پاپڑ۔۔۔عارف خٹک

میں شیشے کے سامنے کھڑا حسرت سے اس شخص کو تک رہا تھا جو آئینے میں نظر آرہا تھا۔اس کی آنکھوں میں بے خوابی کے ہلکے سرخ ڈورے تھے اور چہرے پر درماندگی کے نقوش،میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی۔۔ایک زہریلی مسکراہٹ،میں نے اپنی کنپٹیوں کی طرف دیکھا تھا جو سفید ہورہی تھیں،کتنا وقت بیت گیا تھا،کتنے ہی دن رات اپنی ساعتیں میرے جسم و جان پر نقش کرکے چلی گئی تھیں۔

میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تو میں چونک گیا،مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ میرے ہاتھ نہ ہوں، آج یہ کسی جواری کے ہاتھوں جیسے لگ رہے تھے،خالی۔۔ویران اور کھنڈر۔۔ہاں میں نے بھی جوا کھیلا تھا۔ایک عجیب جوا۔۔جوا انسانوں سے کھیلا جاتا ہے لیکن میں نے وقت کے ساتھ کھیلا تھا۔ایک ٹھنڈی آہ میرے ہونٹوں سے برآمد ہوئی۔۔ہاں مجھے مات ہوگئی تھی،میں نے اپنی سوچ کے جو مہرے آگے بڑھائے تھے وقت نے انہیں ایک ایک کرکے پیٹ  دیا تھا،وہ واپس چلی گئی تھی،وہاں جہاں سے وہ آئی تھی۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ابھی دھندلائی نگاہوں سے دنیا دیکھنے لگا تھا،ہر شے بڑی بڑی لگتی،کائنات کا ہر ذرہ نیا لگ رہا تھا۔۔نیا۔۔تروتازہ لیکن ناقابل فہم،میری سوچ سے ماوراء۔۔آسمان کی وسعتیں میری ادراک سے پرے تھیں تو زمین کے کھردرے پن سے میری ذات ناآشنا تھی۔ ان دنوں وقت بھی پہاڑ جیسا تھا۔تب میں نے ان دونوں کو دیکھا۔۔۔ایک مرد ایک عورت۔۔دونوں کے خدوخال میرے ننھے دماغ میں نقش ہوگئے۔میں ان کا مان تھا۔۔میں ان کی خوشی تھا اور میں ہی ان کا غم۔۔

جو محبت انہوں نے مجھ پر نچھاور کی, میں محبت کی اس لہر کا مقابلہ نہیں کرسکا۔۔میں ان دونوں کے ہاتھوں میں کھیلنے گا،وہ جس چیز کو برا کہتے میں بھی اسے برا سمجھتا،جس شے کو وہ اچھا کہتے میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا،میں ان کیلئے جیتا رہا،جیتا رہا۔۔جیتا رہا۔۔

وقت گزرتا گیا اور میں اٹھارہ سال کا ہوگیا،جذبے جوان تھے اور شعور کی قوتیں اپنی جوبن پر تھیں،میں نے کچھ الگ کرنا چاہا۔۔پر نہیں۔۔میں نہیں کرسکا،فیصلہ آج بھی اس شخص کے ہاتھوں میں تھا جس نے مجھے پالا تھا،میں نے انکار کرنا چاہا مگر جرات نہ ہوئی۔۔اگر وہ کوئی دشمن ہوتا تو مجھے انکار میں کوئی امر مانع نہ ہوتا پر وہ محبت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور میں اس محبت کو روندنے کی ہمت نہ کرسکا اگرچہ اس کی قیمت میری اپنی شخصیت کے روندے جانے کی صورت میں ملی۔۔

ایک زندگی جو میں نے جی۔۔یا شاید مجھ سے زیادہ دوسروں نے۔روز مرتا رہا اور اگلی صبح پھر مرنے کیلئے خود کو زندہ کرتا رہا۔۔یہ جسمانی موت نہیں تھی یہ ناتمام آرزوؤں کی موت تھی۔یہ ان تمناؤں کی موت تھی جسے اپنے سامنے مجسم دیکھتا اور آہ بھر کر رہ جاتا،میں اپنی ذات سے اجنبی ہوگیا اور دور کھڑا خود کو ایک ایسی زندگی گزارتے دیکھ رہا تھا جو میری نہیں تھی،میری عمر کا ہندسہ چالیس کا عدد عبور کرچکا تھا اور ماضی ایک دلفریب حسرت رہ گیا تھا۔

میں نے اکتا کر وقت کے فاصلے سمیٹے اور ایک بار پھر اپنے لڑکپن کی طلسمی دنیا میں پہنچ گیا،میرا دل وفورِ جذبات سے مچل رہا تھا،یہاں اگرچہ روپوں کی برسات نہیں تھی،نمکین برگر نہیں تھے پیزا نہیں تھا لیکن پاپڑ تھے اور وہ بھوری آنکھوں والی اور بچوں جیسی معصوم چہرے کی مالک وہ لڑکی تھی جس پر میں جان لٹاتا تھا۔۔ میں نے اسے کہا
” تم میرے ساتھ بھاگ سکتی ہو؟ مسکراتے ہوئے جواب دیا
“آپ سے تیز بھاگ سکتی ہوں“
پوچھا۔۔” تھکوگی تو نہیں؟ ہنستے ہوئے بولی “چلو بھاگتے ہیں“ پھر ہم دونوں بھاگ لئے۔ وقت کی قید سے دور۔ میں اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جینے لگا۔۔دنیا کسی شراب کی مانند ہوگئی تھی جس کا ہر لمحہ ہر گھونٹ کی طرح مخمور کیے دیتا تھا،یہ میری دنیا تھی،یہاں میرے فیصلے تھے،یہاں میرے انتخاب کو وقعت حاصل تھی،یہاں محبت کی زنجیریں نہیں تھیں،یہاں رشتوں کی بیڑیاں رکاوٹ نہیں بنتی تھیں،میں نے ہر راہ خود چنی،ہر منزل خود اختیار کی۔۔

میں خوش تھا۔۔یہ ایک ایسی زندگی تھی جو بجا طور پر میری تھی۔۔پھر ایک دن میری ہر سوچ سراب ثابت ہوئی، میں جس کی بھوری قاتل آنکھوں کو دیکھ کر جیتا تھا،وہ بولی تھی اور میرے کانوں میں سماعت شکن دھماکے ہونے لگے تھے۔۔
“تم ادھورے ہو۔۔تمہارے پاس رومانوی خیالات کے سوا کچھ نہیں۔۔تم زمینی حقیقت سے نابلد ہو۔۔یاپڑ کھا کھا کر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ مجھے گھر چاہیے۔ نام چاہیے۔میں واپس جارہی ہوں۔۔۔۔

میں سکتے میں آگیا تھا اور آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
وقت کے فاصلے پاٹ کر وہ واپس چلی گئی.میں اسے روک بھی نہ سکا۔۔ٹوک بھی نہ سکا۔ بس ویران نگاہوں سے ان در و دیوراوں اور کالے سڑکوں کو دیکھتا رہ گیا جہاں وہ میرے ساتھ رہتی تھی۔۔جہاں میرے ساتھ وہ چہل قدمی کرتی تھی۔جہاں اس کی میٹھی باتیں نمکین چشموں کو شیریں بنا دیتی تھی۔۔
آہیں اُس زندگی میں بھی تھیں جو میری نہیں تھی سسکیاں اِس زندگی میں بھی تھیں جہاں ہر انتخاب میرا اپنا تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں کسی جواری سا لُٹا پٹا واپس اپنی پہلی زندگی میں آگیا اور سامنے نصب قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر اس شخص کو تکنے لگا جو میرے لئے اجنبی تھا!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply