واہے گرو جی کی فتح ۔۔۔ انعام رانا

جسپال سنگھ نے جب عین گردوارے کے بیچ میں کہا “ماں ایہہ سکھ تے نہی،مسلا اے”(اماں یہ سکھ نہیں،یہ تو مسلمان ہے) تو میری وہی حالت ہوئی جو سنتالیس میں اپنے سامنے کرپان دیکھ کر پاکستان کو آتے میرے بزرگوں کی ہوئی ہو گی۔ بلکہ میرے دماغ میں وہ تمام قصے کے کیسے سکھ مسلمانوں کو اپنی کرپانوں سے ذبح کرتے تھے گھوم گئے۔ (تاریخ کا وہ حصہ جہاں مسلمان سکھوں کو لہندے پنجاب میں ایسے ہی مار رہے تھے کافی دیر بعد پڑھا تھا)۔ لیکن کہانی کچھ پیچھے لیجانا ہو گی۔

گلاسگو یونیورسٹی میں جہاں بھانت بھانت کے لوگ ملے وہیں شملہ سے آیا جسپال سنگھ بھی تھا۔ مونا سکھ تھا پر پورا بھارتی اور اسے مل کر اندازہ ہوا کہ باڈر کے اُس پار بھی کنویں کے مینڈک ہی رہتے ہیں اور وہاں بھی سرکاری تاریخ پہ ہی ایمان چل رہا ہے۔ سردار سے دوستی کرائی ہمارے لائل پوری چوہدری نے جو چلتی پھرتی ارائیں تاریخ تھا۔ جب زرا تعلق بڑھا تو اک دن سردار کہنے لگا “یار مینو تے پتہ ہی نہیں سی پاکستانی اینے چنگے ہوندے نیں (یار مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا پاکستانی اتنے اچھے ہوتے ہیں)۔ ویسے رانا جی کیا ہی اچھا ہو یہ لکیریں مٹ جائیں اور ہم سب دوبارہ ایک ملک ہو جائیں جیسے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ ہے۔ اچھا تے فیر نام کی رکھاں گے ملک دا؟ میں نے پوچھا۔ “یونائٹڈ سٹیٹس آف انڈیا” حسب توقع جواب آیا۔ میں نے ہنستے ہوے کہا “یونائٹڈ سٹیٹس آف پاکستان” یا کچھ اور کیوں نہیں؟ سردار آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ خیر ہم ایک دوسرے کو ایسے ہی مزے مزے کی چوٹیں کرتے رہتے تھے۔

پردیس میں طالب علمی کا دور عسرت کا ہوتا ہے۔ پونا کے انیل کمار کی اک نصیحت پلے باندھ لی تھی کہ “انعام بھیا آپ باقی پاکستانیوں کی طرح پیسے کمانے مت لگ جانا، پہلے ڈگڑی کر لو تاکہ گھر لوٹنا پڑے تو ہاتھ میں کچھ تو ہو”۔ سو طالب علم دوسرے دوستوں کے برعکس فقط بیس گھنٹے اور کبھی اس سے بھی کم کام کرتا تھا اور اکثر بھوکا رہتا تھا۔ بس اللہ سے دعا کی تھی کہ یا اللہ سگریٹ پورے کراتا رہیں، سو آدھا آدھا کر کے سگریٹ پیتا تھا اور مست رہتا تھا۔ اک دن چوہدری اور سردار سہیلیوں کی مانند کلکاریاں مارتے جا رہے تھے کہ پہاڑی (گلاسگو یونیورسٹی پہاڑی کی چوٹی پہ ہے) کی چوٹی پہ مجھے جوگیوں کی مانند آسن لگائے دیکھا۔ وہ سمجھے دھیان لگائے بیٹھا ہے جبکہ میں مراقبہ کر رہا تھا کہ آج چودہ دن ہو گئے ہیں ایک پاؤنڈ والی “چپس اینڈ چیز” کھاتے ہوے، اگر تین دن سگریٹ نا پیئوں تو روٹی سالن کھایا جا سکتا ہے۔ خیر مجھے دیکھ کر رکے تو پوچھا کہ فوجاں کدروں آئیاں نیں؟ جسپال بولا کہ لائبریری تو آیاں نے تے گرداورے چلیاں نیں۔ میں نے استہفامیہ نظروں سے چوہدری کو دیکھا تو وہ بولا کہ “پا جی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ گرداورے میں بابا گرو نانک جی کی سالگرہ کے سلسلے میں لنگر چل رہا ہے، ہم تو روزانہ وہاں روٹی کھانے جاتے ہیں، آ جاو چلئیے۔” ایک لمحے کو سوچا کہ کیا اس سے میری مسلمانی پہ کوئی فرق پڑے گا؟ پیٹ نے فورا یاد کرایا کہ مو رکھ تیرا نانکا سکھوں سے مسلمان ہوا تھا، بلکہ سنا ہے بابا جی بھی بریار تھے، اور ننھیال پہ بلا تشخیص مذہب حق ہوتا ہے۔ پھر ویسے بھی بابا جی تو توحید پرست نیک بزرگ تھے سو انکی سالگرہ کا “کھانا ضرور کھانا چاہیے”۔ اب جہاں دو جاتے تھے وہاں ہم تھری ایڈیٹس روزانہ گردوارے جانے لگے جہاں گھی میں تر روٹی، سبزی اور کھیر ہوتی تھی۔

تیسرا دن تھا کہ سر کو ڈھانپے پیتل کی تھالی ہاتھ میں اٹھائے ہم لائن میں کھڑے تھے۔ باری باری ورتاوے پہ موجود بوڑھی اماں جی کے سامنے جاتے جو ہماری تھالی میں دو روٹیاں، سالن اور کھیر کی کولی رکھ دیتی تھیں۔ چوہدری سب سے آگے تھا، وہ ہٹا تو میں تھالی لئیے کھڑا ہو گیا۔ جانے سردار کے کون سے بارہ بجے کہ اچانک بولا “اماں جی ایہہ سکھ تے نہیں، ایہہ مسلا جے”۔ تھالی میرے ہاتھ میں کانپ گئی، سنتالیس کے فساد کی فلم آنکھوں کے سامنے چل پڑی۔ چوہدری نے یکدم “یا بابا گُرو جی” کہا اور زمین پہ بیٹھ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ ابھی اماں جی نے اک للکارا مارنا ہے اور آدھا گردوارہ مجھ پہ ٹوٹ پڑنا ہے۔ اماں جی نے آدھی نظر اٹھا کر مجھے دیکھا، مامتا بھری مسکراہٹ لبوں پہ آئی اور کہا “فیر پتر؟ ایہہ تے بابے دا لنگر اے، بابا تے سب دا اے، سکھ کھان ہندو کھان مسلمان کھان، جی آیاں نو” (پھر کیا ہوا بیٹا، یہ تو بابا جی گُرو نانک دیو کا لنگر ہے اور وہ سب کے ہیں، سو یہ لنگر سکھ کھائیں، ہندو کھائیں یا مسلمان، خوش آمدید ) اور میری تھالی ہاتھ سے لے کر بھر دی۔ اس بوڑھی خاتون کا یہ مختصر خطبہ اس طالب علم کو ہمیشہ کیلئیے گُرو جی کا معتقد کر گیا۔

صاحبو برصغیر ہندوستان کی دھرتی پہ کئی مذاہب نے جنم لیا۔ کئی مذہبی تحریکوں نے جنم لیا۔ وقت نے کتنے ہی مٹا دئیے مگر قائم رہے جو انسانوں کو جوڑتے رہے، بھوکوں کو کھلاتے رہے، دھتکاروں کو گلے لگاتے رہے۔ بابا جی گُرو نانک کا پیغام توحید کا تھا، ہندو مسلم اتحاد کا، محبت کا تھا، انسان دوستی کا تھا، آستھا کا تھا۔ زمین سے جڑے ایک نیک انسان کا آسان زبان میں ایسا پیغام جو معاشرے کے پچھڑے ہوے طبقات کے دلوں کو چھو گیا، جس نے جاٹوں کو وحشی سے گُرو کا سیوا دار بنا دیا، ذات پات کی، ہندو مسلم کی تقسیم کو کم کر کے واحدانیت پہ، ایک رب پہ، ایک سچے پادشاہ کے نام پہ اکٹھا بٹھا دیا۔ گُرو جی کا پیغام اسی محبت کا تسلسل تھا جو ہمیں کبھی خواجہ معین الدین رح کے ہاں نظر آتی ہے تو کبھی داتا صاحب رح کے ہاں، وہی جوڑنے کی بات جو بابا فرید رح بھی کرتے ہیں اور بھگت کبیر بھی۔ یہ اس دھرتی سے جڑے لوگوں کی، سیاست سے دور رہ کر، عام لوگوں کو اک دوجے سے جوڑنے کی، تفریق مٹانے کی کوششیں تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کرتار پور صاحب ہمارے سکھ دوستوں کیلئیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ خوشی ہے کہ یہ لانگاہ یہ راہداری کھلی ہے اور لوگوں کو جڑنے کا، بابے کا لنگر کھانے کا، اپنی آستھا پوری کرنے کا موقع ملا ہے۔ کچھ دوست سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے پاکستانی حکومت کی کوئی سیاست ہے، ہو گی۔ نیک لوگوں کی اپنی برکت ہوتی ہے، اور جب کوئی بات عوام کے ہاتھ آ جائے تو پھر سیاستیں دھری رہ جاتی ہیں۔ ستر سال سے افغان باڈر کھلا تھا کہ جی دونوں جانب رشتہ داریاں ہیں،کوئی گریٹر پختونستان نہیں بنا۔ یہ راہداری کھلنے سے بھی کوئی گریٹر پنجاب نہیں بنے گا۔ ہاں البتہ لوگ ملیں گے، غلط فہمیاں دور ہوں گی، واپس جائیں گے تو اچھی یادیں لے کر جائے گے۔ آج جب بانوے دن سے کشمیری بدترین زیادتی کا شکار دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بند ہیں، ضرورت ہے کہ محبت کا پیغام پھیلایا جائے۔ راہداریاں کھولی جائیں، نفرتیں کم ہوں اور گُرو نانک جی اور بابا فرید رح کا پیغام محبت پھیلایا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس محبت کے پیغام کی بارش برصغیر کی نفرت کی آگ کو بالآخر بجھا دے گی۔ یاد رکھئیے کہ محبت اور لنگر کبھی خالی نہیں جاتے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply