وفاقی وزیر داخلہ کا پارلیمان بارے بیان ،چند گذارشات

کسی بھی ملک میں، جہاں جمہوریت ہو وہاں پارلیمنٹ کو اولین فیصلہ ساز ادارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ پارلیمان کو یہ طاقت دراصل عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے عطا کرتے ہیں۔ لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں بہ ظاہر نظر آنے والی برائے نام جمہوریت میں ہمیشہ پارلیمنٹ کمزور ادارے کے طور پر نظر آئی۔ ایشیائی ممالک میں سے بھارت اور چین نے اگرچہ جمہوری قدروں کو مضبوط کیا اور ترقی کی راہ پہ چل پڑے۔ہمیں بھی یہ زعم ہے کہ پاکستان کی پارلیمان بھی اسی قدر طاقت ور ہے جس قدر برطانیہ یا یورپ کی پارلیمنٹ طاقت ور ہوتی ہے۔ یہ گمان کرتے ہوئے ہمارے سیاست دان،اپنا اور مغربی ممالک کے سیاستدانوں کا موازنہ کرنا بھول جاتے ہیں۔
مغربی ممالک کے سیاست دانوں کی اولین ترجیحات ملک و ملت کی ترقی ہوتی ہے، جبکہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ترقی کے نام پر بھی گھپلے کیے جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ حکمران طبقے کی ترجیح اول ان کا ذاتی و پارٹی مفاد ہی رہا۔ بالکل یونہی آمریت نے بھی اپنی طاقت اور اس کوقائم رکھنے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے۔بحث یہ نہیں کہ جمہوریت زیادہ سود مند ہے یا آمریت، بلکہ بحث اس امر سے ہے کہ اداروں کے درمیان ٹکرائو پیدا ہی کیوں کر ہوتا ہے؟ کن معاشروں میں ہوتا ہے اور آخر کار اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ہمارے ہاں سیاست دانوں نے ہمیشہ تھانے کچہری،گلیوں، نالیوں اور الزام تراشیوں کی سیاست کی۔جبکہ سیاسی حکومتیں اپنی ناکام سیاسی پالیسیوں اور عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کرنے کے باعث بار بار رسوا ہوتی رہیں۔ یہ بات درست نہیں کہ جمہوری حکومتوں کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی رہی، بلکہ سچ تو یہی ہے کہ جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتوں نے ایسے ایسے گل کھلائے کہ انھیں رخصت ہونا ہی پڑا،منتخب حکومتوں کا ہدف عوامی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات اور کرپشن کلچر کا فروغ رہا۔
ہماری عدلیہ کی تاریخ بھی شاہد ہے کہ کس طرح ججز نے اسٹیبلشمنٹ یا پھر سیاستدانوں کی مان کر اداروں میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے میں مدد دی۔سیاستدان جس قدر معصوم بن کر عوام  کےغم میں مر مٹنے کی اداکاری کرتے ہیں، اگر اس کا دس فی صد بھی رحم ان کے دلوں میں عوام کے حوالے سے آجائے تو حالات ہی بدل جائیں۔یاد رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے گذشتہ سے پیوستہ روز تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ہر ادارے کی حدود متعین ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پارلیمان کو بے وقعت کیا جارہا ہے اور کچھ دیگر ادارے پارلیمان کی حدود میں داخل ہورہے ہیں۔لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا، ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی پارلیمان کوئی یتیم خانہ نہیں، 20 کروڑ عوام کی خواہشات کی مظہر ہے، پارلیمان کے بطن سے آئین اور قانون جنم لیتا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں پاکستان کی صورتحال میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جس ملک میں صبح شام دہشت گردی کے جِن نے لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی وہاں دہشت گردی کی کمر توڑی جاچکی ہے۔وزیر داخلہ احسن اقبال نے کراچی میں امن کی بحالی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بلوچستان قومی دھارے میں شامل ہورہا ہے۔
ہمیں اس امر میں کلام ہی نہیں کہ پارلیمان کے بطن سے قانون جنم لیتا ہے۔بے شک ایسا ہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون پر عمل در آمد بھی ہوتا ہے؟کیا سیاستدان کسی بہت پوتر شے کا نام ہے کہ اس کے خلاف نہ فیصلہ آ سکتا ہے اور نہ اس کے بیٹھنے کی جگہ (پارلیمان) کے فیصلوں پر تنقید ہو سکتی ہے؟ در اصل پارلیمان کے نمائندے عوام کے وہ نمائندے ہوتے ہیں جن پہ عوام کو کچھ توقعات ہوتی ہیں اور عوام اپنے ووٹ اور انتخاب کے بدلے بہتر طرز حیات ،تعلیم،صحت اور رہائش کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ روزگار بھی چاہتے ہیں۔ کیا پارلیمان نے اپنی اجتماعی دانش کو بروئے کار لا کر عوام کے مذکور مسائل کو حل کیا ہے؟ اگر نہیں تو صرف جمہوریت کا نشہ لینے سے اب عوام انکاری ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا بھی احترام ہو،ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے،انھیں بھکاری بننے پہ مجبور نہ کیا جائے اور یہ کہ پارلیمان اپنی اجتماعی دانش سے اپنے ووٹروں کے لیے آسانیاں تلاش کرے۔یہاں مگر پارلیمنٹ کے منتخب نمائندے اپنی تنخواہیں اور الائونسز اتفاق رائے سے سو فی صد بڑھا لیتے ہیں اور عام سرکاری ملازم کی تنخواہ پانچ سے دس فی صد بڑھائی جاتی ہے۔جبکہ مزدور کی کم از کم اجرت پندرہ ہزار مقرر کر کے کہا جاتا ہے کہ اداروں پہ تنقید نہ کی جائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply