ذاتی معاملہ

کئی برس گزرے ایک صاحب سے ملنے جانا ہوا- اچھے صاحب کردار بزرگ تھے- ان دنوں ایک کمانڈو حکمران ہمارے ملک پر مسلط تھے جو آجکل تو دبئی میں اپنی کمر درد کا علاج محفلوں میں رقص کے جوہر دکھا کر کرتے ہیں لیکن ان دنوں وہ پاکستان کا ستیاناس کرنے میں مصروف تھے – خیر دوران گفتگو ان حکمران کا ذکر ہوا تو ان بزرگ سے عرض کی کہ ان صاحب کے اقتدار کی شروع ہی سے حمایت کرنے والوں میں آپ بھی شامل تھے لیکن آپ تو اور ہی مزاج کے شخص ہیں۔ پھر ایسے آدمی کی حمایت کیوں؟ جواب ملا کہ ہاں ہم شروع سے ہی جانتے تھے کہ پینے پلانے والا رنگین مزاج آدمی ہے لیکن ہم نے سوچا کہ سیدھی سیدھی صاف صاف باتیں کرتا ہے، محب الوطن لگتا ہے، سات نکاتی ایجنڈا بھی اچھا دیا ہے، ہو سکتا ہے اسی کے ہاتھوں ملک اور قوم کی بہتری ہو جائے- اسی لئیے ہم نے اس کی حمایت کی لیکن آج احساس ہوتا ہے کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی
ایسا منافقانہ رویہ ہمارے ہاں بہت پایا جاتا ہے – مثلاً اگر ہم نے کسی کو چوکیدار بھی رکھنا ہو تو صرف مالی دیانت ہی نہیں دیکھتے بلکہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بدکردار شخص تو نہیں، اخلاقی کمزوریوں کا شکار تو نہیں، کوئی نشہ وغیرہ تو نہیں کرتا- ایسی علتوں میں مبتلا شخص کو ہم اپنا ذاتی ملازم رکھنے کو بھی تیار نہیں ہوتے- لیکن جب سوال ہو ملک اور قوم کی قیادت کا تو ہم اتنے سخی ہو جاتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ ایسی اخلاقی برائیوں کا نقصان تو صرف ایک شخص کی ذات کو پہنچتا ہے، ان سے ہمیں کیا- ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ملک اور قوم کا بھلا ہو جائے- حالانکہ یہ اصول ہم اس وقت لاگو نہیں کرتے جب ہم اپنا ذاتی ملازم رکھ رہے ہوتے ہیں- ظاہر ہے وجہ یہ ہے کہ اخلاقی برائیوں میں ملوث شخص کو ہم اس قابل نہیں سمجھتے کہ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئیے اس پر اعتبار کریں کیونکہ چاہے وہ خود چور نہ بھی ہو، پھر بھی اس کی اخلاقی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہمارا کوئی دشمن ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے
برائیاں چاہے مالی ہوں یا اخلاقی، مذہبی لحاظ سے ہی نہیں قانونی لحاظ سے بھی جرم ہیں- ان میں کسی میں بھی مبتلا شخص نہ تو اسلام کے مطابق اور نہ پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستانی عوام کی رہنمائی کر سکتا ہے- چلیں جن لوگوں کو مذہب سے چڑ ہے ان کی سہولت کے لئیے ہم اسلام کو ایک طرف رکھتے ہیں صرف پاکستان کے قانون کی ہی بات کرتے ہیں – ہم نے جو خود ساختہ معیار بنا رکھا ہے کہ جی فلاں چیز تو جرم ہے کیونکہ اس سے سب لوگوں کو نقصان ہوتا ہے اور فلاں چیز کی خیر ہے کیونکہ اس کا نقصان صرف ایک شخص کو ہی ہوتا ہے، ہمارا قانون تو اس تفریق کو نہیں مانتا- پھر سیدھی سی بات ہے جس شخص کو اپنے نفس پہ اتنا قابو بھی نہیں کہ وہ ان اخلاقی برائیوں سے پرہیز رکھے جو قانونی طور پر جرم ہیں، اس سے باقی معاملات میں قانون کی پابندی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے- ایسے کمزور کردار کے شخص کو اگر کوئی قومی ذمہ داری دے دی جائے تو یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ اسے بلیک میل کر کے یا اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کوئی بھی اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے
ویسے عجیب بات ہے کہ امریکہ برطانیہ جیسے ممالک میں جہاں ایسی اخلاقی برائیوں کو کوئی خاص برائی بھی نہیں سمجھا جاتا وہاں بھی قیادت کے امیدواروں کے ایسی برائیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف ہی ان کی سیاسی موت بن جاتا ہے، وہاں کوئی ذاتی معاملہ والی دانشوری نہیں جھاڑتا کیونکہ لیڈر پوری قوم کے لیے ایک نمونہ ہوتا ہے اور اس سے مثالی کردار کی توقع کی جاتی ہے- لیکن دوسری طرف ہم لوگ جو ایک مذہب پسند معاشرے میں رہتے ہیں بڑے مزے سے کہہ دیتے ہیں کہ جی یہ تو ان کا ذاتی معاملہ ہے ہمیں کیا – ایں چہ بو العجبی است
آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اسے ہی رہنما بنائیں جو بد دیانت ہو یا جھوٹا ہو یا بد کردار ہو؟ اچھے لوگوں کا ہمارے معاشرے میں کوئی قحط تو نہیں پڑ گیا- تقریباً ہر سیاسی جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی دیانت، صداقت، شرافت اور کردار پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا- پھر ہم کسی بھی شخص کو ذاتی معاملہ والا مارجن کیوں دیں؟

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply