شرط۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

“کہاں تھے تم کل سے تم کو بول رکھا تھا آج کے میلے میں جانے کو کیا کرتب تھے اس پہلوان کے”
ایسا کیا دیکھا تم نے جو اتنی تعریفیں کر رہے ہو؟
“تم کیا جانو وہاں عقل کو مات دینے والے نظارے دیکھ کر آیا ہوں، لوہے کا ایک موٹا سلاخ سینے  پر رکھا اور اسے ایک سرا پکڑ کر دوسرے سرے سے ملا دیا”
تو اس میں کیا ہے طاقت کی بات ہی تو ہے ظاہر سی بات ہے اس کی خوراک اچھی ہوگی اسی وجہ سے وہ ایسے کرتب دکھاتا ہوگا!
“اچھا اور وہ جو اس نے چکی کے بڑے پتھر کو سینے پر رکھ کر اوپر سے ہتھوڑوں سے توڑا تو وہ کونسی طاقت تھی بھلا؟”
سب کچھ ہوتا ہے لوگ پیسے کے لئے ہر ایک قدم اٹھا لیتے ہیں اس میں اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں!
“اچھا ایک بات اور بھی تھی اس نے گھوڑے کو اپنی پشت پر اٹھا لیا اور دور تک لے کر واپس اسی جگہ اتار دیا اب بولو اس بات کے لئے کونسی دلیل ہے تمھارے پاس؟”
میں تم کو ایسے بہت سے مزدور دیکھا سکتا ہوں جو بھاری سے بھاری چیز بھی آرام سے اٹھا لیتے ہیں بغیر کسی دشواری کے میں روز دیکھتا ہوں!
باہر کڑاکے کی سردی تھی اور صبح سے بارش وقفے وقفے سے ہو رہی تھی یہ باتیں دو دوستوں کے درمیاں ہوتی رہیں ، کمرہ سگریٹ کے مہلک دھوئیں سے بھر چکا تھا کمرے میں موجود واحد روشن دان ہلکا کھلا ہوا تھا جس سے وہ دھواں ہلکا ہلکا سا باہر کو سرک کر آسماں کی طرف محو پرواز تھا۔۔
“تم نے میری باتوں کو مذاق میں اڑایا یہ اچھا نہیں کیا، تم کیا یہ ثابت کرنا چاہتے ہو  کہ طاقت کی کوئی اہمیت نہیں ایک عام غلیظ و بدبودار قلی بھی بھاری وزن آرام سے اٹھا سکتا ہے؟”
میں اپنی بات پر قائم ہوں لیکن اس بار کوئی دلیل نہیں دوں گا بلکہ باہر گلی کے نکڑ پر جو ایک پرانی لوہے کی الماری پڑی ہے اس کو کسی قلی سے اٹھوا کر تم کو دکھا دوں گا!
قہقہہ بلند ہوا۔۔۔۔
“کیا تم پاگل ہو گئے ہو وہ کم از کم چار پانچ من کی ہوگی بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی عام سا قلی اس کو اٹھا کر لے جائے؟”
لگی شرط؟
چل اٹھ۔۔۔ لگ گئی۔۔
کالی تنگ گلی سے گزر کر وہ اس سڑک پر   آگیا جہاں سے اس کی کھٹیا کو راستہ جاتا تھا آج دوسرا دن تھا اس کے پیٹ میں اناج کے دانے کو گئے ہوئے بارش کی وجہ سے کوئی باہر کو نہیں نکلا تھا جس کی وجہ سے اس کے پیٹ پر بھی لات پڑی تھی سڑک پر چلتے ہوئے کچھ دور اسے کچھ چراغوں کی روشنیوں نے اپنی طرف متوجہ کر لیا وہ فیکے کا روٹیوں والا تندور تھا ،جہاں سے گرم گرم روٹیاں نکل کر لوگوں کے پیٹ کی آگ کو سرد کرتی تھی اس نے دانستہ طور پر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن ناامید ہو کر واپس کھینچ لیا ،اس نے تیسری بار ایسا کیا تھا دو بار  جب وہ چائے کی خوشبو سونگھ کر کچھ لمحوں کے لئے اس چائے والے کے سامنے رکا تھا اور ایک بار جب اس نے کیلا فروش کی چھابڑی دیکھی تھی اس  وقت سے سوچ رہا تھا کہ کاش کوئی اس اندھیری رات میں قلی کی آواز لگائے اور وہ اس گرم گرم تنور سے نکلتی ہوئی روٹی کو کھا لے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ دونوں اپنے کمرے سے نکل کر باہر سڑک پر اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں وہ بھاری بھر کم الماری پڑی تھی دونوں کسی قلی کے انتظار میں تھے کہ کب کوئی قلی آئے اور ان دونوں کے بیچ لگے ہوئے شرط کا فیصلہ کر سکے…
اچانک اسے کچھ دور سے ایک آدمی دکھائی دیا ذرا نزدیک آنے پر دونوں نے دیکھا کہ  ایک موٹا سا ٹاٹ کا کپڑا اس  کے شانوں پر پڑا ہوا تھا اور ایک موٹی سی رسی اس کی  کمر سے لپٹی ہوئی تھی ایک نے زور سے آواز لگائی۔۔۔۔قلی۔۔۔۔
اس نے وہ آواز سنی لیکن یقیں نہ  آیا ۔۔۔اس نے سوچا کہ شاید یہ اس کا وہم ہے لیکن دوبارہ پکارنے پر وہ مڑا اور دوڑتا ہوا ان کے پاس جا پہنچا جی صاحب۔۔
یہ الماری کو اٹھا کر وہاں لے کر جانا ہے بولو کتنا لو گے
صاحب سو روپے لوں گا
بلکل نہیں سو بہت زیادہ ہے پچاس ملیں گے بولو منظور؟
صاحب ستر دے دو۔۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ایک دوسرے کو راضی دیکھ کر اس کی طرف مڑ کر کہا
ٹھیک ہے اٹھاؤ۔۔۔
وہ جھکا اور زور لگانے لگا الماری پرانی تھی لیکن لوہا خوب تھا جس سے وزن خاصا زیادہ لگ رہا تھا لیکن اس گرم روٹی کی کشش کچھ ایسی تھی کہ  اس نے دو تین بار زور لگا کر وہ الماری اٹھا لی اور اپنی پشت پر لاد کر جھک  کر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔۔
دونوں اسے غور سے دیکھتے رہے راستے میں کیچڑ بہت تھی جس کی وجہ سے وہ پھونک پھونک کر قدم جماتا رہا۔۔
اس کی پشت شل ہونے لگی لیکن ہمت نے ہار نا مانی وہ چلتا گیا تندور تک پہنچنے کو کچھ ہی لمحے باقی تھے  اس نے قدم تیز کر دیئے عین وہاں پہنچنے پر اس کے قدم ڈھگمگائے اور وہ نیچے آتا رہا ۔۔وہ نیچے الماری اس کے اوپر….
سرکاری ہسپتال کی ایک بھاری لوہے والی گاڑی آئی اور اس الماری کے نیچے کچلے ہوئے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے وجود کو نکال کے گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔۔
لاش نکالتے وقت وہ دونوں بھی وہاں ہجوم میں موجود تھے۔۔ قلی کو الماری کے نیچے کچلے دیکھ کر اس نے دوسرے سے کہا نکالو میرے پیسے میں شرط جیت گیا!

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply