کینسر (30) ۔ ایک علاج/وہاراامباکر

ملٹی ڈرگ تھراپی کی مدد سے ہوجکن بیماری کی ایڈوانسڈ سٹیج کے خلاف حاصل کردہ کامیابی تحقیق کے مورال کے لئے بھی اہم تھی۔ اس سے قبل ہونے والی ویمپ کی ناکامی کی مایوسی چھٹ رہی تھی۔ ویمپ سے لیوکیمیا کے مریض ابتدائی طور پر صحتیاب ہوئے تھے لیکن کینسر نے واپس آن لیا تھا۔ اس وقت چھتیس سالہ اونکولوجسٹ ڈونلڈ پمپل نے سوال کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ ویمپ کا حملہ ناکافی تھا؟ کیا مزید ادویات کا کمبی نیشن درکار تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسرا یہ کہ لیوکیمیا اس لئے بچ جاتا تھا کہ یہ اعصابی نظام میں پناہ لیتا تھا اور کیمیکل بلڈ برین بیرئیر پار نہیں کر پاتے تھے۔ کیا کیموتھراپی کو ریڑھ کی ہڈی کے فلوئیڈ میں انجیکٹ کیا جائے تو اس کا تدارک ہو جائے گا؟
تیسرا یہ کہ ایکسرے دماغ میں فائر کی جا سکتی ہیں۔ کیا ان کی ہائی ڈوز کھوپڑی پر پھینک کر کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنایا جائے؟
چوتھا یہ کہ کیا کیموتھراپی کے علاج کو ہفتوں یا مہینوں کے بجائے دو یا تین سال تک جاری رکھا جائے؟
یہ اس قدر زہریلا اور کھلا حملہ تھا کہ سینئیر ڈاکٹروں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ پنکل کے پاس جونئیر فزیشن تھے۔
پنکل اس کو total therapy کہتے تھے۔
دوسرے ڈاکٹر اس کو total hell کا نام دیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنکل کی ٹیم نے آٹھ ٹرائل چلائے جو 1968 سے 1979 کے درمیان تھے۔ ہر ایک میں کوئی ویری ایشن تھی۔ نتائج زبردست تھے۔ میمفس کی پہلی ٹیم میں 31 مریض تھے، جن کی عمر چار سے چھ سال کے بیچ تھی۔ ان میں سے 27 مکمل صحت یاب ہو گئے۔ کینسر کے واپس آ جانے کا اوسط وقت پانچ سال تھا۔ جبکہ تیرہ مریضوں میں یہ کبھی واپس نہیں آیا۔
کل آٹھ ٹرائلز میں 278 مریض تھے جن میں سے بیس فیصد میں کینسر واپس آیا جبکہ باقی کے اسی فیصد میں کیموتھراپی کے بعد کینسر ختم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے ڈاکٹر علاج کی کوششوں کے بارے میں پرامید نہیں رہے تھے۔ زیادہ تر کا ٹارگٹ علالت کو کم سے کم تکلیف دہ بنانا تھا۔ palliative کئیر واحد طریقہ کار سمجھا جاتا تھا۔
پنکل نے ریویو آرٹیکل میں لکھا۔ “بچوں کا لیوکیمیا اب ناقابلِ علاج مرض نہیں”۔ پنکل کا یہ آرٹیکل مستقبل کے ڈاکٹروں کے لئے بھی تھا اور ایک طرح سے ماضی کے ڈاکٹروں کے لئے بھی۔ ان کے لئے جو فاربر سے جھگڑتے رہے تھے اور ان سے درخواست کرتے رہے تھے کہ “بچوں کو سکون سے مرنے دیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاجکن اور لیوکیمیا کا ہائی ڈوز کیموتھراپی سے مل جانے والا علاج اب بائیولوجیکل تّکا نہیں تھا بلکہ عام اصول بن گیا۔
ڈی ویٹا کا کہنا تھا، “علاج کے لئے معمے کا گمشدہ ٹکڑا مل چکا ہے۔ ہائی ڈوز کیموتھراپی ہر کینسر کا علاج کر دے گی۔ صرف ٹھیک کمبی نیشن ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ جو طاقت سرجن کو اس کا چاقو نے دی تھی، اب اتنی ہی طاقت فزیشن کے کیمیکل اوزار میں ہے”۔
کینسر کا علاج سیاستدانوں کے لئے بھی پرکشش مقصد تھا۔ کینسر کے خلاف “جنگ” کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ جنگ میں لڑاکا، ہتھیار، فوجی، زخمی، دیکھنے والے، تجزیہ نگار، حکمتِ عملی بنانے والے، فتوحات ہوتی ہیں۔
جنگ کے لئے “دشمن” کی واضح تعریف بھی چاہیے۔ شکلیں بدلتی بیماری کے اس متنوع خاندان کو ایک ہی دشمن قرار دے دیا گیا۔ ایک اونکولوجسٹ کے الفاظ میں کینسر کی “ایک ہی وجہ، ایک ہی مکینزم اور ایک ہی علاج” ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلینیکل اونکولوجسٹ کا حدف ملٹی ڈرگ سائیکوٹوکسک کیموتھراپی کے ذریعے“ایک علاج” تھا جبکہ کینسر کے سائنسدان “ایک وجہ” کی تلاش میں تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply