• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • آصف علی زرداری کی وطن واپسی اور پیپلز پارٹی کا مستقبل کا پلان؟

آصف علی زرداری کی وطن واپسی اور پیپلز پارٹی کا مستقبل کا پلان؟

آصف علی زرداری کی وطن واپسی اور پیپلز پارٹی کا مستقبل کا پلان؟
طاہر یاسین طاہر
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زردای 18ماہ کی خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے کے بعد جمعہ کو ایک چارٹرڈ طیارے جو کہ بحریہ ٹاون کے مالک کی ملکیت ہے ،کے ذریعے وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔وطن واپسی پر انھوں نے اپنے استقبال کے لیے آنے والے پارٹی ورکروں،ووٹروں،سپورٹروں اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی ملک سے باہر گئے تو ان کے سیاسی مخالفین نے یہی پروپگنڈا کیا کہ سابق صدر ملک سے بھاگ گئے ہیں،انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ہماری لاشیں بھی یہی دفن ہوں گی۔دریں اثنا انھوں نے اپنی خطاب میں اس امر کا ذکر کیا کہ پاکستان کے عوام اور پاک فوج کی وجہ سے ملک دشمنوں سے محفوظ ہے اور سرحدیں بالکل غیر محٖفوظ نہیں ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کبھی بھی ناکام ریاست نہیں ہوگا،ہم نے ہمیشہ کہا کہ پاکستان شدت پسندوں کا ملک نہیں ہے، ہم شام نہیں بننا چاہتے۔سابق صدر نے بھارت کو للکارتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت سے کشمیر لے کر رہیں گے،اآصف علی زردای نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ آئندہ جو جمہوری حکومت بنے گی وہ ہماری ہو گی۔پاکستان اور عالمی معیشت کی نئی امید سی پیک کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ پیپلز پارٹی کا ڈیزائن کردہ ہے۔موجودہ حکومت اس ویژن کو سمجھ نہیں سکتی، وہ صرف سڑکیں بنا کر خوش ہو رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان اور خطے میں ترقی کی نئی راہیں متعین کرے گا۔یہ سوچ تمام صوبوں کی ترقی کے لیے سوچی گئی ہے۔ یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ صرف سڑکیں اور روڈ بنیں۔ یہ اس کا ایک پہلو ہے۔‘آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کو پرواں چڑھائے گی کیونکہ ’جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے، ماضی میں اس وقت کی طاقتوں نے پی پی پی کو اٹھنے سے روکا مخالفت کی اپنی پسند کے حلقے بنائے اس کے باوجود ہم لڑے اور اپنی حکومت بنائی اور مدت پوری کی۔
یاد رہے کہ آصف علی زردای نے کوئی ڈیڑھ برس قبل ایک پارٹی جلسے سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اگر ہماری کردار کشی بند نہ کی گئی تو ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، انھوں نے یہ بھی کہا تھا ہم قیام پاکستان سے اب تک جرنیلوں کے وہ کارنامے بیان کریں گے کہ وہ ساری عمر وضاحتیں دیتے رہیں گے۔اس تقریر کے بعد پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے اور اس تقریر کے کچھ دن بعد سابق صدر خاموشی سے دبئی چلے گئے تھے۔ان کی جلا وطنی کے دورون میں ان کی پارٹی ،بالخصوص سندھ میں کئی رہنماوں پر کڑا وقت بھی آیا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر راحیل شریف کو ایکسٹینشن مل جاتی تو ممکن ہے صدر زرداری مزید کچھ عرصہ وطن واپس نہ آتے۔یہ ایک پہلو ہے،صدر زرداری کے بعد پاکستان مٰن جب سے عملاً پارٹی قیادت بلاول بھٹو کے ہاتھ آئی ہے،انھوں نے پارٹی کے سینئیر رہنماوں کے ساتھ مل کر پارٹی کو خوب متحرک کیا اور اس میں جان ڈال دی ہے۔ خاص طور سے پنجاب میں پارٹی کی سیاست پر ان کی توجہ نے پرانی کارکنوں اور جیالوں میں ولولہ پیدا کیا ہے۔پاناما لیکس پر بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی نے جو سٹینڈ لیا اس نے میاں نواز شریف کا خاصا پریشان کیا ہوا ہے۔صدر زردای کی وطن واپسی پر میاں نواز شریف صاحب نے جس خوشی کا اظہار کیا اس سے ایک مراد یہ بھی لی جا رہی ہے کہ شاید وزیر اعظم کو یقین ہو کہ سابق صدر اسی مفاہمتی سیاست کو دہرائیں گے جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔
یقین و خدشات کے بیچوں بیچ یہ امر البتہ واضح ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے اب مفاہمت کی سیاست کی بالکل گنجائش نہیں رہی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی یہ غلطی کرتی ہے تو کئی عشروں تک اس پارٹی کو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔بلاول بھٹو اور ان کے مشیر جس طرح حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا منصوبہ بنا چکے ہٰں اور جس طرح وہ اس پر عمل کرتے بھی نظر آتے ہٰں آصف علی زرداری کو اس منصوبے کو آگے بڑھانا چاہیے۔اگرچہ انھوں نے ابھی تک کوئی واضح مستقبل کا پلان نہٰں دیا ہے،سوائے اس کے،کہ آئندہ حکومت ان کی پارٹی کی ہی ہو گی۔ مگر کیسے؟ اس کے لیے پیپلز پارٹی نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟ اس کا اعلان ابھی تک انھوں نے نہیں کیا۔ کیا آئندہ بھی پیپلز پارٹی اپنی ماضی کے کارناموں اور اپنے شہدا کے نام پر ہی ووٹ مانگے گی یا عوام کے لیے اس کے پاس کوئی منشور بھی ہے؟ایسے سوالوں کا جواب ابھی تک آصف علی زردای نے نہیں دیا۔ البتہ انھوں نے اتنا ضرور کہا ہے کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر خوشخبری سنائیں گے اور اہم اعلان کریں گے،۔اگر برسی تک حکومت نے بلاول بھٹو کے چار مطالبات تسلیم نہ کیے تو یقیناً بلاول بھٹو اس احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیں گے جس کا وہ اعلان کر چکے ہیں۔آنے والے دن پاکستانی سیاست میں گہما گہمی اور گرما گرمی کے دن ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply