عورت کارڈ اور جدائی کے اسباب

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

ایک پروفیشنل کے لیے جہاں ایک ادارے کے ساتھ چلنے کا سلیقہ ہونا ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ادارے سے الگ ہونے کے آداب بھی سیکھے جائیں۔ اکثر و بیشتر ہمیں نہ صرف اپنی عملی زندگی بلکہ ذاتی زندگی میں بھی جدا ہونے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ ایک بار ایک فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں کچھ آخری کلمات تھے کہ “جدا ہونے والے نے جدا تو ہونا ہی تھا، افسوس اس بات کا ہے کہ وہ مجھے الوداع کہہ کر نہیں گیا ہے”۔ میں نے اپنی پروفیشنل زندگی میں ایک چیز ضرور سیکھی ہے کہ جدا ہوتے وقت یا الوداع کہتے وقت سب سے زیادہ ادب اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں باہمی رضامندی سے طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہاں رشتہ گھسیٹنے کو ترجیح دی جاتی ہے بجائے اس کے کہ عزت سے جدا ہوا جائے۔ ایسے میں ہونے والی جدائی ہمیشہ الزامات کو ساتھ لیے آتی ہے۔ عام آدمی کی تو چھوڑیں یہاں مشہور شخصیات بھی اپنی طلاق کو غیر متنازعہ نہیں رکھ سکتیں اور کوشش ہوتی ہے کہ گندے کپڑے سرعام دھوئے جائیں۔ مزید یہ کہ فریقین کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو مظلوم ثابت کریں۔ ایسے میں اگر کوئی فریق اصول پسند ہے اور خاموشی اختیار کرتا ہے تو لازمی ہے کہ اس کو الزام سہنے پڑیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ صرف آنسووں یا شور کی بنا پر حق کا تعین کرتا ہے۔

ذاتی زندگیوں کے ساتھ ساتھ دفاتر میں بھی کئی بار یہ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ لوگ کسی ادارے سے منسلک ہوتے ہیں، اس سے کھاتے پیتے، نام کماتے ہیں اور اس کے بعد جاتے ہوئے ایسا گند ڈال کے جاتے ہیں کہ بعد میں شکل دیکھنے یا دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی دفاتر میں استعفی کا طریقہ کار متعین ہے اور جانے والے کو کسی پراسیس سے گزر کر جانا پڑتا ہے، ورنہ شاید لوگ اصل انتظامیہ کو بتانا بھی مناسب نہ سمجھیں کہ ہم جا رہے ہیں اور انتظامیہ ڈھونڈتی ہی رہے کہ بندہ کہاں گیا۔ البتہ ایسے”مجاہد” دفتروں میں بھی ناپید نہیں کہ دس سال میں کم از کم پانچ مثالیں تو مجھے یہ سب لکھتے لکھتے یاد آ گئی ہیں.

سیاسی پارٹیز بھی ایک طرح کے دفاتر ہی ہیں۔ انہوں نے ماشا اللہ نیا ٹرینڈ شروع کیا ہے کہ استعفی بجائے انتظامیہ کو دینے کے فیس بک پر دیتے ہیں۔ بھئی زمانہ بدلا ہے اور اب تو لوگ آج کل شادی شدہ زندگی بھی فیس بک پر ہی گزارتے ہیں، یہ تو پھر عام سی بات ہے۔ لیکن ہر چیز کا کوئی طریقہ ہوتا ہے، اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو اپنی انتظامیہ کو پہلے بتائیں۔ ان کو اپنے مسائل بتائیں، اگر وہ نہیں سنتے تو ضرور جائیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس الزامات ہیں تو ان کے ثبوت دیں، ان کو مناسب جگہ پر مناسب طریقے سے ہائی لائٹ کریں، اگر آپ ایسے الزامات کو اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو پھر یاد رکھیں کہ تھوڑا سا دل بڑا کرنا پڑے گا اور ثبوت لانے پڑیں گے، کیونکہ زنا کا جرم بھی اپنی صحت کے لیئے گواہ کا محتاج ہے۔ اگر تو آپ کے پاس سب کچھ ہے تو درست جگہ پر پیش کریں۔ اس سوشل میڈیا پر تو فیس بک پر جنگل کے بندر بھی اپنی تصاویر دینا شروع کریں تو ان کو بھی فین فالوئنگ مل جائے، تو آپ کو ملنا کیا مشکل۔ ان استعفوں نے اس لطیفے کو سچ کر دکھایا ہے جس میں دنیا کا مختصر ترین استعفی بیان ہوا تھا:

‏Dear Boss,
‏Aaakh Thoo!
‏Sincerely,

صاحبو، جانے کا یہ طریقہ نہیں ہوتا ہے۔ جانا ہے تو جاؤ کس نے روکا اور دنیا کون سا آپ کے جانے سے دنیا رک جانی ہے، لیکن ایسے جاؤ کہ کل کو نظر ملا سکو۔ ایک طرف کا منہ لال دیکھ کر کسی کے غم میں رونے والے کبھی رونے والے سے یہ نہیں کہتے کہ آؤ ہم الزام سے جرم ثابت کریں۔ ابھی پچھلے دنوں اس لڑکی خدیجہ نے بھی تو اپنی جنگ لڑی، تو عائشہ گلالئی کو کیا امر مانع ہے۔ عائشہ گلالئی کو چاہیے کہ عدالت کے ازخود نوٹس کا انتظار کرنے کی بجائے کیس فائل کرے اور عمران کو نااہل کروائے۔

گو بات سخت ہے مگر عورت ہونے کی حیثیت سے شاید یہ بات ایک عورت کو کہنا میرے لیے آسان ہے کہ محترمہ نے خود کو بار بار غیرتمند ثابت کرنے کی کوشش میں اپنا مذاق بنا لیا ہے۔ محترمہ عائشہ صاحبہ، آپ کی غیرت تھی کہ چار سال سوئی رہی، مجھے تو کوئی ایک گندا مسج کرنا تو دور گندی نظر ڈال کے دکھائے۔ قسم ہے جو میرا جتنا مرضی باس یا لیڈر ہو، بیچ چوراہے عزت ہاتھ میں نا رکھ دوں تو مجرم ٹھہروں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کو نیا آفر لیٹر ملا تھا، آپ نے چاہا خان اس کو تول دے۔ لیکن وہ اپنی اس بیوی کی محبت کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوا جس بیوی کی شوہر پرستی پر مشرقی عورتیں انگشت بہ دندان ہیں تو آپ سے کیا ہوتا۔ افسوس مگر آپ تو اس گوری جتنی باوفا بھی نا نکلیں۔

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 6 تبصرے برائے تحریر ”عورت کارڈ اور جدائی کے اسباب

  1. بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ صرف آنسووں یا شور کی بنا پر حق کا تعین کرتا ہے۔ زبردست بات

Leave a Reply