گھٹیا افسانہ نمبر 19۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

انوار ایک سیدھا سادا سا لڑکا ہے. اس سے میری پہلی ملاقات ایک سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہوئی تھی۔ ہم تقریباًًً  دو ماہ گفتگو کرتے رہے. تصاویر بھی شیئر ہوئیں. باتیں بھی کیں. شاعری پر بھی گفتگو ہوئی. ہم نے ٹریولنگ کے اوپر بھی خاصی گفتگو کی۔ اصل میں اس کے اور میرے دو مشاغل مشترک تھے۔ ہم ہفتے میں تین سے چار مرتبہ گفتگو کر رہے تھے۔ لیکن ایک چیز جو ہمارے درمیان مشترک تھی اور ہم دونوں اس بارے لاعلم تھے۔ خیر میں اس سے ملنے کے لیے قلعہ سیف اللہ پہنچ گیا ہوں۔ میں سارا راستہ سفر بھی کرتا رہا اور انوار سے باتیں بھی کرتا رہا ہوں۔ اس نے بتایا کہ وہ میرے ہونٹوں پہ مر مٹا ہے۔ اور میں نے اس کی صراحی دار گردن کی تعریف کی ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں آنے کے لیے بےچین ہیں۔ ہم ساری رات باتیں کرتے رہے ہیں. میں نے بتایا کہ دنیا کی دس فیصد آبادی مرد ہم جنس پرستوں پہ مشتمل ہے. وہ ہنس پڑا تھا اور کہنے لگا کہ ہم ہر جگہ موجود ہیں. ویسے یہ اعدادوشمار کہاں سے ڈھونڈتے ہو. میں نے گوگل بادشاہ کا نام لیا تو وہ بولا یار جب گوگل نہیں تھا کیا تب بھی اتنے ہی ہم جنس پرست مرد ہوا کرتے تھے؟ پہلے تو میں سمجھا مذاق کر رہا ہے، پھر معلوم پڑا کہ وہ سنجیدہ ہے. میں نے کہا کہ حالات اور آلات میں ترقی کی وجہ سے اِس کے ذکر کو بھی ترقی ملی ہے. بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ گوگل کے آنے سے  لوگوں کا رجحان ہم جنس پرستی کی طرف بڑھا ہے. انوار فوراً بولا تھا، مجھے یاد ہے، وہ بولا کہ دنیا کے 78 فیصد لوگ گوگل استعمال ہی نہیں کرتے پھر بھی ہم جنس پرست ہیں. میں جہاں کا رہنے والا ہوں وہاں کے لوگوں کی غالب ترین اکثریت تھری جی فور جی سے بالکل ناواقف ہے، مگر یہاں کے مرد جو گوگل سے ناواقف ہیں پھر بھی اُن میں کئی ہم جنس پرست پائے جاتے ہیں. ہاں یہ بات درست ہے کہ اِس موضوع کو سیاسی پناہ ضرور حاصل ہوئی ہے. باقی بندہ مخالف جنس، ہم جنس یا دونوں کے ساتھ جنسی آسودگی محسوس کرتا ہے تو یہ اُس کا یا گوگل کا قصور نہیں ہے. میں ہوٹل میں کمرہ لیکر باتھ روم میں نہانے کے داخل ہو چکا ہوں. خوب اچھے سے انوار کے لیے جسم کی صفائی کی ہے. پیارے بال، میٹھی خوشبو اور استری والے کپڑے پہنے ہوٹل کے نیچے سڑک کے کنارے کھڑا انوار کا انتظار کر رہا ہوں. اس کی کال موبائل پہ آ گئی ہے. بات کی ہے. وہ سڑک کے اُس پار انوار کھڑا ہے. نیلی شلوار قمیض میں ملبوس سانولا سا انوار کیسا دلبر لگ رہا ہے. مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا تاکہ اُس کو پہچان سکوں. حالانکہ میں اُسے پورے شہر کی بھیڑ میں دور سے پہچان سکتا ہوں. وہ سڑک پار کرنے کے لیے اترا تو شائد پاؤں سنبھل نہیں سکا ہے اور وہ لڑھک آیا ہے. بائیں طرف سے آتی ایک انتہائی تیز جیپ کا پیہہ اُس کے سر سے ٹکرا گیا ہے. مجھے انوار کا ٹوٹتا سر صاف نظر آ رہا ہے. خون ہے. بریکوں کی آواز ہے. لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں. میں اپنی جگہ پہ کتنی دیر سے کھڑا ہوں. یہ کیا ہو گیا ہے.

“یار تو تم میرے پاس آ جاؤ”
“فائدہ کیا ہو گا”، بشیرا ہمیشہ کی طرح مختصر بات کر رہا ہے. ساتھ ساتھ سگریٹ بھرنے کے لیے چرس اور تمباکو کو مکس کر رہا ہے. میرے پولیس میں ہونے کی وجہ سے اچھا مال دیتا ہے. بندہ اعتبار کا ہے. میں نے جواب دیا ہے کہ
“او گدھے کے بچے فائدہ یہ ہو گا کہ سکون ہی سکون ہو گا. میرا حصہ وقت سے پہلے مجھے ملتا رہے گا اور تم وقت سے پہلے پرسکون اپنا کام کرتے رہو گے”
“سرکار سکون تو یہاں بھی ہے”
“لیکن میرے پاس ہو گے تو زیادہ پرسکون  میں ہو گے”
“ایسا لگتا ہے مگر ایسا ہے نہیں”
“کیوں. اوئے تم کوئی گدھے کے بچے ہو بشیرے. پاگل وہاں ہر وقت خطرے میں رہتے ہو. کبھی کہیں بھی خطرہ ہو سکتا ہے. کسی بھی وقت پولیس کا چھاپہ پڑ سکتا ہے. یہاں تو تجھے کنفرم ہو گا کہ پولیس اپنی ہے”.
“اِس کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ کے پاس ایسا خطرہ نہیں ہو گا”. مجھے ایسا لگا ہے جیسے سر میں گولی لگی ہو. کنجری کا بچہ کہتا ہے مَیں اُس کے لیے خطرہ ہوں.
“اوئے بےغیرت سیدھی سیدھی بات کر کیا کہنا چاہتے ہو”
“چوہدری صاحب مَیں صاف ستھرا کام کرنا چاہتا بس”. میں نے اُس کی کال ڈراپ کر دی ہے. یار پولیس والوں کا اتنا بھی اعتبار نہیں ہے کیا؟ ہمارے بھی تو ہر جگہ بندے ہیں. ہم اُن کو کھا گئے ہیں کیا؟ جن ڈرگ ڈیلرز اور کرمنلز سے ہم منتھلی لے رہے ہیں یا جن کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اُن کو ہم کون سا کھا گئے ہیں. یا جہاں ہم نے بندے رکھے ہوئے ہوتے ہیں اُن کو ہم نے کون سا پھانسی دے دی ہے. سور کے بچے ہوتے ہیں یہ اصل میں. اور کوئی بات نہیں ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے علم نہیں تھا شہزادی کیسے سوچتی ہے۔ وہ ہیگل کو بھی پڑھ رہی ہے. میں مسلسل تقریباً دو گھنٹے سے اُس کے ساتھ گفتگو میں لگا ہوا ہوں. بات شروع دراصل یونیورسٹی میں ماسٹرز کے لیے اُس کے فلسفہ چننے پہ ہوئی تھی. میں نے تو کہا ہے کہ کوئی ڈھنگ کا مضمون چُنتی، بہتر تھا عالمگیر تعلقات یا جدید لسانیات میں ڈگری لیتی. فلسفہ پڑھ کر بھوکے  مرنے والی بات ہے. میں بھی تو ساری عمر تاریخ پڑھاتا رہا ہوں مگر تاریخ میں ایک مرتبہ والے ذکر کا حامل نہیں ہوں. اِس کی ماں چائے لیکر آئی، کچھ دیر بیٹھی بھی رہی، مگر بور ہو کر چلی گئی، کہنے لگی تم باپ بیٹی ہی ابن رشد اور میکاولی کی باتیں کرو، مجھ سے تو اوکھی اوکھی باتیں نہیں سنی جاتیں. شہزادی نے کہا پھپھو زاہدہ یا خالہ بلقیس کی باتیں ہورہی ہوتیں تو آپ ضرور بیٹھتیں. وہ اس کے پاس چلی گئی۔ وہ کہنے لگی آج کل پیسوں کا تعلق آپ کی ڈگری سے نہیں ہے۔ موجودہ عہد میں جو جتنا چالاک شاطر اور جھوٹا ہے وہ اتنا ہی امیر ہے۔ خیر باتیں چلتی چلتی پتہ نہیں کہاں پہنچ گئی ہیں۔ جسٹن گیڈر سے لے کر میخائل گورباچوف تک، تھیلس آف ملائیٹس سے لیکر این رانڈ تک شہزادی بالکل ہی شہزادی لگی ہوئی ہے۔ لیکن سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ شہزادی خود بھی سوچتی ہے۔ اس کا اپنا بھی ایک نقطہ نظر ہے۔ وہ خود بھی معاملات کے متعلق معاملات کا تجزیہ کرتی ہے۔ جواز پہ جواز اور پھر پس جواز کا بھی تجزیہ کرتی ہے اس کا دماغ کھلا ہوا ہے۔ وسیع ہے۔ ابھی ناظم درانی کا ذکر ہوا کہ وہ بار بار اپنا کاروبار اور اپنا کیریر اور پروفیشن بدل رہا ہے۔ گھر کے حالات بدستور خراب ہیں۔ بیوی بچوں کے کپڑے اور جوتے ہمیشہ کی طرح پرانے ہی ہیں۔ گھر کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔ نیند کی گولیاں کھاتا ہے۔ معدہ 24گھنٹے جلتا رہتا ہے۔ آج کل کہیں لوڈر ٹیکسی چلا رہا ہے۔ عجیب کوئی بد روح قسم کا انسان ہے بے حس بندہ ہے۔ پتہ نہیں کیا کر رہا ہے اپنی زندگی میں۔ نہ اپنا خیال ہے۔ نہ بیوی کا خیال ہے۔ نہ بچوں کا خیال ہے۔ نہ گھر کا خیال ہے۔ میں ہوتا تو قسم سے چوریاں کرکے لے آتا لیکن اپنے بچوں کا تن اچھے طریقے سے ڈھانپتا۔ ان کو چھت بہتر دیتا۔ چاہے اپنا جسم بیچ آتا۔ چاہے کہیں کرپشن کر لیتا لیکن ایسے اپنے بچوں کو قابل رحم حالت میں نہ چھوڑتا۔ یار صبح نکلتا ہے رات کو واپس آتا ہے لیکن حالات پھر بھی وہی کے وہی ہیں. تم بتاؤ ہیگل ایسے بدروحوں کے بارے میں کیا کہتا ہے. شہزادی بولی “ہیگل کو ابھی تک تفصیلاً پڑھ نہیں پائی مگر میرے اپنی ذاتی خیال میں وہ جس سپرٹ کی بات کرتا تھا وہ دراصل انسان کی محنت ہی تو ہے۔ انسانی عمل ہی انسان کی روح ہے۔ انسان جب ناکام ہوتا ہے یا جو کام وہ کر رہا ہوتا ہے اُسے پسند نہیں کرتا تو اپنی روح سے بیگانہ ہو جاتا ہے، اداس ہو جاتا ہے۔ مایوس ہو جاتا ہے۔ انسان سمجھنے لگتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا وہ کسی بھی کام کے لیے اہل نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ خود نالائق ہے۔ ایک وقت آتا ہے وہی انسان یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ جو کام انسان کر رہا ہوتا ہے وہاں مسلسل اوازاری اور ناکامی سے تھک جاتا ہے۔ اس کی تخلیق میں جمود آجاتا ہے۔ سوچوں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ انسان کا دماغ اور اس کی سوچیں اور اس کی تخلیقی صلاحیت بھی جمہور زدہ ہو جاتی ہے۔ نہ نئی راہیں سوچ سکتا ہے۔ نہ نئے خیالات سوچ سکتا ہے۔ پھر وہ اپنے اردگرد اپنے سماج سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ اب اس سماج کے اندر ان فٹ ہے۔ وہ یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ لوگ اس کو سمجھتے نہیں ہے۔ وہ اپنے اردگرد، اپنے دوستوں، اپنے اقرباء اور اپنے خاندان کے لوگوں، اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو خود غرض سمجھنے لگ جاتا ہے۔ بس وہ پھر اپنے سماج اور اپنے ارد گرد سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کے بعد جو عمل ہے وہ انتہائی بھیانک ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جب انسان خود سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اپنے عمل، اپنے اردگرد اور اپنے آپ سے بیگانگی اُن لوگوں کو فائدہ دیتی ہے جو طاقتور ہیں۔ طاقتور طبقات اپنے بنائے ہوئے قوانین اور خدائی قوانین کے ذریعے بیگانگی کے شکار طبقات کو استعمال کرتے ہیں۔” میں فخر سے شہزادی کو بس سنتا ہی رہ گیا۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply