تیسرا کون۔۔۔۔جنید جاوید راؤ

پاکستان اور انڈیا دنیا کے دو ایسے خطے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کے اوپر اور نیچے بے شمار وسائل سے نوازا ہے اِن دونوں ممالک کے بیچ دشمنی کی سینکڑوں وجوہات ہیں جو لوگ آپ کو بتا سکتے ہیں لیکن میرے نزدیک پاکستان اور انڈیا کی دشمنی کی صرف یہی ایک وجہ ہے کہ اِن کی دشمنی سے کسی تیسرے کو فائدہ ہے وہ تیسرا کون ہے جس سے یا تو پاکستان اسلحہ خریدتا ہے یا ہندوستان۔

ورلڈ وار 2 کی آپ نے بہت سی کہانیاں سنی ہونگی اِس پر بننے والی فلمیں بھی دیکھی ہوں گی کیا کبھی کسی نے یہ بتایا کہ جس وقت ورلڈ وار 2 چل رہی تھی اُس وقت بنگال میں 30 لاکھ سے زائد لوگ بھوک بیماری اور قحط سے مرگئے تھے کیونکہ اُنہیں اپنے ملک ہندوستان میں پیدا ہونے والا اناج تک میسر نہیں تھا اُن کی دھرتی پر اگنے والا اناج بھی یورپ میں فوجیوں کو سپلائی ہورہا تھا۔

چلیں اس وقت تو ہم غلام تھے ہم پر برٹش حکومت کا راج تھا اسی لیے   ہمیں اپنے وسائل پر اختیار نہیں تھا پر آج تو ہم آزاد ہیں آج تو اپنے وسائل پر اختیار رکھتے ہیں تو کیا ہم اپنے وسائل اپنے لوگوں پر خرچ کرسکتے ہیں؟ نہیں! کیونکہ آج مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا کو پاکستان سے خطرہ ہے اور پاکستان کو انڈیا سے اب یہ دونوں ممالک اپنے بجٹ کا بیشتر حصہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔

70 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن بدقسمتی سے دونوں ممالک کو یہ بات سمجھ نہ آسکی کہ جنگ سے نہ تو ایک دوسرے کو نیچا دکھا سکتے ہیں اور نہ ہی مٹاسکتے ہیں لیکن پھر بھی مسلسل اسلحے پر اسلحہ خرید رہے ہیں کبھی میزائل ٹیکنالوجی پر پیسہ برباد کررہے ہیں کبھی جنگی طیاروں پر کبھی ٹینکوں پر پیسہ بہا رہے ہیں کبھی جنگی آبدوزوں پر۔

اگر تھوڑا سا پیسہ اپنی خارجہ پالیسی پر خرچ کرلیں تھوڑا بپلک ریلیشن پر خرچ کرلیں یا کسی ایسے منصوبے پر خرچ کرلیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان بہتری کی راہ ہموار ہوسکے اپنے لوگوں کو اچھی تعلیم صحت اور روزگار دے سکیں اور کچھ نہیں تو کم از کم زندگی کی بنیادی سہولیات ہی فراہم کرسکیں کیونکہ دنیا کا بیشتر غربت میں پسا ہوا طبقہ یہیں آباد ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے۔

بہترین گندم ہم اگاتے ہیں بہترین چاول، گنا اور کپاس ہم اگاتے ہیں بہترین پھلوں کی پیداوار یہاں ہوتی ہے ہمہ قسم کا خشک میوہ جات ہمارے پاس ہے بلوچستان چلے جائیں تو گیس وہاں ہے کوئلہ وہاں ہے سونے اور تیل کے ذخائر وہاں ہیں اتنے وسائل شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں بیک وقت میسر ہوں پر کیا ہمیں اختیار ہے اِن وسائل کو اپنے لوگوں پر خرچ کرنے کا؟ اگرچہ ہے لیکن ہم ایک بے معنی دشمنی اور انا میں پھنس کر رہ گئے  ہیں۔

مجھے نہیں پتہ کہ مزید ہم کتنی دہائیوں تک اس دشمنی اور اَنا کو جاری رکھیں گے کہ انڈیا پاکستان سے بہتر ہے اور پاکستان انڈیا سے بہتر ہے لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ جب تک یہ سب جاری رہے گا نقصان صرف اُسی غربت میں پسے ہوۓ طبقے کا ہوگا جو بارڈر کے دونوں جانب موجود ہے جنہیں نہ تو اس دشمنی سے لینا دینا اور نہ ہی اسلحے کی اِس دوڑ سے کیونکہ اِن بُھوک کے ستاۓ ہوؤں کی ہر روز ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی خوراک کا بندوبست کیسے کیا جاۓ۔

دونوں ملکوں کی عوام اپنا رہا سہا بیچ کر قانونی و غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں میں جاکر چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں ہمیں تب بھی احساس نہیں ہوتا الٹا اُن کے ملک جاکر اُن پر فخر کرتے ہیں کہ وہ کتنے بہتر طریقے سے اپنا مُلک چلا رہے ہیں وہ اپنا مُلک اس لئے اچھے سے چلا رہے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنے مرض کی تشخیص کرنا آتی ہے وہ اپنے وسائل اپنے لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔

اگر دیکھا جاۓ تو کیا فرق ہے آج میں اور اُس وقت میں جب بنگال میں قحط آیا تھا تب بھی سارا پیسہ اور وسائل باہر جارہے تھے اور آج بھی ہم اسلحہ میزائل جنگی طیارے ہیلی کاپٹرز خرید کر ان لوگوں کو مزید امیر کر رہے ہیں اور پھر سینہ چوڑا کرکے مثال بھی انہی کی دیتے ہیں کہ وہ لوگ کتنی پُرتعش زندگی گزار رہے ہیں کیا ہم ویسا طرزِ زندگی اپنے لوگوں کو نہیں دے سکتے کیا؟

چرچل ورلڈ وار 2 کا ہیرو تھا جس کی وجہ سے یہاں بنگال میں 30 لاکھ لوگ جان سے گئے تھے اُسکو آپ ہیرو کہتے ہیں؟ کیسا ہیرو تھا جو اپنے وسائل اور اپنے لوگوں کے بل بوتے پر نہ لڑسکا انڈیا سے کیوں لوٹ کر لے جارہا تھا؟ ہمارے لوگ کیوں جاپان یا جرمنی سے لڑرہے تھے؟ ہماری کیا دشمنی تھی جاپان یا جرمنی سے؟ ہمارے لوگ کیوں دوسروں کی لڑائی میں اپنی جان گنوا بیٹھے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسے ہماری جرمنی یا جاپان سے دشمنی نہیں تھی ویسے ہی ہماری آپس میں بھی کوئی دشمنی نہیں یہ پیدا کئے گئے مسائل ہیں جنہیں ہم بات چیت سے بآسانی حل کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہماری نیت صاف ہو ورنہ یہی ہوگا چند لوگ فائدے میں رہیں گے اور اکثریت اسی طرح غیرانسانی زندگی گزارنے پر مجبور رہے گی ہمیں مقابلہ آپس میں نہیں اُن عناصر سے کرنا ہے جو ہمیں تب بھی لوٹ رہے تھے اور اب بھی لوٹ رہے ہیں ہمیں اُس “تیسرے” کو شکست دینی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply