تاریخ نے مسلمانوں پر ظلم و جبر کی کئی بجلیاں گرائی، ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں، جنگ بدر سے سقوط دہلی تک مختلف جابر و مغرور بادشاہوں نے نخل اسلام کو اکھاڑنا چاہا، اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لیے قسم قسم کے حربے استعمال کیے لیکن شمع اسلام کے پروانوں نے ان کی ریشہ دوانیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر دفاع ہی نہیں کیا بلکہ ان کے سینوں پرپرچم اسلام نصب کر کے کفر کے ہر ٹیلے کا تعاقب کیا، ان کو اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں عطا کی، بے آئین دنیا کوآئینِ اسلام دیا،جہالت وقتل وغارت گری کے بدلے علم و رحمت کا درس دیانیز بندوں کوبندوں کی بندگی سے آزاد کراکر توحید پر اکٹھا کیا اور عدل و انصاف پر حکومت الٰہیہ قائم کیا۔
لیکن جب مسلمانوں کے دل ودماغ پر مطلق العنانی ،تساہل پسندی، عیش پرستی، اپنوں کی عیاری اور غیروں کی مکاری کی یلغار ہونے لگے جس سے پر سکون موجوں میں اضطراب پیدا ہو گیا، مسلمانوں کی کشتی ڈگمگانے لگی اس کے بادبانوں میں شگاف پڑنے لگاتو بجائے اس کے کہ اضطراب کے داخلی و خارجی اسباب تلاش کیے جاتے، اس کے پھٹے ہوئے بادبانوں کی مرمت کی جاتی،دشمنوں کے چہرے سے مکر و فریب کا نقاب نوچا جاتا،مخالفت کی چٹانوں کو پاؤں کی ٹھوکر سے ہٹایا جاتا،بلندی کا سمٹتا ہوا دامن تھاما جاتا اور ٹمٹماتی لو سے مشعل روشن کیا جاتا لیکن ہمارے لیڈروں نے قوم کی پستی کا علاج بیان بازی، بین المملکتی کانفرنس، قرار داد، احتجاج و ریلی اور ریزرویشن کے نسخے میں ڈھونڈنا شروع کر دیا اورجب ان کی امیدیں بر نہ آئیں توانہوں نے اپنی تمام خامیوں کا ذمّہ یہود وہنود کے سر ڈال کر اپنے برے حالات پر فقط رونے دھونے میں عافیت محسوس کیا اورلشکر ابابیل اور فوج مسیح علیہ السلام کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا پسند کیا نیز عوام کو غیر ذمّہ داری کے وجد و سماع کے ترانے اور ٹھنڈے سہانے سپنوں میں غرقاب کر دیا۔
یاسیت و قنوطیت کی دعوت دینے والے قائدین شاید جلسے جلوس کی گہما گہمی میں بھول جاتے ہیں کہ برے حالات سے گھبرانا بزدلی کی علامت ہے اسی کے بر عکس بلند خیالی عروج و اقبال کو مہمیز دیتی ہے کیوں کہ مصیبتوں پہ محض آہ و بکا کم ہمتی کی دلیل تو ہو سکتی ہے مگر اس سے مقابلہ کرنے کی قوت فراہم نہیں کر سکتی، حالات کبھی یکساں نہیں رہتے عروج و زوال کا آنا جانا لگا رہتا ہے، نہ عروج کو دوام ہے نہ زوال کو بقا ہے دونوں وقتی ہوا کرتے ہیں،روشنی چاہے کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو، ایک وقت اس میں آہستگی آ ہی جاتی ہے، تاریکی کتنی ہی شدیدکیوں نہ ہو اس کا زور ٹوٹ ہی جاتا ہے یہی معاملہ مصیبتوں، حالات کی نزاکتوں اور پستی اور زوال کا ہے اگر آج کوئی قوم پستی و خوارگی کی زندگی گزار رہی ہے، اس کے حالات تسلی بخش نہیں ہیں تو ضروری نہیں کہ اس کے اندر بہتری نہیں آ سکتی یا وہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی، بس شرط ہے کہ مخالفتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے عوام کے اندر حوصلہ و فتح مندی کے جذبے ابھارے جائیں، ترقی کے اسباب و وسائل پیدا کیے جائیں، تعلیم و تعلم کا مزاج بنایا جائے، بیوروکریسی، جیوڈیشری، جرنلزم اور پولیٹکس کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے، ہر وہ محکمہ جہاں پر فیصلے کیے جاتے ہیں وہاں مسلمانوں کے نمائندے بھیجنے کی کوشش کی جائے۔
اگر ہم مسلمان ان فارمولوں پر عمل پیرا ہو جائیں تو کوئی حکومت ہمارے راستے میں رخنہ نہیں ڈال سکے گی،کسی کے فیصلے ہمیں نقصان نہیں پہنچا پائیں گے بلکہ بڑے بڑے ہماری چوکھٹ پرسلام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
لیکن جب مسلمانوں کے دل ودماغ پر مطلق العنانی ،تساہل پسندی، عیش پرستی، اپنوں کی عیاری اور غیروں کی مکاری کی یلغار ہونے لگے جس سے پر سکون موجوں میں اضطراب پیدا ہو گیا، مسلمانوں کی کشتی ڈگمگانے لگی اس کے بادبانوں میں شگاف پڑنے لگاتو بجائے اس کے کہ اضطراب کے داخلی و خارجی اسباب تلاش کیے جاتے، اس کے پھٹے ہوئے بادبانوں کی مرمت کی جاتی،دشمنوں کے چہرے سے مکر و فریب کا نقاب نوچا جاتا،مخالفت کی چٹانوں کو پاؤں کی ٹھوکر سے ہٹایا جاتا،بلندی کا سمٹتا ہوا دامن تھاما جاتا اور ٹمٹماتی لو سے مشعل روشن کیا جاتا لیکن ہمارے لیڈروں نے قوم کی پستی کا علاج بیان بازی، بین المملکتی کانفرنس، قرار داد، احتجاج و ریلی اور ریزرویشن کے نسخے میں ڈھونڈنا شروع کر دیا اورجب ان کی امیدیں بر نہ آئیں توانہوں نے اپنی تمام خامیوں کا ذمّہ یہود وہنود کے سر ڈال کر اپنے برے حالات پر فقط رونے دھونے میں عافیت محسوس کیا اورلشکر ابابیل اور فوج مسیح علیہ السلام کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا پسند کیا نیز عوام کو غیر ذمّہ داری کے وجد و سماع کے ترانے اور ٹھنڈے سہانے سپنوں میں غرقاب کر دیا۔
یاسیت و قنوطیت کی دعوت دینے والے قائدین شاید جلسے جلوس کی گہما گہمی میں بھول جاتے ہیں کہ برے حالات سے گھبرانا بزدلی کی علامت ہے اسی کے بر عکس بلند خیالی عروج و اقبال کو مہمیز دیتی ہے کیوں کہ مصیبتوں پہ محض آہ و بکا کم ہمتی کی دلیل تو ہو سکتی ہے مگر اس سے مقابلہ کرنے کی قوت فراہم نہیں کر سکتی، حالات کبھی یکساں نہیں رہتے عروج و زوال کا آنا جانا لگا رہتا ہے، نہ عروج کو دوام ہے نہ زوال کو بقا ہے دونوں وقتی ہوا کرتے ہیں،روشنی چاہے کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو، ایک وقت اس میں آہستگی آ ہی جاتی ہے، تاریکی کتنی ہی شدیدکیوں نہ ہو اس کا زور ٹوٹ ہی جاتا ہے یہی معاملہ مصیبتوں، حالات کی نزاکتوں اور پستی اور زوال کا ہے اگر آج کوئی قوم پستی و خوارگی کی زندگی گزار رہی ہے، اس کے حالات تسلی بخش نہیں ہیں تو ضروری نہیں کہ اس کے اندر بہتری نہیں آ سکتی یا وہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی، بس شرط ہے کہ مخالفتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے عوام کے اندر حوصلہ و فتح مندی کے جذبے ابھارے جائیں، ترقی کے اسباب و وسائل پیدا کیے جائیں، تعلیم و تعلم کا مزاج بنایا جائے، بیوروکریسی، جیوڈیشری، جرنلزم اور پولیٹکس کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے، ہر وہ محکمہ جہاں پر فیصلے کیے جاتے ہیں وہاں مسلمانوں کے نمائندے بھیجنے کی کوشش کی جائے۔
اگر ہم مسلمان ان فارمولوں پر عمل پیرا ہو جائیں تو کوئی حکومت ہمارے راستے میں رخنہ نہیں ڈال سکے گی،کسی کے فیصلے ہمیں نقصان نہیں پہنچا پائیں گے بلکہ بڑے بڑے ہماری چوکھٹ پرسلام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں