کیا یہ عدالت کا مضحکہ خیز فیصلہ ہے یا ایک سنگِ میل

جو احباب نوازشریف کی نا اہلی کے ضِمن میں خیال آرائی فرما رہے ہیں کہ یہ عدالت کا عجیب فیصلہ ہے”الزام اونٹ جتنا اور سزا مچھر جتنے جرم پہ سنا دی گئی”۔
اس رو میں نہ صرف بڑے بڑے سیاستدان اور تجزیہ کار بلکہ ماہرینِ قانون بھی بہے چلے جا رہے ہیں۔کچھ تو عدلیہ کا تمسخر اڑا رہے ہیں عدلیہ کی قابلیت پہ سوال اٹھا رہے ہیں۔بعض اسے عدل و انصاف کی موت گردان رہے ہیں اور بعض عدالتی تاریخ کا کوڑے دان۔۔۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔میں اگرچہ قانونی ماہر تو نہیں مگر اپنے ذہن سے سوچتا ہوں اور گِردو پیش کا جائزہ لے کر معاملات کی گہرائی میں جا کر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور ایک رائے قائم کر کے دوستوں کے سامنے لے آتا ہوں اور خوش قسمتی سے بیشتر معاملات میں میرا موقف درست ثابت ہوا اگرچہ اس وقت وہ حقیقت کے قریب محسوس نہیں ہوتا تھا۔اب آتے ہیں اصل موضوع پر۔۔۔

جی تو احباب ۔۔۔۔۔ماضی قریب میں چلتے ہیں جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم گیلانی کو نااہل قرار دیا،واقعہ یوں ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری اور بنچ نے اپنے فیصلے میں وزیر اعظم گیلانی کو حکم دیا کہ سوئزرلینڈ کے بینکوں میں موجود پاکستانی دولت واپس لانے کے لیے سوئزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھا جائے کہ قانوناً کسی ملک کی حکومت یہ درخواست کرے تب بینک اس کی تفصیلات مہیا کرتے ہیں اور واپسی کا پراسس چلتا ہے۔گیلانی نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے پارٹی سربراہ اور صدرِ مملکت زرداری کا پیسہ بھی ان اکاؤنٹس میں پڑا تھا۔عدالت نے بار بار اس طرف توجہ دلائی مگر گیلانی نے ٹال مٹول کیے رکھی تب سپریم کورٹ نے وزیراعظم گیلانی کو طلب کر لیا اور توہینِ عدالت کے جرم میں “کچھ دیر” کی بس کمرہ عدالت میں کارروائی تک کے دوارنیے تک سزا سنا دی
۔اب گیلانی صاحب اور ان کے حواری خوش اور حیران بزرجمہروں نے اس فیصلے پہ اسی طرح کے کمنٹس پاس کیے کہ” یہ بھی کوئی سزا ہے ،عدالت نے مذاق کیا وقت ضائع کیاایسا مضحکہ خیز فیصلہ سنایا سزا بھی جو چند گھنٹوں پہ مشتمل ، کمرہ عدالت سے نکلتے ہی ختم”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غرض یہی ماحول تھا جو آج بن رہا ہے۔۔۔۔مگر چند دن بعد انہیں عدالت کے اس”مضحکہ خیز”فیصلے کی سمجھ آئی جب سپریم کورٹ نے سپیکر اسمبلی کو حکم جاری کیا کہ گیلانی کو نا اہل قرار دیا جائے کہ آئین و قانون کی رُو سے سزا یافتہ شخص عوامی عہدے کا اہل نہیں جب عدالت سے استفسار کیا گیا کہ گیلانی سزا یافتہ کیسے؟ ۔۔۔۔۔تب سپریم کورٹ نے توجہ دلائی کہ” گیلانی صاحب کو تویینِ عدالت میں سزا سنائی گئی تھی اس بنیاد پر یہ ڈس کوالیفائی ہوتے ہیں”۔یہ ہوتی ہے بظاہر”مضحکہ خیز” فیصلوں میں چھپی حِکمت ۔
ذرا سوچیے۔۔۔ کہ کیا اتنے بڑے اور قابل ججز کو یہ بات معلوم نہیں کہ ہم کس معمولی سے معاملے پہ اتنے بڑے فیصلے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔۔؟یہ بنیاد اتنی کمزور ہے کہ اس اِستادہ آئین و قانونی فیصلے کی عمارت دھڑام سے گر سکتی ہے کیا یہ سب خدشات ان کے پیشِ نظر نہ ہوں گےکہ دنیا بھر میں اس فیصلے سے ہماری سبکی ہو گی ،کیا ان کے سامنے وزیر اعظم کے دوسرے بڑے بڑے معاملات نہیں تھے جو انہوں نے سب کو نظر انداز کر کے ایک اقامے کے معمولی ایشو کو بنیاد بنا کر وزیر اعظم کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا۔۔کیا وہ کچھ جو ہمارے ذہنوں میں ہے وہ ان معزز جج صاحبان کے ذہنوں میں نہیں آیا ہوگا؟کیا ان کی عقل و ذہانت ذکاوت ہم ایسوں سے بھی گئی گزری ہے۔۔۔؟
ذرا سوچیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو جمع دو چار کیجیے ، خاطر جمع رکھیے۔۔ اس فیصلے کی حِکمت آنے والے چند دنوں میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔دھیرج ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر انتظار
میرے یار!!

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply