آخری گنجے فرشتے

اردو ادب میں گنجے۔منٹوکی وجہ سےمشہور ہوئے اورسیاست میں’’شریفوں‘‘کی وجہ سے۔منٹو نےگنجے فرشتے لکھ کرفلمی وغیرفلمی کرداروں کویوں برہنہ کیا گویاوہ میامی میں کسی نیلگوں’’ بیچ‘‘ پرلیٹے سن باتھ لے رہے ہوں۔اُسی ساحل پر جن کے بارے میں سوچ کر ہی دل کمینہ ہوجائے۔اور۔خواہ مخواہ چُٹکیاں بھرنے لگے۔گنجے فرشتے میں منٹو صاحب نے عصمت چغتائی سے لے کرفلم سٹار نسیم بانو تک سارے ملائم کردار کھردرے کر چھوڑے۔۔البتہ معروف مزاح نگار عطا الحق قاسمی نے’’مزید گنجے فرشتے‘‘لکھ کر نہ صرف کھردروں کو ملائم کیا۔بلکہ ان کرداروں کو کپڑے واپس پہنائے۔جن کےمنٹو نے اتار دئیے تھے۔ ’’گنجے فرشتے‘‘کے دیباچے میں منٹو خود کہتے ہیں کہ’’میرے اصلاح خانے میں کوئی شانہ نہیں۔ میں بناؤ سنگھار کرنا نہیں جانتا۔ اس کتاب میں جو فرشتہ بھی آیا اس کا مونڈن ہوا ہے اور یہ رسم میں نے بڑے سلیقے سے ادا کی ہے‘‘۔لیکن قاسمی مزیدگنجے فرشتے میں لکھتے ہیں کہ ’’کسی دوست کی گھٹیا حرکت کو لوگوں کے سامنے لاتے ہوئے۔ اُس دوست سے زیادہ مجھے اپنی سُبکی محسوس ہوتی ہے۔دوست میرا پرابلم ہیں۔ مجھے ان کے لئے بڑے سے بڑا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔تو مجھے سراسر منافع ہی نظر آتا ہے‘‘۔
دوستی کے الگ الگ تقاضے ہوتے ہیں۔ ایک طرف قطری ہیں۔جو نواز شریف کوسٹیل ملیں لگا کر دیتے ہیں۔ دوسری طرح ریاض ملک۔جو آصف زرداری کو محل بنا کر دیتے ہیں۔اسی دوستی میں ۔منٹو دوستوں کو عریاں کرنے جبکہ قاسمی صاحب ستر پوشی میں مصروف ہیں۔ اور ایک میرا دوست ہے۔شیخ مرید۔کنجوس،مکھی چوس۔میرے لئے محل ۔اور۔ نہ ہی سٹیل مل۔لیکن سیاست رج کےاوروہ بھی جٹکی سیاست ۔جو جی میں آئے بول دیتا ہے۔وہ جی سےبھی بولے تو لگتاہے پی کے بول رہا ہے ۔’’کبھی۔گو نواز گو۔اور۔ کبھی رو عمران رو‘‘ ۔وہ سیاسی طور پر تقریبا دھریہ ہے۔اس نے آج تک کسی سیاستدان کے زندہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔کہتا ہے مجھے نواز شریف سے کوئی غرض ہے نہ عمران خان سے۔میں تو بس وہ گندے میسج پڑھنا چاہتا ہوں۔جو عمران خان نے عائشہ گلا لئی کو بھجوائے ہیں۔
موبائل ٹیکنالوجی آنے سے پہلے چھینکوں کومس کال سمجھا جاتا تھااورچُٹکی کو’’میسج‘‘۔۔ہر چھینک کا ایک ہی مطلب ہوتا تھااورہرچُٹکی کا الگ الگ مقصد۔اس مقصدکوچٹکی کوکاٹنے والے سمجھتے تھے یاکٹوانے والے۔ساری چٹکیوں کو بلیک بیری ڈیٹا کی طرح محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔ نٹ کھٹ ہوجاتی تو چٹکیوں کےبھید چٹکیوں میں ہی کھل جاتے۔ عائشہ گلالئی جیسے الزامات۔عہد قدیم سےعورت کا آزمودہ اورموثر ہتھیار ہیں۔ان کے جواب میں پی ٹی آئی کا موقف بھی روایتی تھا۔کہ عمران خان نے عائشہ گلا لئی کی شادی کی آفر ٹھکرا دی تھی۔توقع بھی اسی موقف کی تھی۔ یہ سچ بھی ہوسکتا ہے،جھوٹ بھی۔مرید کہتا ہےکہ ہمارے ہاں جب تک لڑکا لڑکی بھاگ نہ جائیں محلہ دارسمجھتے ہیں ان کاپیارسچا نہیں لگتا۔ پی ٹی آئی کو عائشہ گلا لئی اسی لئے جھوٹی لگتی ہے۔وہ کہتا ہے کہ پیار اور مذاق ہرکسی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ہر کوئی برداشت بھی نہیں کر سکتا۔آج کل مذاق کی طرح پیار بھی برداشت سے باہر ہو چکا ہے۔وہ زمانے ہوا ہوئے۔ جب مذاق مذاق میں پیار ہو جایا کرتا تھا۔ اب تو پیار پیار میں مذاق ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں جب سے پانامہ سکینڈل نے سر اٹھایا ہے۔۔بہت سے لوگ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔اقتدار کی راہ داریاں میامی بیچ کی طرح ہو چکی ہیں۔سیاستدان منٹو کے کرداروں کی طرح عریاں ہوچکے ہیں۔ ننگ ڈھاپنے کو دستاریں بھی کم پڑ گئی ہیں۔ہرنرم وملائم کردار، کھردرا نظر آ رہا ہے۔سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے اہل خانہ پر زبان بھی اٹھائی ہےاور انگلی بھی۔گونگوں کےعلاوہ سب بول رہے ہیں۔کہیں کہیں اشارے بھی ہو رہے ہیں۔مروجہ سیاست نےملک میں گنجوں کے ساتھ ننگوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔عزتیں کاٹھ کی ہنڈیا کی طرح بیچ چوراہے پھوٹی ہیں۔سابق وفاقی وزیرفردوس عاشق اعوان نےسابق ایم این اے کشمالہ طارق کو انٹرنیشنل تتلی کہہ دیا ہے۔نواز شریف کی نااہلی سپریم کورٹ نے کی ہے،حملے عمران خان کے کردار پر ہورہے ہیں۔عمران خان کو عمران ہاشمی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تخت تو اچھالے جا چکے ہیں اب تاج اچھالے جا رہے ہیں۔بہت سےپارلیمنٹرینز راجہ گدھ بنے کھڑے ہیں۔ ہر قیوم کی اپنی اپنی سیمی ہے۔حرام اور حلال سب جائز ہے۔حمام میں سب گنجے ہو چکے ہیں۔سیاستدانوں کی زبانوں نے، منٹو کےقلم سے زیادہ زہر اگلا ہے۔
بیوی(شوہر سے):اجی سنتے ہو۔ وہ ۔الماری کے اوپر سے سامان اتار دیں میرا ہاتھ چھوٹا پڑ رہا ہے۔
شوہر:تم زبان سے ٹرائی کر لو،کافی لمبی ہے۔
ہمارے ہاں گھر، دفتر،کاروبار اور سیاست کے لئے الگ الگ زبانیں ہیں۔کہیں پرشعلہ زباں ،کہیں چرب زباں اورکہیں بدزباں۔لیکن زبانِ زدعام یہ ہے کہ سیاستدانوں کی زبانیں درازبھی ہیں اور دو دھاری بھی۔لیکن برداشت اس عمل کا نام ہے،جس کا مظاہرہ عقل مند آدمی پاگل کی بات سننے کے دوران کرتا ہے۔ملکی سیاست بھی ہماری برداشت کا امتحان ہے۔سیاست میں گندگی اور گندگی پر سیاست کوئی نئی چیز نہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ قوم کے سامنے بھید اب کھلے ہیں۔کارکن ۔سیاسی کرداروں کی الائشیں کندھوں پر اٹھا ئے پھرتے ہیں۔گلی گلی میں’’گو نواز گو‘‘ ہو رہا ہے اورمحلے محلے ’’رو عمران رو‘‘۔سالوں پہلے۔بھی ملکی سیاست میں’’دنیا تیرے نال۔۔بھٹو جئے ہزاروں سال‘‘۔اور۔’’رج کے لٹو جئے بھٹو‘‘۔ کے نعرے بھی گونجے۔ ضیا الحق کے ریفرنڈم پر حبیب جالب کا شعر’’شہرمیں ہو کا عالم تھا، جن تھا یا ریفرنڈم تھا‘‘۔بھی خاصا مشہور ہوا۔
کہتے ہیں ملکی سیاست میں سب سے پہلے کتے کا نعرہ صدر ایوب کے خلاف لگا تھا۔ اس کے بعد کئی صدور کُتوں کی زد میں آئے۔لیکن مرید کہتا ہے ’’جس طرح ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہر گنجا میاں نہیں ہوتا، لیکن ہر میاں گنجا ضرور ہوتاہے‘‘۔۔وہ کہتا ہے۔’’ممکن ہےاردو ادب میں گنجے منٹو کی وجہ سے مشہور ہو ئے ہوں۔لیکن سیاست میں گنجےذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے’’مشہور‘‘ ہوئے۔کیونکہ بھٹوبھی گنجے تھے۔بلکہ نوازشریف سے زیادہ گنجے تھے۔ سب سے پہلے گنجے کا نعرہ بھی بھٹو کے خلاف ہی لگا تھا۔1977 میں بھٹوکے خلاف نو جماعتی اتحاد(پی این اے) بنا تو اس اتحادکا انتخابی نشان’’ہل‘‘تھا۔ اورنعرہ تھا۔’’گنجے کے سر پر ہل چلے گا۔ آج نہیں توکل چلے گا۔گنجا سر کے بل چلے گا‘‘۔اسی طرح گو،گو کا نعرہ بھی پہلی بارڈاکٹر طاہر القادری یا عمران خان نےنہیں لگایا۔نوازشریف۔1990میں جب پہلی بار وزیراعظم بنے۔تب صدرپاکستان غلام اسحاق خان پارلیمینٹ سے خطاب کرنے آئے تھے۔بی بی کی حکومت غلام اسحاق خان نے توڑی تھی۔ تب بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے’’گو بابا گو‘‘کے نعرے لگائے تھے۔
مرید کہتا ہے کہ زمانے کے نشیب و فرازلکھاریوں،ادیبوں اور شعرا کو لکھنے پرمجبور کرتے ہیں۔ادیب جب عصر حاضر کے واقعات کو صفحہ قرطاس پر اتارتے ہیں ۔تو کبھی ’’گنجے فرشتے‘‘ جنم لیتے ہیں ۔اور۔ کبھی’’مزیدگنجے فرشتے‘‘۔۔سیاسی معاملات پر میری بھی گہری نظر ہے۔سو میں بھی کتاب لکھوں گا۔میں مرید کےشگفتہ اور کھلنڈرے کسی بھی مزاح کا کبھی معترف نہیں رہا ۔ وہ مسخرہ بن کر بولے یاسقراط بن کر، اس کا چہرہ سپاٹ رہتا ہے۔
میں نے یونہی پوچھا۔۔کتاب کا نام کیا رکھو گے۔؟
مرید:آخری گنجے فرشتے۔

Facebook Comments

اجمل ملک
مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply