آزادی کا تماشہ

پاکستان سترسال کا ہوچکا۔ ہرسال کی طرح اس سال بھی 14 اگست بڑی دھوم دھام سے منایا جائے گا۔ خصوصی تقریبات کا انعقاد ہوگا۔ پرچم کشائیاں اور پریڈ ہوگی،بینڈ بجے گا،جھنڈیاں لگائی جائیں گی ۔ہر طرف چراغاں ہوگا ۔ہم زندہ قوم ہیں جیسے ملی نغموں اور ترانوں سے گلی کوچے گونج اٹھیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان سرگرمیوں سے وطنِ عزیز کے قیام کے عظیم مقصد کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے یا ہوسکے گی؟کیا خصوصی تقریبات کا انعقادہمارے آباؤ واجداد کی لازوال قربانیوں او ر ان کے مشن کو آگے لے کر چلنے کی بنیادیں فراہم کام کرسکے گا؟کیا پرچم کشائی سے نظریہ پاکستان کی سربلندی کی عکاسی ہوسکے گی؟کیا پریڈ کرنے سے ہم ذہنی اور فکری غلامی سے بھی آزادی حاصل کرپائیں گے؟ کیا بینڈ بجانے سے تحریکِ پاکستان پر قربان ہونے والی پندرہ لاکھ روحوں کو تسکین کا سامان فراہم ہوسکے گا؟ کیاجھنڈیاں لگانے سے ایک لاکھ سے زائد مسلمان ماؤں اور بہنوں کی عزت وحرمت کے پامال شدہ دوپٹے کا تقدس بحال ہوجائے گا ؟ کیا چراغاں کرنے سے وطنِ عزیز کی منزل کی طرف راہنمائی ہوسکے گی ؟ کیا ان ستر سالوں میں واقعی ہم زندہ قوم بن پائے ہیں؟

انصاف کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد کسی کو ان سوالات کا،یا کم از کم ان میں سے کچھ سوالات کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو اسے یہ جوش وخروش دل وجاں سے مبارک ہو! وہ اس تسلسل کو ضرور جاری رکھے ۔ اس روایت کو برقرار رکھنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔لیکن اگر ان کا جواب نفی میں ہو تو پھر ایک لمحہ کے لیے اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کیجئے کہ آخریہ سب ہم کیوں کرتے ہیں ؟ جواب ملے گا کہ وطن سے محبت وعقیدت ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔جواب درست ہے۔بلاشبہ اس طرح کی سرگرمیوں سے وطن سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار ہوتاہے ۔ لیکن اگر واقعتاً دعویٰ محبت میں ہم صادق ہیں تو اس کے ثبوت کے لیے ان خرمستیوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ،آپ اندازہ لگائیں کہ جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہو ،جہاں اکثریت کی بھاگ دوڑدو وقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے کےلیے دو کپڑوں کے حصول تک محدود رہ گئی ہے۔کیا ایسا ملک خصوصی تقریبات،جھنڈیوں اور چراغاں کے نام پر لاکھوں بلکہ اربوں روپے ضائع کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے ؟

صاحبِ ثروت اورخوشحال طبقوں کے لیے جشن کا سماں تو ضرور ہوگالیکن بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، بیماری، ناخواندگی کی ذلتوں کے شکار دکھ اور درد سے بھرے معاشرے کی اکثریت کے لیے یہ جشن نہیں تماشا ہوگا۔پھر ظلم در ظلم یہ کہ ایک طرف ہم وطنِ عزیز کے مملکتِ خداداد اور نعمتِ خداوندی ہونے کے راگ الاپتے ہیں تو اگلے لمحے اسی خداوندِ قدوس کے احکامات کو پامال کرکے کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایک طرف “پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الا اللہ”کی صدائیں بلند ہوتی ہیں تو اسی کے ساتھ ایکوساؤنڈکی آواز میں میوزک بجاکر، ناچ اورگانوں کی محافل سجاکر ببانگِ دہل اسی نعرہ کا مذاق اڑایا جاتاہے۔آزادی کے جشن میں ہم اخلاقی ، شرعی اور قانونی حدود سے بھی مکمل طور پرآزاد ہوجاتے ہیں ۔ جشنِ آزادی کے نام سے ایسا مادر پدر آزادکلچر وجود میں لایا جارہاہے جس کا تعلق نہ اسلام سے ہے نہ پاکستان سے۔یہ اس آزادی کا تماشہ نہیں تواور کیا ہے ؟؟اسی طرز ِ آزادی کو اقبالؒ نے ابلیس کی ایجاد قرار دیاہے۔
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک ،
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکرِخداد سے روشن ہے زمانہ ،
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد!

حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے قیام کی تحریک ایسی مادر پدر آزادی حاصل کرنے کے لیے قطعاً نہیں تھی۔ بلکہ یہ اسلامی عقیدے، نظریے اور قانون کی ترویج کے لیے ایک مثالی مملکت بنانے کا خواب تھا جو مسلمانانِ برصغیر کئی نسلوں سے دیکھتے آئے تھے۔جب وطنِ عزیز کے قیام کی تحریک شروع ہوئی تو بانیانِ تحریک کی جانب سے اپنی لسانی ، علاقائی یادیگر شناختوں سے قطعِ نظر کرکے،اسی دوقومی نظریے کو بنیاد بناکر ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پھر جب تحریک کامیاب ہوئی تو وطنِ عزیز کا نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان” تجویز کیا گیا ۔ سب سے پہلی پرچم کشائی کے لیے دینی شخصیات (مغربی پاکستان میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اورمشرقی پاکستان میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ)کا انتخاب کیا گیا۔بلکہ بانی پاکستان جناب محمد علی جناح ؒنے تو واضح الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ “اس مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جائے گا”۔ مملکتِ خداداد کے وجود میں آتے ہی اگستء میں ہی قائد ؒ نے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خود پہلا اور واحد ڈیپارٹمنٹ قائم کیا تھا جس کا نام”ڈیپار ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن “ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ علامہ محمد اسد ؒ کو بنایا گیا تھا۔

اس ڈپارٹمنٹ کا کام پاکستان کا فلاحی اسلامی آئین بنانا تھا،جس میں اسلامی معاشیات، اسلامی تعلیم اوراسلامی معاشرتی نظام شامل ہو ۔ اس ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ کے لیے قائد ؒنے خود پاکستان کے مالیاتی ادرے کو خط بھی لکھا تھا۔اسی تسلسل میں ایک مزیدپیش رفت یہ ہوئی کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد قائد اعظم ؒ نے مولانا مودودیؒ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ قوم کے سامنے اسلام کے عملی نفاذ کا نقشہ ریڈیو پاکستان کے ذریعے بیان کریں۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ نے قائد اعظمؒ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس حوالے سے کئی تقریں نشر کی تھیں ،جو ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اب بھی محفوظ ہوں گی۔مزید یہ کہ قراردادِ مقاصد کے نام سے ملک کا ایک مکمل اسلامی دستورفراہم کردیا گیا ۔ اور 73کے آئین میں متفقہ طور پر طے پایا کہ”ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو”۔

یہ سب واقعات اورشواہداس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مملکتِ خداد کا خمیر اسلامی بنیادوں پر اٹھایا گیا تھا۔ مگر افسوس کہ آج کا نوجوان اپنی تاریخ سے کٹ چکا ہے۔ وہ وطن عزیز کے لیے دی جانے والی الم ناک قربانیوں، اذیت ناک واقعات اور وحشتناک حالات سے قطعی بے خبر ہے۔ہمارا میڈیا اسلامی تعلیمات سے بالکل آزاد بلکہ مغربی پالیسیوں پر کاربند نظر آتاہے ۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں تعمیر کی جگہ تخریبی ذہن کی پرورش، مثبت کی جگہ منفی سوچ کو فروغ مل رہاہے۔ہماری نئی نسل کے ذہن میں قیامِ پاکستان مقصد کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کیے گئے۔ ان کے ذہن میں یہ بات ٹھونس دی گئی کہ پاکستان سکیولر ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا۔پھر اس مفروضے کو تقویت دینے کے لیے ریاست کو مذہب سے لاتعلق کرنے کا بیانیہ بھی سامنے لایا گیا۔چنانچہ آج ہماری نسل تاریخِ پاکستان کی لازوال قربانیوں کویکسر فراموش کرچکی ہے۔انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمارے آباء واجداد کس مقصد کے لیے کٹ مرے تھے!

Advertisements
julia rana solicitors

آئیے ! آج عہد کریں کہ ہم 14 اگست پر اپنے پروردگار کی اس عظیم نعمت کا شکرضرور بجالائیں گے،لیکن احکامِ خداوندی کو پامال نہ ہونے دیں گے۔ عزم کریں کہ ایک خصوصی تقریب وطنِ عزیزمیں موجود بھوک و افلاس کی ماری ان لاچار ماؤں ،بہنوں اور بھوک سے نڈھال ننھے منے معصوم بچوں کے ساتھ ان کے کچے مکانوں اور جھونپڑی میں منعقد کریں گے۔اور ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کا وسیلہ بنیں گے۔ جھنڈیاں لگانے کی بجائے معصوم بچوں اورسفید ریش بوڑھوں کے میلے کچیلے،پھٹے پرانے پیوند زدہ کپڑوں کو صاف ستھرے لباس میں تبدیل کریں گے۔ ارادہ کریں کہ چراغاں کی خاطر بتیوں اور لائٹوں پر ہزاروں روپے ضائع کرنے کی بجائے اس سے کسی یتیم بچے کو جہل کے اندھیروں سے نکال کر علم کا چراغ دیں گے۔اپنے گھروں پرپرچم کشائی کی بجائے پڑوس میں کسی نادار ومفلس کے گھر راشن پہنچائیں گے۔آگے بڑھیں اور بینڈ باجوں کی بجائے فقر وتنگدستی کی بدولت گھر کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہونے والی بہنوں بیٹیوں کے گھر بسانے کا سامان کریں ۔

Facebook Comments

تنویر احمد
سچامسلمان بننے کی کوشش کررہا ہوں اسلئےسچائی کا ساتھ دینا پسند ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply