• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • راجا فاروق حیدر کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر غیر ذمہ دارانہ ردعمل نہ دیں

راجا فاروق حیدر کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر غیر ذمہ دارانہ ردعمل نہ دیں

راجا فاروق حیدر کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر غیر ذمہ دارانہ ردعمل نہ دیں
طاہر یاسین طاہر
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔کشمیری عوام اور پاکستانی عوام ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔آزادی کشمیر کی جدو جہد کو جس طرح پاکستان سپورٹ کر رہا ہے دنیا بھر کے عدل پسند پاکستان کے اس کردار کے معترف ہیں۔یہ پاکستان ہی ہے جس نے دنیا کے ہر فورم پر،اس امر کو اجاگر کیا کہ کشمیر میں جاری جدوجہد ,آزادی کی جدو جہد ہے اسے دہشت گردی کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔وفاق پاکستان آزاد کشمیر کے لیے کثیر بجٹ مختص کرتا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی مالی، اخلاقی اور سیاسی سپور ٹ کرتا چلا آرہا ہے اور کرتا رہے گا۔اس سب کے باوجود ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر کاز کو از خود کشمیری لیڈروں نے بھی اپنے کم تر مفادات کی خاطر نقصان پہنچایا ہے۔کسی اور موقع پہ ہم اس حوالے سے بھی ایک مفصل نوٹ لکھیں گے۔
آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلہ کے بعد یہ بیان دیا کہ اب ہمیں سوچنا ہو گا کہ کس ملک کے ساتھ الحاق کریں۔ان کے اس بیان کو تمام میڈیا نے من و عن شائع کر دیا،اپنے اس بیان پہ معذرت کرنے کے بجائے فارق حیدر نے مزید کہا کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔کشمیری وزیر اعظم کے اس دوسرے بیان کو ان کے پہلے بیان کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے یہ الزام میڈیا کو دے رہے ہیں، کہ میڈیا نے اپنی طرف سے ان کے بیان کی غلط تشریح کی۔بہ قول ایک کشمیری سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے، کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ تو جناب اس میں کسی ریاست کا وزیر اعظم کسی جلسہ میں کی گئی تقریر کو ایڈٹ نہیں کروا سکےگا، ہاں البتہ ریاستی میڈیا اگر چاہے تو نرمی کر گذرے گا۔ فاروق حیدر کے اس نا قابل فہم بیان کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، اور ان کے یکے از اتحادی شیخ رشید احمد نے آڑے ہاتھوں لیا۔یقیناً دونوں سیاسی رہنمائوں نے سخت الفاظ بھی کہے،جن پہ اب سیاست کی جا رہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور قمر زمان کائرہ نے بھی وزیر اعظم کشمیر سے اپنے بیان پر معذرت کرنے کا کہا۔
واقعی یہ حساس معاملہ ہے،ایک شخص کی حمایت میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو اس حد تک بیان نہیں دینا چاہیے تھا جو براہ راست پاکستان کی خارجہ اور داخلی پالیسی کے متضاد بھی ہو اور انتہائی سخت بھی ہو۔کچھ اخباری دانشوروں نے بھی فاروق حیدر کے بیان کی عجب تشریحات شروع کر دی ہیں، ایک صاحب نے اپنا “نقطہ نظر” ٹی وی پروگرام میں یوں بیان کیا کہ فاروق حیدر کا بیان عمران کے پاکستان بارے تھا۔یہ خطرناک روش ہے۔
پاکستان سب پاکستانیوں کا ہے اور عمران خان بھی پاکستانی ہی ہے۔بھارتی میڈیا نے بھی فاروق حیدر کے بیان کو خوب اچھالا اور اس کو انھوں نے اپنی اس بربریت کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی جو وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت اس بیان کو لے کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ پاکستان زبردستی کشمیریوں کو اپنے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔فاروق حیدر کے بیان پہ سیاست نہ کرنے کا مشورہ دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وزیر اعظم کے بیان پہ سیاست نہیں ہوگی تو کیا سبزی فروش کے بیان پہ ہو گی؟
بھارتی میڈیا پہ البتہ پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوھان کی گفتگو کو صحاف نامی ایک پاکستانی نژا دبرطانوی کشمیری نے آڑے ہاتھوں لیا اور سوشل میڈیا پہ اپنی ایک ویڈیو وائرل کی، جس میں وہ، کشمیر سے نکلنے والے پانچ دریائوں،منگلا ڈیم کا ذکر کر رہے ہیں،اور ریالٹی کا تذکرہ بھی کیا جا رہا ہے۔ مگر وہ بھول رہے ہیں کہ جب منگلا دیم بنا اور اس میں جن کشمیریوں کی زمینیں آئی تھیں انھیں، اس وقت کی حکومت نے نہ صرف زمین کی قیمتیں ادا کی تھیں بلکہ کشمیریوں کو بالخصوص، برطانیہ اور یورپ بھی بھجوایا۔اگر اس وقت کی پاکستانی حکومت کشمیریوں کویورپ بھجوانے کا انتظام نہ کرتی تو آج نہ ان کی زبانیں یوں تیز ہوتیں اور نہ وہ پاکستان کو آنکھیں دکھاتے۔فاروق حیدر کے بیان پر اگر پاکستانیوں نے غیر ذمہ دارانہ ردعمل دیا ہے تو یاد رہے کہ فاروق حیدر اور کشمیری سیاست دانوں کی آڑ میں، کشمیری نوجوان بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔بھارت اگر براہ راست مقبوضہ کشمیر پر حملہ آور نہیں ہو رہا تو اس کی وجہ پاکستان ہی ہے۔کشمیری نوجوان سوشل میڈیا پہ ضرور اپنی آواز بلند کریں مگر اپنی حب الوطنی اور کشمیری لیڈروں سے اپنی محبت کا اظہار پاکستان کے قیمت پر فروخت نہ کریں۔اسی میں خطے اور ہم سب کی بھلائی ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply