بات حق کی/رضیہ فصیح احمد

کیسی طبیعت ہے آپ کی؟بیوی نے پوچھا۔
ارے طبیعت ٹھیک ہوتی تو مشاعرے میں نہ چلا جاتا۔کیا غزل ہوئی اللہ قسم۔۔ ارے یہ کھانسی ہی دم لینے دیتی تو چلا جاتا۔
بخار بھی تو تھاآج ہی تو اُترا ہے۔
ہاں کل اُتر جاتاتو کیاجاتا۔۔
پھر بھی آپ نہیں جاسکتے تھے، کمزوری جو تھی،
مگر بھئی غزل کمال کی مضبوط ہوئی اس دفعہ،
اگلے مشاعرے میں پڑھ دیں۔۔
ارے نہیں، کل جو وہ آیا تھا کمالِ بے کمال اپنی غزل لے کر۔ میں نے اس کی غزل تو اسی وقت پھاڑ کر پھینک دی، ایک شعر بھی کام کا نہیں تھا اور اپنی غزل دے دی کہ تُو پڑھ دینا۔ میرے نام کو ذرا زور سے ادا کرنا۔ میری بیماری کا ذکر تو کر ہی دے گا۔تھوڑی سی مشق بھی کرادی ترنم کی۔ کیا کاٹ دار آواز ہے کم بخت کی۔
تو آپ سے اگلے مشاعرے تک صبر نہیں ہُوا؟
ارے وہ غزل ہی ایسی تھی، آج کی بھرپورخبر تھی۔دیر کی گنجائش نہیں تھی۔۔ او رسُنو بخار تو اُتر گیا، ذرا سا لپٹا بنادو، میٹھے کو جی چاہ رہا ہے۔۔
آپ میرے سوجی کے حلوے کو لپٹا کیوں کہتے ہیں۔
ارے بھئی آٹے کو گھی اور شکر میں لپیٹ دیتی ہو تو اسے لپٹا نہ کہوں تو اور کیا کہوں۔ گھنٹی بجی ہے دیکھو کون آیا ہے۔
وہی ہے آپ کا شاگرد کمالِ بے کمال۔
بلاؤ، دیکھیں کیا کمال کیا اس نے۔

کمال غیر معمولی ادب لحاظ سے داخل ہوا، بس کورنش بجا لانے کی کسر تھی ۔مٹھائی کا ڈبہ اور اس پر رکھا ہُوا لفافہ پیش کرتے ہوئے کہا۔ یہ مشاعرے والوں نے بھجوایا ہے۔
اچھا۔ شاہ صاحب نے خوشی سے پھولتے ہوئے کہا۔ پہلے تو کبھی اس طرح نہیں بھجوایا انھوں نے۔
آپ تشریف نہیں لے گئے تھے ، شاید اس لئے اور میں نے آپ کی بیماری کی اطلاع بھی دے دی تھی۔
بھئی غزل کیسی رہی۔
لاجواب۔ اب میں چلوں گا۔
ارے بھئی بیٹھو، مشاعرے کا حال سناؤ کون کون آیا تھا۔؟
بس وہی سب لوگ تھے جو ہوتے ہیں۔بس چلتا ہوں کام پر جانا ہے السلام علیکم
وعلیکم السلام!

کمال کے جانے کے بعد بیوی آئیں۔لیجئے آپ کا لپٹا۔
ہاں بھئی لاؤ۔۔ لڑکے نے زیادہ بات نہیں کی۔ جلدی میں تھا ، کہہ رہا تھا کام پر جانا ہے۔ خدا جانے کیا کام کرتا ہے۔اسکے باپ نے بھی کبھی کوئی کام نہیں کیا۔
ارے کیوں کسی کے لئے ایسی بات کہتے ہیں۔ اسی لئے تو لوگ آپ سے خفا رہتے ہیں۔
رہیں بلا سے۔۔ میں تو سچ کہتا ہوں۔ یہ جو میری غزلوں میں آگ اور چنگاریاں ہوتی ہیں، سچ سے آتی ہیں۔

پھر گھنٹی بجی۔۔
اب کون آیا۔ وہ بدھو کام والا لڑکا کہاں ہے؟
سودا لینے بازار گیا ہے۔
تم ہی دیکھ لو کون آیا ہے۔
آپ کے دوست ہیں شیخ صاحب؛
بلا لو۔ اور ہاں لڑکا آجائے تو اس کے ہاتھ کچھ چائے شربت بھیج دینا۔
شیخ صاحب اندر آئے بیگم سلام کرتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئیں۔
شیخ صاحب بیگم کے سلام کا جواب دیے بغیر بولے چلے گئے۔ بھئی کمال کردیا تمہارے اس شاگرد نے تو۔مشاعرہ کیا لوٹا بس آگ ہی لگادی۔
دس دس بار پڑھوایاگیا ایک ایک شعر۔
شاہ صاحب پھولے نہ سماتے ہوئے بولے۔ مجھے معلوم تھا۔ایسے اشعار کبھی کبھی اُترتے ہیں۔۔
ہاں آپ وہاں ہوتے تو اپنے شاگرد پر پھولے نہ سماتے۔ شعر کیا، پڑھنے کا جو انداز تھا وہ اس سے سوا۔
آپ کا مطلب ہے شعر کمتر تھے، پڑھنے کے انداز سے۔؟
یہ تو میں نہیں کہہ رہا۔ مطلب یہ تھا کہ جیسے اشعار تھے ویسا ہی ولولہ انگیز لہجہ اور پاٹ دار آواز،
اگر میں خود پڑھتا تو یہ بات نہ ہوتی؟
آپ اپنے شاگرد کا کلام کیوں پڑھتے؟
کیا کہا  ؟؟؟شاگرد کا کلام۔کیا اس نے غزل اپنے نام سے پڑھی!
اور کیا۔اس کا نام پکارا گیا اور اس نے آن کرغزل پڑھنی شروع کردی۔
کون سی غزل۔ کوئی شعر یاد ہے آپ کو؟
ہاں وہی ۔ گلشن میں آگ لگا دیتے۔
شاہ صاحب نے سر پیٹ لیا۔ یہ غزل اس نے اپنے نام سے پڑھی۔۔آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ میں نے اسے صرف پڑھنے کو دی تھی۔ تلفظ اور ترنم بھی سِکھا کر بھیجا تھا۔
ارے صاحب آپ کا نام تو سِرے سے نہیں تھا کہیں۔

ہائے ہائے مر دود نے غضب کردیا۔ صبح صبح آن کر مجھے مٹھائی دے کر چلا گیا اور میں یہی سمجھا کہ میری غزل نے میدان مار لیا۔
بُرا نہ مانئے گا۔ یہ ضرور کہوں گا کہ میدان اس کی آواز اور ترنم نے مارا۔آپ تو اتنے عرصے سے پڑھ ہی رہے ہیں۔
شیخ صاحب نے کانپتی ہوئی آواز میں بیگم کو آواز دی۔ اگر لڑکا آگیا ہو تو اس کے ہاتھ ذرا میرا خمیرہ بھجوادو، اختلاج ہورہا ہے۔
حق صاحب کھڑے ہوگئے۔ اجازت چاہتا ہوں۔ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔
طبیعت کیسے ٹھیک ہوتی آپ نے بات ہی ایسی کہہ دی۔ اس مردود سے تو خیر میں سمجھ لوں گا۔ مگر آپ نے یہ کہہ کر دل توڑ دیا کہ مشاعرہ لوٹا اس کی آواز نے۔
شیخ صاحب، برا نہ مانئے گا جو سچ بات تھی وہ کہہ دی۔ ویسے بھی میرا نام حق ہے۔
(طنز سے) ہاں مجھے خوب معلوم ہے آپ کتنے سچے ہیں۔
اچھا ، اجازت خدا حافظ۔۔آ ج کے‘‘ حق کی آواز’’ میں شائد وہ غزل شائع ہو۔۔۔چلتے چلتے جلتی پر تیل چھڑک گئے۔

ذرا بات سنئے۔
جی فرمائیے۔
کیا اخبار میں یہ صفائی نہیں کی جاسکتی کہ وہ غزل میری تھی؟
اب تک تو وہ چَھپ گئی ہوگی۔آپ ان کو خط لکھ کر دیکھ لیجیے۔میرے خیال میں تو اس وقت اس بات کو جانے ہی دیجیے۔ جگ ہنسائی ہی ہوگی۔
کیسی جگ ہنسائی۔ میں مردود کوچھوڑوں گا نہیں۔
وہ آپ کی مرضی۔
حق صاحب چلے گئے۔ شیخ صاحب نڈھال ہوکر پڑ گئے۔ حلوہ اب واقعی لپٹا بن چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق صاحب بہت دن بعد آئے؟شیخ صاحب نے کہا۔
میں ابو ظہبی گیا ہوا تھا۔ آپ کی بیماری کی خبر سنتے ہی حاضر ہوا۔آ پ کچھ مجھ سے ناراض بھی تھے۔
ارے بھئی کیسی ناراضگی۔۔شائد قدرت کو یہی منظور تھا کہ وہ مردود میرے کلام سے شہرت پائے ، سو وہی ہُوا اور ہورہا ہے۔تمہیں معلوم ہُوا ہوگا کہ مجھے ڈاکٹروں نے حلق کا کینسر بتادیا ہے۔مجھے میری بیوی نے او ر اس مردود نے قائل کردیا کہ میں اپنا کلام اسے دے دیا کروں۔ بھائی بات یہ ہے کہ اب نہ کلام میں وہ بات رہی ہے اور نہ میں پڑھ سکتا ہوں۔ اس سے میں نے وعدہ لے لیا ہے کہ جو کچھ جہاں سے ملے گا تو نصف میرا حصّہ ہوگا۔
وہ تو اب دور دور جانے لگا ہے ڈالر بھی کمارہا ہے۔
ہاں تو یہ گھر دیکھ رہے ہو۔پہلے سے بڑا اوربہتر ہے۔ بیوی کو بھی آرام ہے۔ پہلے حلوے کی جگہ لپٹا بنا کر دیتی تھی اب حلوے کی کھیر بنادیتی ہے۔ وہ بھی شوربے کی طرح حلق سے اُتارتا ہوں۔
اللہ آپ کو شفا دے اور بڑی عمر کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ارے میرے بجائے اس مردود کی عمر کی درازی کی دعا مانگو جس کے پیسے سے میرا علاج چل رہا ہے۔روز نئی غزل کی فرمائش کرتا ہے۔ میرے مرنے کے بعد کے لئے جمع کر رہا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہتا ہے کہ شاہ صاحب کلام میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی، اب تو تالیوں کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ میں نے کہا۔ اے کمالِ بے کمال سُن ،پہلے جذبے سے کہتا تھا، ا ب مجبوری سے کہتا ہوں۔ اور کلام سنتا کون ہے،یوں کیوں نہیں کہتا کہ اب تیرے ترنم کی چمک بھی مدھم پڑگئی ہے۔میں نے اس سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد حق صاحب کے پاس چلے جانا۔ وہ ہی تیرا راز جانتے ہیں۔
آپ اس کا نام نہیں لیتے۔یہ کیا نام ہے کمالِ بے کمال۔۔۔ حق صاحب نے اصل بات سے کنّی کتراتے ہوئے کہا۔
نہیں، پہلے کمالِ بے کمال کہتا تھا اب مردود کہتا ہوں ۔ میاں اپنا کلام کسی کو دے دینا آ سان نہیں ہوتا۔ کلیجہ چاہیے۔۔
کھانسی اٹھی تو خاموش ہوگئے مزید کچھ نہ کہہ سکے۔
حق صاحب نے اجازت لی تو سانس کو سنبھال کر بولے،ـ یہ راز بس آپ تک رہے۔
بے شک ۔حق صاحب نے کہا۔
اب ان سے کیا کہتے کہ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply