مریم نواز ڈاکٹرائن کی بدترین ناکامی/عامر ہاشم خاکوانی

میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور میڈیا میں ان کے زبردست حامی بھی یہ بات اب مان رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی شکست کی ایک بہت بڑی وجہ پانامہ کیس کی ہینڈلنگ ہے۔اس کیس کو بری طرح ہینڈل کیا گیا، جس کی تمام تر ذمہ داری میاں صاحب کی صاحبزادی مریم نواز پر ہے۔ مریم بی بی کو پچھلے چند برسوں میں سامنے لایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے بیگم کلثوم نواز کا ہاتھ ہے۔ شریف خاندان کے اندر بھی دوسرے خاندانوں کی طرح ایک خاص قسم کی فیملی پالیٹیکس موجود ہے۔ بیگم کلثوم نواز اس پر ناخوش تھیں کہ پنجاب شہباز شریف کے پاس چلا گیا اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز مستقبل کے وزیراعلیٰ کے لئے تیار کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے میاں نوازشریف پر زور دے کر مریم نواز کو آگے لانے اور مرکز میں مستقبل کے وزیراعظم کے لئے تیار کرنے پر آمادہ کیا۔

مئی تیرہ کے انتخابات کے بعد سے مریم بی بی کو اس نئے کردار کے لئے بھرپور انداز میں سہولیات دی گئیں۔وزیراعظم ہاؤس میں ایک میڈیا سیل بنایا گیا جس کی نگرانی مریم نواز کرتی رہیں۔ اسے سٹریٹجک میڈیا سیل کہا جاتا ہے۔ مریم نواز نے پانامہ کے مکمل ایشو سے نمٹنے کے لئے ایک جارحانہ میڈیا حکمت عملی بنائی۔ انہوں نے طلال چودھری، دانیال عزیز ، عابد شیر علی جیسے بدزبانی کی حد تک سخت زبان بولنے والوں کو آگے کیا اور روزانہ کی بنیاد پر ان سے تحریک انصاف پر حملے کرائے۔ مریم نواز ہی کے کہنے پر مریم اورنگ زیب جیسی ناتجربہ کار خاتون کو وزارت اطلاعات کی ذمہ داری دی گئی۔ مریم اورنگ زیب کا کسی میڈیا ہاؤس میں ذاتی تعلقات یا اثرورسوخ نہیں تھا، انہیں صحافتی حلقوں میں کم لوگ جانتے تھے، مگر چونکہ وہ مریم بی بی کے کہنے پر نہایت سخت، تلخ گفتگو کر سکتی تھیں، اس لئے انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔

مریم نواز کے اس سیل نے جے آئی ٹی پر سخت حملے کیے، اس کے ارکان کی کردار کشی کی کوشش کی، عدلیہ پر کیچڑ اچھالا اور سیاسی ٹمپریچر بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ میڈیا میں بہت سے لوگ اسی میڈیا سیل کے زیراثر آئے۔ کئی نامور صحافی، کالم نگار اور اینکر حضرات مبینہ طور پر اسی میڈیا سیل سے پھوٹنے والی مفادات کی بارش میں نہاتے رہے اور کمال دیدہ دلیری سے میاں نواز شریف کا نہایت کمزور کیس لڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ ضرورت پڑنے پر یہ سیل خواجہ سعد رفیق کی خدمات بھی حاصل کر لیتا تاکہ زیادہ تیز ، جارحانہ ، بدزبانی پر مبنی گفتگو کی جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ روزانہ وزیراعظم ہاؤس میں شاندار ناشتہ میں یہ میڈیا سیل کے ارکان شریک ہوتے اور دن بھر کی حکمت عملی ترتیب دی جاتی۔ عصر کے وقت ایک بار پھر ہائی ٹی میں یہ سب لوگ آتے اور پھر شام کو ٹی وی چینلز پر اپنی جنگ لڑنے کی پلاننگ کی جاتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

میاں صاحب کے قریبی حلقے کے لوگوں کے مطابق نواز شریف صاحب کئی بار اس میڈیا سیل کی کارکردگی یا حکمت عملی سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود خاموش رہتے۔ مریم بی بی سے ناراض ہونے کے باوجود انہوں نے انہیں فری ہینڈ دیا کیونکہ بیگم کلثوم نواز اس حوالے سے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہی تھیں۔ چودھری نثار علی خان اس حکمت عملی سے سخت ناراض تھے۔ آخری دنوں میں تو انہوں نے کھل کر یہ کہا کہ حکومتی حکمت عملی غلط تھی اور سینئر رہنماؤں کے بجائے جونیئر لوگوں پر انحصار کیا گیا ، جس سے کیس بگڑگیا۔ پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے میں قانونی شواہد کا تو مرکزی کردار ہے ہی، مگر اس کیس کو جس طرح لڑا گیا، جس بھونڈے انداز میں قانونی کے بجائے اسے سیاسی انداز میں لڑنے کا سوچا گیا، اس کی اصل ذمہ داری مریم نواز شریف کی ڈاکٹرائن پر عائد ہوتی ہے۔ مریم نواز ڈاکٹرائن بری طرح ناکام ہوئی اور نا صرف اپنے والد کے سیاسی کیرئر کا خاتمہ کراو بیٹھی بلکہ ممکن طور پر شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کو بھی تاریک کرنے کا باعث بنی۔ مریم نواز شریف کو خاندان کے لوگ مستقبل کی وزیراعظم کے طور پر دیکھ رہے تھے اور امکان یہ ہے کہ وہ آئندہ شاید رکن اسمبلی بھی نہ بن سکیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply