شہر کو سیلاب لے گیا۔۔عارف انیس

ہم پاکستانی ہیں، ہم انتہاؤں کے درمیان جیتے ہیں. یا تو ہم پیاس یا خشک سالی سے مرتے ہیں، یا پھر سیلابی ریلے میں ڈوبتے ہیں۔ ہماری زندگی دو سیلابوں یا دو بحرانوں کا درمیانی وقفہ ہے۔

کوئی بیس برس قبل، سی ایس ایس کرنے کے بعد سول سروس اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے کے لیے لازمی ریسرچ ورک اور پریزینٹیشن کی باری آئی تو تب میں نے “واٹر کرائسس ان پاکستان” کا انتخاب کیا. ریسرچ کے دوران معاملے کی سنگینی کا جان کر میری سٹی گم ہوگئی ،جب معلوم ہوا کہ پندرہ ارب ڈالرز سے زیادہ قیمت کا پانی ہر سال سمندر میں چلا جاتا ہے. جب میں نے تب کے ارسا کے چیئرمین کے ساتھ انٹرویو میں یہ نکتہ اٹھایا تو انہوں نے اس کچے افسر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا “اس لیے کہ ہر سال سیلاب میں افسر لوگ، ٹھیکیدار، سیاست دان اور رسہ گیر پانچ سو ارب بناتے ہیں۔ یہ پانچ سو ارب سالانہ کی اکانومی ہے تو اس لیے یہ سیلاب ہمیشہ آتے رہیں گے”۔ میں ہکا بکا بیٹھا نوٹس لے رہا تھا تو انہوں نے کھنکار کے کہا “یہ بات آف دا ریکارڈ ہے، انٹرویو میں نہ لکھ دینا “۔

خیر، اس بات کو بیس برس ہوئے۔بچپن سے لے کر آج تک وطن عزیز میں ایک ہی چیز مستقل دیکھی ہے، یا ڈی ایچ اے کا مسلسل پھیلاؤ یا اگست ستمبر میں ڈوبے ہوئے شہر اور کھیت کھلیان۔چونکہ پاکستانی یادداشت تین سے چھ ماہ کے بعد  ری بوٹ ہو جاتی ہے تو ہمیں اگلے سال یاد ہی نہیں رہتا کہ زیادہ بارش آئے گا تو زیادہ پانی بھی آئے گا۔سجاد بلوچ کا کمال کا شعر ہے :

پہلے اس دشت میں پانی کی پریشانی تھی
اب مجھے ناؤ بنانے کی پریشانی ہے!

میں کچھ دنوں سے پاکستان سے اٹھارہ میل دور اسلام آباد میں تھا جہاں “لیڈرز ان اسلام آباد” سے خطاب کرنا تھا۔اسلام آباد مسلسل بارش کی رم جھم تھی جو پتوں پر جلترنگ بجاتی تھی اور گھنٹوں بارش کے بعد شہر کا جمال نکھر آتا تھا۔ اسلام آباد میں لوگ محلاتی سازشوں کی باتیں کرتے تھے، شہباز گل کی زبانی بواسیر پر پریشان تھے اور رئیل اسٹیٹ کے نئے پراجیکٹس پر بھاؤ تاؤ کرتے تھے، اٹھارہ میل دور پاکستان میں یہ بارشیں گھر گرا رہی تھیں، خاندان بہا رہی تھیں، لاشیں درختوں میں اٹکی ہوئی تھیں، تاہم شکر ہے اسلام آباد میں ان خبروں کا گزر نہ تھا ورنہ دن کیسے خراب ہوجاتا۔

ہاں، جب میں اسلام آباد سے نکلا تو میں نے یار دلدار قیصر بزدار سے رابطہ کر کے ملنے کی کوشش کی تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا کہ وسیب ڈوبا ہوا ہے۔راستے بند ہیں، فاضل پور ڈوب چکا ہے، راجن پور کو شدید خطرہ ہے، فوج نے پانی نکالنے کے لئے سڑکیں کاٹ دی ہیں۔

یہ نہیں کہ یہ سب کچھ میرے لیے نیا ہے،تین ہفتے قبل جب بلوچستان میں سیلاب آیا تو تب اخوت کو متحرک کیا تھا اور ایک دن میں پانچ ملین جمع کیے گئے تھے جوکہ بلوچستان کے متاثرین کے لیے بھجوانے دیے گئے تھے۔اخوت کی یہ مہم اب بھی جاری ہے تاہم اب لاکھوں متاثرین بلوچستان میں ہی نہیں،سندھ اور پنجاب میں بھی موجود ہیں۔

میں پہروں بیٹھا سوچتا رہا تو یہی سمجھ آیا کہ شاید تب کی پانچ سو ارب کی سیلابی اکانومی شاید ایک ٹرلین یا زیادہ کی ہو چکی ہوگی۔ اس سے کتنے ہی گھر چل رہے ہوں گے، کتنے ہی بااثر افراد دبئی، ہانگ کانگ اور لندن میں موج کر رہے ہوں گے، بھلا فاضل پور، راجن پور, تونسہ، پنوں عاقل، خیرپور، سانگھڑ،بدین، ٹھٹھہ ، سجاول ، دادا، جامشورو, حیدر آباد, کوہلو، ڈیرہ بگٹی، بارکھان، موسیٰ خیل اور قلعہ عبداللہ نامی بستیوں کے ڈوبنے سے کیا ہوتا ہے؟

تاہم اس ساری یاسیت میں دو چیزیں ہیں جنہوں نے امید بندھائی۔ ایک تو میں نے فریحہ نقوی، صباحت عروج, طیب امین قیصرانی، افراہیم الطاف، اسد عزیز، عمران لودھی، جعفر لغاری، صوفیہ زاہد، حیدر نقوی، حذیفہ قاسمی اور کئی دیگر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی دل سے کی گئی اپیل دیکھی، لوگوں کا لبیک کہنا دیکھا، اور محسوس کیا کہ گو ریاست کی لاش سے تو بو آنی شروع ہو چکی ہے، مگر شاید معاشرت کی نبض ابھی بھی چل رہی ہے۔

دوسری بات ایک بلوچ طالب علم کی کہانی ہے، جس کا تین کمروں کا گھر ریلے میں بہہ گیا. مگر اسے اپنے گھر میں موجود لائبریری کی فکر تھی۔دس برس میں اس نے جو کتابیں جمع کیں، وہ سب بہہ گئیں۔ آسٹریلیا میں مقیم شاندار ڈاکٹر حسن خلیل سے اس کا رابطہ ہوا تو اس کے مہمیز کرنے پر ہم نے عطیات کی مہم شروع کر دی۔ جب ڈھے چکنے والے کمروں کی بات ہو چکی تواس نے یاسیت بھرے لہجے میں پوچھا، “میری کتابوں کا کیا بنے گا؟” تب میرے دل میں آیا کہ اس جہان میں جتنی کتابیں ہیں، وہ اس بلوچ بچے کی لائبریری کے لیے عطیہ کر دینی چاہئیں۔ ڈاکٹر حسن خلیل اور میں نے اس سے وعدہ کر لیا ہے کہ جب اس کا کمرہ تیار ہو چکا ہوگا تو اس کی لائبریری پہلے سے زیادہ شاندار تیار ہوگی۔

اگلے سال بھی بارش آئے گا، پھر زیادہ پانی آئے گا، اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ سے دور کچھ گمنام بستیاں اپنے مکینوں کے خوابوں سمیت بہہ جائیں گی،بہت سے درد دل رکھنے والے اپنی روٹی آدھی ان سے بانٹ لیں گے، مگر پتہ نہیں تب تونسہ میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے سے کتابیں ڈھونڈنے والی بچی اور کوئی بلوچ بچہ سیلاب میں بہنے والے گھر سے زیادہ اپنی کتابوں کو یاد کر کے روئیں گے ، یا نہیں!

Advertisements
julia rana solicitors

محسن غریب لوگ بھی تنکوں کے ڈھیر ہیں
‏ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply