• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سائنس کی بہتر سمجھ کے لئےقرآنی رہنمائی ضروری ہے۔۔۔۔سیدہ ماہم بتول

سائنس کی بہتر سمجھ کے لئےقرآنی رہنمائی ضروری ہے۔۔۔۔سیدہ ماہم بتول

شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں کہ “سائنس ابھی اْن حقائق تک مکمل طور پر نہیں پہنچ پائی ہے جن حقائق اور واردات کی نشاندہی قرآن نے آج سے چودہ سوسال پہلے کی ہے۔ اس لئے کہ سائنسی انکشافات واخترائات بدلتے رہتے ہیں۔ آج ایک سائنسی ایجاد حقیقت دکھائی دیتی ہے کل وہی مفروضہ ثابت ہوتی ہے”۔

قرآن مجید میں الله عزوجل فرماتے ہیں:
 سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝۵۳
ترجمہ: ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا ً وہی (اللہ) حق ہے، کیا آپ کے پروردگار کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے۔ (فصلت: 53)

اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول رحمت ﷺ کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور یہ خبر دی کہ آئندہ آنے والے دور میں فتنے اٹھیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب یعنی قرآن حکیم۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کی خبریں بھی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا احوال بھی اس میں شامل ہے۔

اللہ کے بھیجے ہوئے دین حنیف یعنی اسلام میں قیامت تک کی باتیں چھپا دی گئی ہیں اور لازم ہے کہ یہ باتیں ہردور میں ظاہرہوجائیں تب ہی ہم اس کی آیات پر غور وفکر کرکے اجتہادی کاوشیں تیز کرسکتے ہیں۔ تاریخ کے آئینے میں اس کی ایک اہم مثال ہم یوں پیش کرسکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت کا مصری مغرور بادشاہ فرعون سمندر میں غرق کردیا گیا اور قرآن میں فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا:

 “فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۝۹۲ۧ
ترجمہ: پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کی نشانی بنے، اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔ (یونس: 91)

اس آیت مبارکہ کے مطابق فرعون کا جسم معجزاتی طور پر محفوظ رکھا گیا، تاکہ اہل اسلام اس صداقت کا استعمال کرکے بعد کی نسلوں کے سامنے کتاب اللہ کی صداقت کا ثبوت پیش کرسکیں مگر آج تک ملت مسلمہ میں سے کوئی فرد اس اہم ترین قرآنی صداقت پر عملی اور تحقیقی انداز سے غوروفکر نہیں کرسکا- یعنی اتنی صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی مسلم علماء اس نشانی پرسے پردہ نہ اٹھا سکے اور نہ ہی مزید غورو فکر اور جستجو کرسکے تاکہ قرآن کی ایک ناقابل انکار صداقت کے طور پر اس فرغونی جسم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے متحمل ہوسکتے- یہاں تک کہ ایک فرانسیسی اسکالر پروفیسر لورٹ (Lort) نے 1898ء میں فرعون کے اس محفوظ جسم کو اہرام کے اندر سے نکالا- پھر اس ممی کئے ہوئے جسم کو قاہرہ کے میوزیم میں رکھا گیا- اس کے بعد پہلی بار 1907ء میں پروفیسر اسمتھ (Ellist Smith) نے اس جسم کے غلاف کو کھول کر اس کا مشاہدہ اور مطالعہ کرکے اس پر “The Royal Mummies”نام کی کتاب تصنیف کی-

اس کے بعد ایک فرانسیسی دانشور ڈاکٹر موریس بکائی نے اس دریافت شدہ مواد (Material) کواسلام کی صداقت کے لئے استعمال کیا- موریس بکائی 1975ء میں خود قاہرہ گیا، اور وہاں اس نے مستقیم طور پر میوزیم میں اس کا مطالعہ کیا- اس معاملےکی کامل تحقیق وتفتیش کے لئے بکائی نے باضابطہ عربی زبان وادب سیکھا- پھر اپنی بھرپورتحقیق کے بعد اپنی شاہکار تصنیف فرانسیسی زبان میں رقم کی-

اس طرح قرآن کی مذکورہ پیشن گوئی کو علمی اور عملی طور پر ثابت کرنے والا ایک غیر مسلم عالم یا دانشور بن گیا جو بعد میں مسلمان ہوا- اس کو اللہ کی طرف سے یہ توفیق نصیب ہوئی کہ وہ اس قرانی صداقت کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اہل ہوا کہ وہ لوگ جو اس مقدس کتاب یعنی قران پاک کی سچائی کے لئے جدید ثبوت چاہتے ہیں وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میں شاہی ممیوں کے کمرے کو دیکھیں وہاں وہ قران کی اْن آیات کی شاندار عملی تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے متعلق ہیں-

یہاں ہمیں رسول محترم ﷺ کے اس مبارک فرمان پر بھی نظر رکھنی چاہئے جو صحیح البخاری کی “كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ حدیث نمبر 3062” میں مذکورہے اورجس میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایاہے کہ:
 “وَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ”
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کبھی اپنے دین کی مدد ایک فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے۔

اس حدیث مبارکہ پر غور وفکر کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اگر ایک فاجروفاسق انسان کے اندر غوروفکر کی صحیح قوت موجود ہو تو وہ بڑے بڑے تخلیقی کارنامے انجام دے سکتا ہے اور اس کے برخلاف ایک مسلمان ومومن اگر اس صلاحیت اور صلابت سے محروم ہو تو اس دنیا میں وہ کوئی بڑا معرکہ قطعاً انجام نہیں دے سکتا۔ لہٰذا ہمیں یہاں سوچ بچار کرنا چاہئے کہ ہم کیوں بے معنی اور فضول باتوں اورفروعات پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں-علامہ محمد اقبالؒ نے بھی غالباً اسی صداقت کے پس پردہ اپنے یہ اشعار رقم کئے ہیں کہ:

Advertisements
julia rana solicitors

کافر بیدار دل پیش صنم۔
بہ زدیندار کہ خفت اندرحرم۔
یعنی:
“اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی۔
نہ ہو تو مردِ مسلمان بھی ہے کافر زندیق”

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply