• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا اہل سیاست کے لیے اپنے تعلقات قربان کر دینے چاہئیں؟۔۔آصف محمود

کیا اہل سیاست کے لیے اپنے تعلقات قربان کر دینے چاہئیں؟۔۔آصف محمود

کیا اہل سیاست کی محبت میں اپنے سماجی تعلقات داؤ پر لگا دینا مناسب بات ہے؟یہ سماج سیاسی ناخواندگی کا شکار ہے۔جب تک سماجیات ، عصری بین الاقوامی اور قومی سیاست اور آئین کو نصاب اور قومی بیانیے کا حصہ نہیں بنایا جاتا، یہ ناخواندگی ختم نہیں ہو گی۔ اور جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہو گا تب تک اس معاشرے کے اجتماعی وجود سے نفرت ، عقیدت ، جہالت ، استحصال جیسے عارضے دور نہیں ہو سکتے۔ گاہے محسوس ہوتا ہے ،اس معاشرے کو ایک حکمت عملی کے تحت فکری طور پر منجمد رکھا گیا ہے۔ میرے جیسے طالب علموں کو تو چھوڑ ہی دیجیے ، یہاں عالم یہ ہے کہ مبینہ طور پر تعلیم یافتہ لوگوں کے عصری سیاسی اور آئینی شعور سے خوف آتا ہے۔تھوڑے سے اقوال زریں اور تھوڑا سا خلط مبحث۔ جو جس سیاسی رہنما کے عشق میں مبتلا ہے اس کے لیے وہی معیار حق ہے۔

ٹمپرامنٹ کا یہ عالم ہے کہ دو منٹ سنجیدہ گفتگو کرنا ممکن نہیں۔ دو چار فقروں کے بعد ہی لوگ ہانپ جاتے ہیں اور اس کے بعد وہی عقیدت اور نفرت کے کلمات اگلنا شرع کر دیتے ہیں۔ یہ حادثہ اس ملک پر اچانک نہیں بیتا۔یہ عشروں کی محنت کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں اور کیا معلوم کب تک بھگتتے رہیں گے۔فیصلہ ساز وں نے یہ ڈور بہت سوچ کے الجھائی ہے۔ سیاسی نیم خواندگی کے شکار جذباتی معاشرے کو جب جہااں اور جدھر مقصود ہو ہانکا جا سکتا ہے۔کبھی حب الوطنی کے نام پر ، کبھی مذہب کے نام پر ، کبھی انصاف کے نام پر۔علی ہذا القیاس۔ اس آگ کی تپش اب لوٹ کر آ رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجھ پائے گی؟ اخلاقی اعتبار سے اب کسی سیاسی جماعت کو کسی دوسری سیاسی جماعت پر کوئی برتری نہیں۔ ابن الوقتی سب کے ہاں رہنما اصول کے طور پر کارفرما ہے۔ہر وہ حرکت ہر اس گروہ کوگوارا ہے جس سے اس کا مفاد پورا ہوتاہو اور ہر اس مرحلے پر انہیں اقوال زریں یاد آ جاتے ہیں جب ان کے مفاد ات کا تحفظ نہ ہو رہا ہو۔ تبدیلی سے لے کر بیانیے تک کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ سب اپنی واردات اور اپنے طریق واردات کے ساتھ ایک جیسا نامہ اعمال رکھتے ہیں۔ معلم نہیں کس نے کہا تھا کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ہر ایک کے حصے کے جنگجوؤں نے اس سماج کو زہر آلودہ کر دیا ہے۔ہر گروہ کا خیال ہے کہ جو اس کے حصے کے آقا پر تنقید کرتا ہے وہ ضرور کسی دوسرے کے حصے کا بے وقوف ہے۔ان کی مبلغ پرواز فکر یہ ہے کہ زندگی کسی کے حصے کا بے وقوف بنے بغیر گزاری ہی نہیں جا سکتی۔یہ کامل اطاعت کے قائل ہیں۔ چنانچہ جب کوئی کم نصیب ایشوٹو ایشو بات کرتے ہوئے ان کے قائد سے اختلاف کر بیٹھے یہ فوری زبان بکف میدان میں آ جاتے ہیں کہ یہ گستاخ ضرور دوسرے گروہ کاپیادہ ہے۔چنانچہ ان کے پاس اپنی ہر حرکت کا جواز یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے دامن پر سیاہی ہے تو دوسرے کا دامن کون سا چودھویں کا چاند ہے۔یہ ایک دوسرے کی خامیوں پر جیتے ہیں۔

معاشرہ ان کے ہاتھوں یر غمال بن چکا ہے۔یوں لگتا ہے اور کوئی ایشو ہی نہیں رہا۔اور یہ پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ سارا دن اور رات گئے اپنی اپنی قیادت کی مجاوری کرتے رہیں۔ قیادت جومرضی کر جائے یہ مشقتی اس کا دفاع کرنے کو ہر دم تیار پائے جاتے ہیں۔ظلم یہ ہوا کہ یہ مشقتی اب صرف سیاسی جماعتوں کے وابستگان میں ہی نہیں رہے مین سٹریم میڈیا بھی انہی کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے۔ چند مستثنیات یقینا ًموجود ہیں لیکن اکثریت کا یہ عالم ہے کہ وہ کالم کے نام پر اپنے اپنے سیاسی آقا کی پریس ریلیز لکھتے ہیں۔ تجزیہ کاروںکی فنکاری کی حقیقت ایک عالم پر آشکار ہو چکی ہے اور سب کو معلوم ہے کون کس کے حصے کا تجزیہ کار ہے۔ اس پولرائزیشن نے معاشرے کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ایک گروہ کے بزرگان سیاسی حر یفوں  کی خواتین کو لونڈی بنانے کی بات کرتے ہیں اور پھر اس پر قہقہے لگا کر اس کی ویڈیو شیئر کر کے اسلام کے علما کی جمعیت سے داد طلب کی جاتی ہے اور دوسرے گروہ کے بپھرے ہوئے نوجوان مسجد میں گھس جاتے ہیں اور امام مسجد کے بال مونڈ دیتے ہیں تا کہ سند رہے ۔ کالم یا سوشل میڈیا پر ان میں سے کسی سے اختلاف کر دیا جائے تو اس گستاخی پر معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کچھ براہ راست گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں اور خیر خواہانہ طریق واردات کی آڑ میں آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ فلاں محفل میں لوگ کہہ رہے تھے آپ فلاں کے کارندے ہو لیکن میں نے ان کی بات سے اختلاف کیا۔ ایسا کرکے وہ اپنے تئیں آپ کو سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ اپنی حرکتیں درست کر لو اور صرف ہمارے حق میں لکھا کرو ، ورنہ میں بھی ماننے پر مجبور ہو جاؤں گا کہ وہ دوست ٹھیک کہہ رہے تھے۔گالی وہ خود ہی دے رہے ہوتے ہیں لیکن بظاہر وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ تو خیر خواہ ہیں اور اس خیر خواہی میں صرف مطلع فرما رہے ہیں۔

نہ احترام باہمی باقی بچا ہے نہ کوئی حفظ مراتب اور خوش گمانی۔ سب نے ایک لکیر کھینچ رکھی ہے کہ لکیر کے اس طرف آجاؤ  تو ہمارے دوست ہو ورنہ دشمن۔ بیچ کا کوئی مقام کسی نے باقی نہیں رہنے دیا۔ یہ لکیر دوستیوں کو چاٹ گئی ہے اور رشتوں کو کھا رہی ہے۔برسوں عشروں کے تعلقات ہوتے ہیں ، لوگ ایک لمحے میں برباد کر دیتے ہیں۔اور کن کے لیے برباد کرتے ہیں؟ ان اہل سیاست کے لیے جو زندگی میں شاید ان لوگوں سے کبھی ہاتھ بھی نہ ملائیں۔یہ پرائی بارات کے وہ دیوانے ہیں جو بلاوجہ جھومتے پائے جاتے ہیں۔ سیاسی بحث چھوڑ دی ہے ۔آدمی کس سے اور کیا بحث کرے؟

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن۔۔۔۔۔ کالم تو لکھنا ہے اور لکھنے کے ناطے سوشل میڈیا کی ڈور سے بھی بندھے ہیں۔کامنٹس کا آپشن محدود تر کر دیا ہے لیکن پھر بھی ایسا ہوتاہے کہ کوئی دوست آتا ہے اور سالوں کی رفاقت پر انگارے رکھ کر چلا جاتا ہے۔ گفتگو کے معیار سے خوف آنے لگا ہے۔ اور دلیل کا معیار دیکھ کر تو سر پیٹنے کو جی کرتا ہے۔ کبھی کبھار ایک خیال آتا ہے کہ اگر اس ملک کے نصاب میں آئین کو شامل کیا جاتا اور اگر اس سماج کو سماجیات اور عصری سیاست پر فکری پختگی کی جانب راغب کیا جاتا تو شاید اس قوم کا فکری استحصال اتنا آسان نہ ہوتا۔تعصبات نے ہماری کمر دوہری کر دی ہے اور ہم تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزرتے جا رہے ہیں۔ فکر کی جو ڈور یہاں فیصلہ سازوں نے حکمت عملی سے الجھا رکھی ہے اسے کھولنا تو ہمارے بس کی بات نہیں لیکن ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اہل سیاست کی اس اندھی محبت اور غلامانہ عقیدت میں اپنی دوستیوں کو برباد نہ کریں۔ اپنے رشتوں کو اس آگ سے بچا کر رکھیں۔ اس وحشت اور اس دیوانگی کو کہیں تو رک جانا چاہیے۔آپ کا کیا خیال ہے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply