ایک کہانی بڑی پرانی

یادش بخیر پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ پاکستان نیوی میں ہمارے ایک سینئر ساتھی خادم حسین ہوا کرتے تھے۔ ایک دن خاکسار کے پاس آئے۔ ہاتھ میں ایک رسالہ تھا (غالباً جاسوسی یا سسپنس ڈائجسٹ)۔ کہنے لگے جوان سنا ہے تمہارا مطالعہ کا ذوق اچھا ہے۔ ہم نےاس رسالے میں ایک کہانی پڑھی لیکن اسکا انجام سمجھ میں نہیں آیا۔ ذرا یہ کہانی پڑھو اور سمجھ میں آتا ہے تو ہمیں بھی سمجھائو۔
مختصر کہانی تھی، دو مرکزی کردار تھے۔ ایک پولیس چیف قسم کے عہدے کا پولیس افسر اور ایک مافیا کا نمائندہ۔ پولیس افسر کی وجہ شہرت اس کا مسٹر کلین قسم کا بے داغ کردار اور ناقابل فروخت ہونا تھا۔ اصولوں پہ ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے اس پولیس آفیسر کا ماننا تھا کہ بکائومال بننے کی ذلت سے موت بہتر ہے۔ دوسرا کردار، مافیا کا نمائندہ، ہمہ قسمی سرکاری افسران کے ساتھ معاملات طے کرنے میں جو اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا اور اسکا ماننا تھا کہ ہر انسان کی ایک قیمت ہے اور اگر درست قیمت لگائی جائے تو ہر شخص خریدا جا سکتا ہے۔
ٹھیک سے یاد نہیں کہ پولیس افسر کا ٹرانسفر ہوتا ہے یا مافیا اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے پولیس افسر کے علاقے تک دائرہ عمل بڑھاتی ہے۔ بہرحال دونوں ایک علاقہ میں آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ مافیا اپنے نمائندے کو بھرپور اختیارات کے ساتھ پولیس افسر کے ساتھ مذاکرات کیلئے بھیجتی ہے تاکہ پولیس کو خرید کر اپنا دھندا بے خطر چلایا جا سکے۔قصہ مختصر! مافیا کا نمائندہ مذاکرات کر کے چلا جاتا ہے تو پولیس افسر اپنے دفتر میں مردہ حالت میں پایا جاتا ہے، اور یہاں کہانی ختم ہو جاتی ہے
میں نے خادم حسین صاحب کو بین السطور انجام بتایا کہ مافیا کا وہ نمائندہ جو اس قسم کی خرید و فروخت کا ماہر ہوتا ہے۔ کوئی ایسی پرکشش اور نا قابل انکار پیشکش کرتا ہے جو اس ایماندار اور اجلے کردار کے حامل پولیس افسر کو بھی ڈگمگا دیتی ہے۔ لیکن اپنے اصولوں پہ قائم پولیس افسر جہاں آفر کو ٹھکرا نہیں پاتا وہیں بک جانے کی ذلت سے موت کو گلے لگانا بہتر سمجھتا ہے۔آج یہ قصہ محترمہ عائشہ گلالئی کے حوالے سے یاد آیا ہے۔ ہر سمت موضوع سخن موصوفہ ہیں اور ہر شخص اپنے اپنے رجحانات کے مطابق اس پہ تبصرہ کر رہا ہے۔ دروغ بر گردن راوی پانچ اور پچاس کروڑ کی کہانی بھی گردش میں ہے۔ میری خیال میں براہ راست نقد خرید و فروخت قطعی ضروری نہیں۔ سیاسی لین دین میں پیسے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے اور پیسے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ آفر جو بھی تھی بہت پر کشش تھی اور موصوفہ میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ انکار نہیں تو خودکشی ہی کر پاتیں۔ باقی وقت اپنا فیصلہ سنائے گا۔
نوٹ! موصوفہ کی بہن جو پشتون روایات کے پس منظر میں بڑی مشکل صورتحال سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ایک کھلاڑی کے طور پر اپنی اور پاکستان کی پہچان بنا رہی ہیں ایک قابل تقلید مثال ہیں اور جوابی بیانیہ کی خاطر ان پر کیچڑ اچھالنا غیر مشروط طور پہ قابل مذمت ہے۔

Facebook Comments

کاشف حسین
مجموعہ خیال ابهی فرد فرد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ایک کہانی بڑی پرانی

Leave a Reply to Momin Cancel reply