو تو اس وقت کہتے تھے اب بڑھاپے میں مجھ سے سائیکل نہیں چلتی اور اب اپنی مرضی سے جو مرضی کرو ‘‘
’’ بیگم گردے اور جگر بھی تو بچانا ہے ‘‘
’’کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ بیگم نے حیرانی سے کہا
’’مطلب سائیکل ایک ورزش ہے سائیکل چلاوں گا تو تندرست رہوں گا ‘‘۔
اور بیگم کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے مسکرادی۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply