چہرہ فروغ مئے سے گلستاں(قسط14)۔۔فاخرہ نورین

لاک ڈاؤن میں ابا جی کا سارا زور زبیر کو کمرے سے باہر نکالنے پر رہا ۔ گاؤں میں ویسے بھی میاں بیوی کا کمرے میں بہت زیادہ قیام پسند نہیں کیا جاتا ۔کمرے میں جانے کا مطلب سونا اور یا پھر “سونا” ہی سمجھا جاتا ہے لہذا اس کے لئے زیادہ تر لوگ اس قدر سادہ ہیں کہ رات ہی کو مخصوص سمجھتے ہیں ۔ زبیر گاؤں میں ہو تو فاتحہ درود اور شادی بیاہ میں شرکت اس کی سب سے بڑی مصروفیت ہوتی ہے ۔ بلکہ وہ اس قدر ان سماجی سرگرمیوں کا شوقین ہے کہ مجھے کئی بار اسے کہنا پڑتا تھا کہ
یار تمہاری توجہ اور وقت حاصل کرنے کے لئے کیا میں مرجاؤں؟ تم کم از کم میری فاتحہ خوانی کے چکر میں ضرور بیٹھو گے اور میرے بارے میں سوچو گے۔
وہ ہنسنے لگتا ہے اور میرے دماغ میں ساتھ ہی یہ کیڑا سر اٹھا لیتا ہے کہ وہ ایسی سوشل گیدرنگ میں میرے لئے تھوڑی بیٹھ رہے گا ۔ شادی میں جانے لگے تو میں باآواز بلند اسے اس کی اپنی شادی یاد کرواتی ہوں ۔
یار زبیر ایک تمہاری بھی شادی ہوئی ہے اس کو بھی وقت دے لو کبھی کبھی ۔

وقت نہ دینے یا کم دینے کا گلہ مجھے ہمیشہ رہتا ہے اور کرونا سے پہلے پہلے میرے پاس اپنے اور اس کے ساتھ ساتھ رہنے کا وقت گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے بھی یاد تھا ۔ میں نے اس کی موجودگی سے کہیں زیادہ اس کا موجود نہ ہونا بھگتا اور لکھا تھا کہ ہجر میرے اور اس کے تعلق کا سب سے مضبوط حوالہ اور سب سے بڑا دکھ بن گیا تھا ۔ کوئی شاید اس تکلیف کو سمجھ نہ سکے کہ آپ زمانے بھر کی مخالفت مول لے کر ایک شخص سے شادی کرلیں، ایک اس کے ساتھ کی خاطر ہر طرح کی مخالفت اور اختلاف برداشت کر لیں، زندگی کا دھارا بدل لیں اور وہ پردیس چلا جائے ۔ زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہو کہ اس کا پردیس جانا آپ کی ضرورت اور تقاضا نہ ہو نہ آپ تک اس کے ثمرات پہنچتے ہوں ۔ اس کے پردیس کاٹنے سے مستفید ہونے والے سب لوگ اپنے اپنے گھر میں اپنے ہمسفر اور اولاد کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھاتے ہوں اور آپ سے کوئی ہمدردی کرنے کی بجائے متفقہ قرارداد منظور کر کے آپ کو تنہائی اور بے کسی کی ایک لامتناہی دلدل میں ہاتھ پاؤں مارنے کو چھوڑ دیا جائے تو پردیس اور پردیسی دونوں ہی آپ کا نفسیاتی مسئلہ بن جاتے ہیں ۔

میں جتنی ضدی اور خودسر ہوا کرتی تھی اتنی ہی چپکو اور بے وساہی بن گئی ۔ میرا اور اس کا وقت صرف اتنا ہی ہوتا جب تک ہم کمرے کے اندر ہوں ۔چنانچہ میرے لئے کرونا کوئی نعمت بن کر آیا۔ میں نے شدت سے چاہا ہے کہ میں اتنا زبیر کے ساتھ رہوں کہ اس سے تنگ آ جاؤں لیکن جتنا وقت میرے حصے میں آتا تھا میں ذہنی بیمار کے طور پر اس کے عشق میں مبتلا ہونے لگی۔ کرونا کی وجہ سے ہم نے خوب وقت ساتھ گزارا۔ میں وہ صاحباں ہوں جسے کراڑ دی ہٹی پر دیوا بلدا ذرا خوش نہیں آتا۔ میں نے شدت سے چاہا ہے کہ دنیا ختم ہو جائے اور بس ہم دونوں رہ جائیں اور میں اسے جی بھر جیوں، دل بھر پیوں۔ دعائیں سچے دل کی ہوں تو افلاک سے نالوں کے جواب آتے ہیں، میرا بھی آیا۔
ہم خوب سوئے، جاگے، کھیلے، لڑے اور ہنسے، مل کر کھایا بھی اور گھومے بھی ۔ساتھ رہے اور بھِڑے بھی، نیلی رضائی جو ارمانوں بھری منتظر رہی تھی میں ایک دوسرے سے لپٹے لیٹے بھی اور لڑنے کے بعد اسے اٹھا اٹھا پٹخا بھی ۔ یہ پہلا دسمبر تھا جسے ہم نے ویسے جیا جیسے اردو شاعر جینا چاہتے ہیں ۔ یوں سمجھیے کہ زبیر نے پہلی بار دسمبر کا رومینس محسوس کیا ۔
شادی سے پہلے اس نے جب مجھ سے پوچھا کہ
آپ نے اب تک شادی نہیں کی کیا وجہ ہے؟
تو یکے از وجوہات میں نے اسے کہا تھا ۔

یار مجھے لوگوں سے بو آتی ہے، پسینے کی چپ چپ کا سوچ کر الجھن ہوتی ہے اس لیے گرمی میں تو شادی کا سوچتی بھی نہیں البتہ نومبر دسمبر میں مجھے بستر کے لئے ایک پارٹنر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔
ہیں؟ بستر کا پارٹنر ۔ وہ پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔
مطلب مجھے اپنا بستر گرم کرنے کے لئے کوئی چاہیے۔ میں نے سادگی سے ضرورت رشتہ بیان کی لیکن اس کی حالت نازک دیکھ کر فوراًوضاحت کرنی پڑی ۔
آئی مین سچ مچ کا گرم، ٹھنڈ ہوتی ہے نا تو کافی دیر میں سردی سے ککڑ بنی رہتی ہوں ۔میرا دل چاہتا ہے کوئی میرے لئے بستر گرم کرے اور جب میں بستر میں آؤں تو مجھے گرم جگہ پر سونے دے۔
باس؟ صرف یہی وجہ ہے؟ اس نے شادی کے مقاصد اور نوعیت دونوں کا اندازہ کرنا چاہا۔
یار یہ چھوٹا مسئلہ نہیں ہے ابھی میں گرم پانی کی بوتل کے ساتھ سوتی ہوں اور وہ سارا بستر گرم نہیں کرتی۔
میں نے اپنی طرف سے کیوٹ بننے کی کوشش کی اور اسے کیوٹ ہی نہیں معصوم بھی لگی۔

چنانچہ شادی کے پہلے اور دوسرے دسمبر میں چند دن جو ہمیں ساتھ گزارنے نصیب ہوئے ان میں اس نے میرا بستر خوب گرم کیا ۔میرے ہاتھ پیر وہ اپنے ہاتھ پیروں میں تب تک دباتا رہتا جب تک کہ میں گرم نہ ہوجاتی ۔ البتہ جب شاعروں کی جانب سے دسمبر کا واویلا اس کی نظر اور سماعتوں سے گزرا تو اسے سمجھ نہیں آئی ۔
یار دسمبر میں کیا الگ ہے؟ کیا تم شاعر بھی نا۔ انسان کا کوئی موسم نہیں ہوتا صرف جانوروں کا ہوتا ہے ۔ وہ یقینًا تصور میں بھینسوں کی گرمائی یاد کر رہا تھا ۔
ابے تجھے کیا پتہ کبھی ایک جگہ ٹک کر بیٹھے تو پتہ چلے نا۔

تیرے تو سارے تصورات ہی شدید خراب اور معیشت کے گرد گھومتے رہتے ہیں یا بھینس کے گرد۔میں نے سڑ کر کہا ۔ اگلے دو دسمبر میرے والد کی وفات اور مس کیرج کے ڈپریشن کی نذر ہو گئے ۔ البتہ اس دسمبر جب کرنے کو کوئی کام نہیں تھا اور جنوری میں دھند کے ساتھ بیڈروم کی کھڑکی سے مالٹے کے باغ دھندلائے غبار میں لپٹے نظر آتے اور نیلی رضائی کی مخملیں گرماہٹ جذبات کو بھی حدت دیتی تو زبیر دسمبر ہی نہیں جنوری پر بھی ایمان لے آیا۔
لیکن تبدیلی زبیر میں آئی تھی، ابا جی پر وہ بڑھاپا آ چکا ہے جو پھر جاتا نہیں لہذا وہ غفلت کی نیند سوتے اور محبت کی جاگ جاگتے بہو بیٹوں کے دروازے بجاتے ہیں ۔ زبیر چونکہ گھر کا بڑا بیٹا بھی ہے اور من پسند عورت کے ساتھ بھی، سو ابا جی کو خود لومیرج کا پرانا کھلاڑی ہونے کے ناطے کھیل کی ساری رمزیں معلوم ہیں ۔وہ اسے اسلام کی ڈوری سے باندھ باندھ دراصل بیوی کے پلو سے چھڑانے کا جہاد بالسیف کر رہے ہیں ۔

زبیر عموماً کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتا، پیسے دینے سے لے کر بے چوں و چرا ہر درست غلط حکم پر سر جھکائے ان کے پیر دبا کر سونے تک سارے خانے بھرتا ہے سو اسے پکڑنے کے لئے صرف ایک گراؤنڈ خالی ہے اور وہ یہی کہ وہ خود اپنی عادت اور معمول کے خلاف یر تک بستر میں رہتا ہے ۔
چنانچہ وہ اس کو سوتے میں پکڑنے کے لئے صبح سات بجے کمرے میں پہنچے اور فجر کی نماز پر لیکچر دینے لگے۔
میں نماز پڑھ کر سویا تھا اور قرآن بھی۔ اس نے اپنے دفاع میں دلیل پیش کی۔
کیا فائدہ ایسی نماز کا اور قران کا، نور پیر ویلے تو تم سوئے پڑے ہو۔
اٹھ کر کیا کروں؟ اس نے پوچھا ۔انداز بتانے والا تھا کہ میرے کرنے کا کوئی کام نہیں ہے ادھر ۔
اٹھ کر دارے میں بیٹھو ۔ نیند بھگانے کیلئے تلاوت کر لیا کرو۔

انھوں نے ناپسندیدگی کی نگاہ مجھ پر ڈالی کہ اب تک میں صبح جاگنے کے معاملے میں ان سے جیت چکی تھی اور نیند کی گولی کھانے کے بعد آنے والی نیند سونے کا بنیادی حق حاصل کر چکی تھی ۔
اس سے اگلے ہفتے میں برآمدے میں کھڑی زبیر کا سوٹ استری کر رہی تھی جب وہ ہمارے صحن کی طرف آئے۔
زبیر اٹھیا ای کڑییے
جی جی اٹھا ہوا ہے قران پاک پڑھ رہا ہے ۔ میں نے فخریہ پیشکش کی کوشش کی ۔
کی فیدہ اتو دوپہر ہو گئی اے۔ انھوں نے دروازہ کھولا زبیر بستر میں بیٹھا موبائل پر ترجمے کے ساتھ قران پڑھ رہا تھا ۔
ایہہ کیہڑا ویلا اے قران پڑھنے دا۔ ابا جی نے اپنے ہی کہے سے مکر کر مجھے حیران اور اسے پریشان کر دیا ۔
دوپہراں تک ستا رہا ایں تے ہن قران پھڑ لیا ای، اینی لیٹ اٹھیے تے انج ای شیطان منہ وچ موتر جاندا اے۔

وہ بڑے رسان سے اس کے منہ میں شیطان کو ٹانگوں سے پکڑ ے لٹکا کر پِش پِش پِش کر کے فلش کیے بغیر نکل گئے ۔ میں استری سٹینڈ کے پاس ہکا بکا کھڑی رہی۔ اندر گئی تو زبیر حیران بیٹھا تھا لیکن اپنے ساتھ ہونے والی واردات سے مجھے بے خبر سمجھتے ہوئے اس نے مجھے کچھ بھی بتانے سے گریز کیا ۔ میں نے اس کے استری شدہ کپڑے الماری میں لٹکائے اور باتھ روم میں جا کر برش پر تھوڑا پیسٹ نکال کر اس کے پاس آ گئی ۔
مانی یہ لو برش کرو ۔
میں نے برش کیا ہے صبح۔اس نے گویا صفائی دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

گندے آدمی دوبارہ کر لو کیونکہ منہ میں شیطان کی پشی ہے نا ۔ میں نے سنجیدگی سے کہتے کہتے پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع کر دیا اور وہ بھی صورت حال کی مضحکہ خیزی پر میرے ساتھ شامل ہو گیا ۔
مزے دار بات یہ تھی کہ گھر کے باقی تمام مرد دارے میں سو رہے تھے ایک دیور اپنے کمرے میں جبکہ اس کی بیوی کچن میں حاضر سروس تھی ۔ ایک زبیر تھا جو اپنی چہیتی اور سرچڑھی بیوی کے ساتھ بستر میں دیر تک رہا اور اب بھی بیوی اس کے آس پاس ہی تھی لہذا اس کے منہ میں شیطان کا باتھ روم بنانا بنتا تھا سو بنا دیا گیا ۔ کہا نا جوائنٹ فیملی سسٹم کا آئین تحریر شدہ نہیں سو کسی کے لئے کبھی بھی کچھ بھی بتا سکتا ہے اور لو میرج کرنے والوں کے لئے تو لازم ہے کہ آئین غیر تحریر شدہ ہی رہے ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply