مت سنیں ان کی،جب بہار کی خبر دینے کو وہ آئیں

مت سنیو ان کی …… جب بہار کی خبر دینے کو وہ آئے !
زاہد محمود زاہد
بہار آ رہی ہے، سب لوٹ کر آئیں گے، اپنے اصل کی طرف، جو ان کی پہچان ہے اور جس کے لئے وہ جانے جاتے ہیں. جوں جوں عام انتخابات نزدیک آ رہے ہیں، چوٹی کے سب کھلاڑی، ماہر تیر انداز اپنے ترکشوں میں سیاسی تیر لئے مورچہ زن ہونے کو ہیں. قوم پرستی ،سعودی/ایرانی اسلام، اور طالبان/افغانستان کے مورچے تیار ہیں،ماہر نشانچی معلوم دار ہیں، سندھ کارڈ والے کھلاڑیوں کو کوڑے کارڈ کا سامنا ہے، آخر پہ مورچہ زن ہوں گے “کرپشن” اور “بجلی” کی پھکی “بیچنے”والے گھاگ جن کی پھبتیوں اور لفظی نشتروں کا تعین پانامہ کا ہنگامہ کرے گا۔
الیکشن کا سال ہو تو کیسے ممکن ہے کہ حکمران جماعت پنجاب میں اپنے پتے نہ کھیلے، انتہا پسندی اور مبینہ دہشت گردوں کے خلاف پولیس کی پھرتیاں یوں ہی بے سبب تو نہیں. پولیس متحرک نظر آے گی کیوں کہ پنجاب حکومت رینجرز کو صوبے میں سندھ جیسے اختیارات دے کر سیاسی خودکشی نہیں کرنا چاہے گی، کیوں کہ پنجاب کے سیاسیوں کا مذہبی اور فرقہ ورانہ گروہوں کے ساتھ ساجھے داری کا رشتہ ہے. سیاسی لوگ بھوک اور افلاس زدہ ان پڑھ عوام کے ہاں ان مذہبی گروہوں کے لئے پاے جانے والے نرم گوشے اور اثر و رسوخ کو انتخابات جیتنے کے لئے استعمال کرتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ صوبائی حکومت ایسے گروہوں کے خلاف کریک ڈاون کرے؟ توانائی کے بحران کو حل کرنے میں ناکامی اور پانامہ کیس کے ن لیگ مخالف فیصلے کی صورت میں ن لیگ بھارت دشمنی اور کشمیر کے مورچے میں جائے گی جس میں وہ نوے کی دہائی میں پائی جاتی تھی. ایسی صورت میں “خاص قوتوں” کی حمایت بھی راحت کا سامان کرے گی گو کہ شرطیں ن لیگ کی نہیں ہوں گی… مت سنیو …! کہ ہم اپنے ہی استحصال کی مزید قیمت نہیں دے سکتے۔
جمعیت علما اسلام فضل الرحمان نے “آج”کے طالبان برانڈ جہاد سے بے رخی اور بے اعتنائی برتنے کے نتیجے میں ناراض ہونے والے ووٹر کو منانے کے لئے طالبان اور افغانستان کی شاخ پے جھولنا شروع کر دیا ہے. اس پالیسی کو اپناتے ہوئےمولانا جیسے جہاندیدہ کھلاڑی نے نہایت احتیاط سے اپنے آپ کو بہت سوں کے لئے دستیاب کر دیا ہے. وہ نا صرف اپنے ووٹر کو واپس کھینچتے نظر آتے ہیں بلکہ ریاستی اداروں کا اعتماد جیتنے کی صورت میں ان کی ضرورت بننے کے ساتھ ساتھ وہ سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی عرب افغانستان میں القائدہ اور طالبان کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا چاہتا ہے تا کہ عرب کے “بھٹکے”ہوئےنوجوانوں کو، جو امریکہ مخالف جذبات کے ساتھ القائدہ میں شامل ہوے تھے اور اب سعودی حکومت کو امریکی پٹھو گردانتے ہوے تہ تیغ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کو افغانستان جیسی تشدد کی درسگاہ اور محفوظ پناہ گاہ سے محروم کیا جا سکے. مولانہ کو یہ یقین ہے کہ اس “عظیم مقصد”کے لئے (مولانا سمیع الحق کی بجاے) سعودی حکومت کا نظر انتخاب وہی ٹھہریں گے۔یہ تمام صورتحال مولانا کو ایک اعتدال پسند مذہبی لیڈر کے طور پر سامنے لائے گی جو بیک وقت پاکستان، سعودی عرب، امریکہ، اور طالبان کےلیے قابل قبول ہو گا. یعنی ہماری سماعتوں سے “کون بچائے گا اسلام – فضل الرحمان فضل الرحمان، کون بچائے گا پاکستان – فضل الرحمان فضل الرحمان” جیسے نعرے ٹکرانے کو ہیں. .. مت سنیو … کہ ہمارالہو رنگ سماج اس شاخ نازک پہ بیٹھنے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
بلوچستان میں پشتون قوم پرست چار سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد پھر اپنے اصل “پنجابی سامراج” کے نعرۂ مستانہ کی طرف لوٹنے کو ہیں، پنجاب سے نفرتوں کی دکان سجائی جاۓ گی، بھلا کاکڑ، خلجی، اچکزئی، حامدزئی کی تقسیم بیچنے والوں کا پشتونوں کی مشترکہ نمائندگی سے کیا علاقہ؟ پشتونوں کے حقوق کے دعویداروں کی حکومت میں، پشتون قوم پرستی کے نام پہ عام پشتون کی جو حالت ہوئی وہ لورالائی سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے چمن تک دیکھی اور سنی جا سکتی ہے. زیارت کاحالیہ ضمنی انتخاب اسلام پسندوں اور قوم پرستوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے. اب بلوچستان کے پشتون شائد جمیعت اور پشتونخوا کی انتہاؤں کی بجائے اعتدال پسند سیاسی قوتوں کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں. مہاجرین کی انتخابات کے عمل سے لا تعلقی اور اپنی ناقص حکومتی کارکردگی کے نتیجے میں عوام کی طرف سے کسی تیسری سیاسی قوت کو مینڈیٹ دیے جانے کی صورت میں قوم پرستوں اور اسلام پسندوں کی انگلیاں “مخصوص قوت”کی طرف ہی اٹھیں گی، شائد دونوں سیاسی جماعتیں پشتونوں کو اپنی جاگیرسمجھتی ہیں جس کا کوئی اور وارث ہو ہی نہیں سکتا… مت سنیو …! کہ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا۔
دوسری طرف، ردعمل اور باچا خان کی مزاحمتی سیاست کی وارث اے این پی، بظاہر جس کی سیاست صوبہ سرحد کو خیبر پختون خوا کا نام ملنے اور پشتونوں کے حقوق کے نام پر کرپشن کی ہوشربا داستانوں کے زبان زد عام ہونے کے بعد ختم ھوتی دکھائی دے رہی ہے، کالا باغ ڈیم یا سی پیک منصوبوں میں امتیاز کے نام پر پھر سے عام پشتونوں کی طرف جائے گی، پارٹی کے کارکنوں کی “شہادتوں” کو عین نعمت خدواندی سمجھتے ہوے کیش کروائے گی .. مت سنیو …!
سندھ میں “پاکستان کھپے” والے، کرپشن کے بے تاج بادشاہوں کو تاج پہنانے والے، سادہ دل سندھیوں سے پھر بدلہ لینے جا رہے ہیں، وہ سندھ کارڈ دکھائی دیتے ہیں، وہ شہید پھر سے زندہ کر رہے ہیں. مت سنیو … بچو ان شعبدہ بازوں سے …!
بلوچ قوم پرست حکومت میں ہوں تو پہاڑوں پے گئے لوگوں کو واپس لانے کا ہدیہ وصول ہوتا ہے. انتخابات نزدیک آتے ہی مرکز کے خلاف زبان اکڑنا شروع ہو جاتی ہے اور عام بلوچ کا غم دامن گیر ہو جاتا ہے جو صوبائی اسمبلی یاقومی اسمبلی تک “کھینچ”کر لے جاتا ہے. … اس بار مت سنیو …! کہ یہ بہارئیے دھوکے اور مفاد خویش کے پجاری ہمیں کہاں کہاں بیچتے ہیں.
ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین مہاجر کارڈ نہیں اس بار الطاف سے بیزاری اور پاکستانیت کے نام کی مصنوعات عوام کی خدمت میں پیش کرنے کی خواہاں دکھائی دیتی ہیں … مت سنیو … لیکن ڈھونڈنا اپنے پیاروں کا خون ہر اس ہتھیلی پہ جس نے مہاجر مہاجر کھیلا اور نفرتوں کی آبیاری کی.
آخر میں رہا پانامہ کا ہنگامہ اور اس سے جڑا انصافیوں کا سیاسی مستقبل ..! انصافیوں کا مسلۂ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو اس سیاسی ڈھانچے میں ایک “خارجی” (outsider) کی طور پر پیش کرتے ہیں جن کا نعرہ ہے کہ روایتی سیاستدان عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں، لہذا ہم پر تکیہ کریں کہ الہ دین کا چراغ ہم ہی رکھتے ہیں، لیکن عملی میدان میں یہ دوسروں کی کرپشن، بہتان، اور الزام کے پیچھے چھپتے دکھائی دیتے ہیں . انصافیوں کی بہار پانامہ کیس کے فیصلے سے مشروط ہے، فیصلہ اگر حکومتی خاندان کے خلاف آ یا تو تحریک انصاف کی “کرپشن” اور “دھاندلی”' والی بہار سب بہاروں کو گہنا دے گی، اگر فیصلہ سٹیٹس کو کی حمایت میں آ یا تو معاملات برعکس ہوں گے … مت سنیو … ! پوچھنا ان سےکہ اپنے ووٹر کو امید کیوں دلائی تھی؟
اپنے اصل کی طرف جو یہ لوٹیں تو تقسیم مت ہونا. یہ تقسیم اور نفرت کے سوداگر ہیں، تقسیم مت ہونا. اپنے اردگرد نظر رکھنا کہ اس بار قربانی ہم نہیں دیں گے، اپنے استحصال کی قیمت ہم نہیں دیں گے۔

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply