مرحبا مرحب آ

جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ بینر آویزاں ہیں، دکانیں ہوٹل سب بند ہیں، ٹھیلے والے اپنے ٹھیلوں سمیت کسی کونے میں کھڑے دیہاڑی نہ لگنے کا رونا رو رہے ہیں۔ سڑکیں بند ہیں، کہیں ایمبولینس میں موجود مریض زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا ہے مگر چونکہ راستہ بند ہے تو گاڑی کیسے چلے۔ اس سب کے باوجود ہر جگہ سے ایک نعرہ بلند ہو رہا ہے”دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا”۔لوگوں کے ہجوم نے شیر کی گاڑی کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ گاڑی کو بوسے دینے والے بھی موجود ہیں۔ شدید گرمی اور حبس سے بے حال لوگ اپنے لیڈر کی جھلک دیکھنے کو بے تاب، کہیں کوئی بے ہوش ہے تو کہیں کوئی ساتھ ساتھ بھاگ کر اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہے اور شیر اے سی والی گاڑی میں خراماں خراماں منزل کی طرف رواں دواں۔
یہ قافلہ ہے اقتدار سے نا اہل ہونے والے سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کا ،جو شہرِ اقتدار کو خیرباد کہہ کر اپنے گھر کو روانہ ہیں۔ پر ذرا رکیے، کیا یہ صرف گھر کی طرف جانے والا قافلہ ہے یا سیاسی پاور شو؟ یا لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کا نیا طریقہ؟ یا نون لیگیوں کا استقبالیہ؟ لوگوں کی رائے مختلف ہے اس بارے میں۔ بلاشبہ نواز شریف ایک مقبول شخصیت ہیں۔ 30 سالہ اقتدار سے لوگوں کے دلوں پر قابض ہیں۔ پر ڈیڑھ سال سے پانامہ کے ہنگامہ نے کسی حد تک لوگوں کو بیزار کر دیا ہے۔ جی ٹی روڈ کا راستہ اپنا کر جہاں نواز شریف نے خود کو مشکل میں ڈالا ہے وہیں اپنے کارکنوں اور ان کی سیکیورٹی پر معمور اہلکاروں کو بھی سولی پر لٹکا رکھا ہے۔
سکیورٹی رسک کے باعث اس قافلے کو جگہ جگہ رک کر خطاب کرنے کا کچھ زیادہ موقع نہیں ملا جس کے باعث ن لیگیوں کی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئی ہیں۔ لیکن جہاں بھی موقع ملا وہاں لوگوں کا ہجوم اتنا نہیں تھا جتنا کہ ہونا چاہیئے تھا۔ اب وجہ گرمی کی شدت تھی یا بے زاری، واللہ اعلم۔ بقول چوہدری نثار صاحب، 99 فیصد سینیئر قیادت اس قافلے میں شامل نہیں ہے اور خود نثار صاحب بھی۔ جس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ دال میں کالا ہے یا پھر دال پک پک کر پوری ہی کالی ہو چکی ہے۔ بہرحال چند گاڑیوں اور لوگوں کے سیلاب کے ساتھ نواز شریف نے جہاں جہاں بھی خطاب کیا وہاں بڑی معصومیت سے چند سوال بھی کئے کہ یہ جو بھی ہوا ہے، کیا ایسا ہونا چاہیئے تھا؟ ان سے پوچھو، مجھے کیوں نکالا؟ میں نے تو کوئی کرپشن بھی نہیں کی۔ 5 جج ایک منٹ میں فیصلہ لکھ کر مجھے گھر بھیج رہے ہیں، کیا تم سب لوگوں کو منظور ہے؟ کیا میرے ساتھ ایسا ہونا چاہیئے تھا؟ وغیرہ وغیرہ اور فلاں فلاں۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں صاحب ڈیڑھ سال سے میڈیا نے سارا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ پتہ نہیں تھا وہ پانامہ سے اقامہ تک کی پوری سٹوری جانتے ہیں اور شاید سچ بھی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو آپ قافلہ لے کر جی ٹی روڈ سے نکلے ہیں اور سارے راستے آپ نے عوام سے اگر یہی سوال کرنے ہیں تو کہیں ان سب کا مقصد نون لیگیوں کو اداروں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش ہے یا توہینِ عدالت؟ کہیں آپ انہیں اکسا تو نہیں رہے کہ میں بے بس ہوں، اب تم میرا بدلہ لو اور پوچھو کہ مجھے کیوں نکالا۔ میاں صاحب آپ کا یہ قدم ایسے ہی ہے جیسے بارودی سرنگیں پائی گئی ہوں اور ان میں سے بچ کر نکلنا چاہتے ہیں لیکن کوئی پتہ نہیں کہ کب کس بارودی سرنگ پر پاؤں رکھ دیں۔ یہ عوام انہی بارودی سرنگوں کی طرح کہیں کوئی تصادم نہ کر بیٹھے۔ آپ کی جذباتی تقاریر و سوالات کہیں لوگوں میں غم و غصہ کو ہوا دینے کا سبب نہ بن جائے۔
بہتر ہوتا اگر آپ پرسکون طریقے سے گھر کو روانہ ہوتے اور پھر پریس کانفرنس کرتے اور پھر عوام سے پوچھتے کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیئے۔ پر بھلا ہو آپ کے ساتھ روانہ ہونے والے خوشامدی چمچوں کا جو، جوش اور خوشامد کے چکر میں آپ کو” مرحب “بنا رہے ہیں۔ اب یہ ان کی محبت ہی ہے جس کی وجہ سے ان کی سدھ بدھ کھو گئی ہے۔ ویسے ہوتا تو یہی ہے کہ بادشاہت کو ڈبونے والے خوشامدی درباری ہی ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں پر کان دھرنے سے بہتر ہے کہ جمہوریت کو بچائے رکھنے کیلئے کسی بھی تصادم سے بچا جائے۔ عدالت کا فیصلہ تو آپ قبول کر ہی چکے ہیں، عوام کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے اور ایک دراڑ شاید آپ کے جاتی عمرہ کے قلعے میں بھی آئی ہے جس کا ذکر تہمینہ درانی صاحبہ کر چکی ہیں۔ جذباتیت سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں اور موجودہ وزیرِ اعظم کو اپنے سحر سے آزاد کر کے ملک و قوم کیلئے کچھ بہتر فیصلے کرنے دیں۔ باقی لاہور پہنچنے تک اللہ کی امان۔

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply