یہ کیا ہورہا ہے؟ ۔۔۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

یہ کیا ہو رہا ہے جناب ۔۔۔۔ ؟

پہلے سی پیک سے متعلق متنازعہ باتیں کی گئیں، سرکار سے وابستہ لوگوں کے ایسے بیانات سامنے آئے جس سے یہ تاثر ابھرا گویا سی پیک کوئی بہت بڑا دھوکہ ہے پاکستان کے ساتھ ۔۔۔۔ اس سب سے جو ارتعاش پیدا ہؤا وہ تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود ابھی تک جاری ہے ۔ تازہ ترین اضافہ وزیر ریلوے کا بیان ہے کہ وہ سی یک میں ریل کا حصہ 8 ارب ڈالر سے 4 ارب ڈالر لانا چاہتے ہیں۔ یہ حجم 6 ارب ڈالر تک پہلے ہی لایا جا چکا ہے ۔

روز روز ایک پراجیکٹ کو میڈیا پر زیر بحث لانا اور وہ بھی وزراء کی سطح پر یہ کسی طور مناسب طریقہ نہیں ہے ۔ اس سے حقیقی فائدہ تو معلوم نہیں ہو گا یا نہیں لیکن حقیقی نقصان ضرور ہو سکتا ہے ۔ چین کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ چین ایک بڑی معاشی و فوجی قوت ہونے کے ساتھ سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بھی ہے اور دہشت گردی و نیوکلئیر سپلائر گروپ کے معاملات میں پاکستان کے لیے ایک بہت اہم حلیف ہے ۔ ہماری دفاعی صلاحیت کا بھی بڑی حد تک چین پر انحصار ہے ۔

ممالک کے درمیان معاہدوں میں بات چیت جاری رہتی ہے ، مختلف شقوں یا شرائط کے حوالہ سے نظر ثانی بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا۔ اس پر پس پردو گفتگو جاری رہتی ہے اور پھر نہایت محتاط سفارتی زبانمیں نتائج کو عام کیا جاتا ہے ۔ مقصد اہداف کا حصول ہوتا ہے ، کسی کی تحقیر و تذلیل نہیں۔ یہ درست ہے کہ آپ کی نیت نیک ہو کہ اپنے خیال کے مطابق جو ملک کے لیے بہتر سمجھتے ہیں ان شرائط کو منوانا چاہ رہے ہیں لیکن اس نوع کی بیان بازی اس کا موزوں طریقہ نہیں۔ اس سے صرف شکوک کو شبہات اور بدگمانی کو فروغ ملے گا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں چین کی کتنی بار ضرورت رہتی ہے اور انہیں کتنی بار۔ اس کے دیگر مضمرات پر نظر رکھنا بھی نہایت اہم ہے ۔۔۔۔ مثلاً آپ یہ دیکھیے جب سے ہمارے ہاں سے سی پیک کے متعلق بیانات کا سلسلہ شروع ہؤا ہے بھارت نے براستہ رنگون و ڈھاکہ چین کے ساتھ ریل لنک کی بات کو اور نمایاں کرنا شروع کر دیا ہے ۔ گویا وہ اس محاذ پر بھی پر بھی پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کو تیار ہے ۔

یہ معاملہ چین تک محدود نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے ہم بھاگم بھاگ سعودی عرب گئے، دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سنائی اور سعودی وفد کے دورہ پاکستان میں تفصیلات طے کرنے کا کہا ۔ مذکورہ وفد ان دنوں پاکستان کے دورہ پر ہے ، مختلف آپشنز پر مذاکرات جاری ہیں۔ اس دوران آج ایکسپریس ٹریبون کی خبر ہے “Govt turns down Saudi offer to acquire two power plants” آپ اس ہیڈلائن کی زبان ملاحظہ فرمائیں۔ گویا ضرورت مند سعودی عرب کچھ مانگ رہا تھا جسے ہم نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ ایسے دوروں میں کتنی ہی تجاویز یا ممکنہ ڈیلز پر بات ہوتی ہے ۔۔۔۔ کچھ پر بات آگے بڑھتی ہے کچھ پر بوجوہ انکار بھی ہو جاتا ہے لیکن کیا اس کا اس طور اظہار کیا جاتا ہے ؟ دنیا میں کہیں یہ روایت موجود ہے ؟ وہ بھی اس طرح کی زبان میں ؟ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ ان معاملات پر سرکاری پریس ریلیز جاری ہو اور اسے بعینہ شائع کیا جائے تاکہ ابہام یا غلط فہمی کا ہر ممکن طریقہ سے راستہ مسدود کیا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت تو یہی سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ آپ ملک کو آئی ایم ایف سے بچانا چاہ رہے ہیں یا اس کی طرف جانا یقینی بنا رہے ہیں۔ سب دوست ممالک ایک ایک کر کے ناراض ہو جائیں تاکہ آپ کہہ سکیں کہ اب کیا کیا جائے، اب تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply