نکسل واد کا بانی: کامریڈ چارو مجمدار

28جولائی 1972کا سورج غروب ہو چکاہے ،مشرقی بنگال کےبدنام زمانہ لال بازار تھانے سے پولیس کی بھاری نفری ایک لاش کو لے کر شمشان گھاٹ پہنچتی ہے۔پولیس نے چاروں طرف سے شمشان گھاٹ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔مرنے والے کے بے شمار جانثار تھے لیکن اس سمے اس کی ارتھی کو کندھا دینے والا ،اس کی چتا کو آگ دینے والا کوئی مونس و غم خوارنہیں ہے یہ فریضہ سرکار کے تنخواہ دار سر انجام دے رہے ہیں جو نہایت عجلت میں ہیں۔ مذہبی رسومات ادا کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور چتا کو آگ لگا دی گئی، لیکن اس میں دکھ کی کوئی بات نہیں کیو نکہ مر نے والا ان خرافات پر یقین ہی کب رکھتا تھا۔اس کاتوصرف ایک دھرم اور ایک ہی بھگوان تھا ’’انقلاب‘‘ دوسرے بھگوانوں کو وہ کب کا الوداع کہہ چکا تھا۔ایک روشن چتا ظلمتِ شب کا دامن چاک کرتے کرتے سرد ہو گئی اور اندھیرا پھر غالب آ گیا،لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ چتا آج 45سال بعد بھی پوری آب و تاب سے روشن ہے۔ مغربی بنگال کے لال بازار کے ایک شمشان گھاٹ میں روشن ہونے والی اس چتا کے شعلے آج ہندوستان کی 20سے زیادہ ریاستوں کے240 اضلاع میں رقص زن ہیں جن سے اندھیروں کے دیوتا اور پجاری سب لرزیدہ ہیں۔ان شعلوں کو آج دنیا نکسل باڑی تحریک کے نام سے جانتی ہے اور ان شعلوں کا خالق تھا کامریڈ چارو مجمدار۔وہی نکسل باڑی تحریک جس نے رواں سال مئی میں اپنی بھرپور مسلح جدوجہد کی نصف صدی مکمل کر لی ہے ۔

کامریڈ چا رو مجمدار 1918 میں مغربی بنگال کے علاقے سیلی گری کے ایک تر قی پسند، وطن پرست زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد برطانو ی سامراج سے نبرد آزماوطن کی آزا دی کےسپاہی تھے، یوں حر یت پسندی کامریڈ چارو مجمدار کے خون میں شامل تھی۔ وہ لڑ کپن میں نچلے اور در میانے طبقے کے انقلابیو ں سے متا ثر تھے جس کی وجہ بر طا نوی استبداد، معا شی نا انصا فیا ں، طبقا تی تفر یق اور چاروں طر ف پھیلا ہوا جبر تھا۔ ظالم طبقا ت سے یہ نفرت ہی تھی جس کی وجہ سے وہ زما نہ طا لبعلمی میں آ ل بنگال اسٹو ڈنٹس ایسوسی ایشن سے وابستہ ہو گئے ۔1937میں 19سالہ چارو مجمدار کو سیاسی سر گر میوں کی پاداش میں کالج سے نکال دیا گیا جس کے بعد انھو ں نے کا نگر یس میں شمولیت اختیا ر کر لی اور بیڑی بنا نے وا لے مز دو روں کی تنظیم نو کا کا م کرنے لگے ،یہیں ان کا طبقاتی شعو ر پر وا ن چڑھا اور بندہ مزدور کے تلخ اوقات کو قر یب سے دیکھا۔ اپنے شب وروز کے تجر با ت و مشاہدات اور دنیا کو تبدیل کر نے کی خوا ہش آ خر اسے ذ ہن انسانی کی اس سب سے اونچی رسائی سے روشناس کروا گئے جسے مارکس ازم،لینن ازم کہتے ہیں ۔اب کانگریس کا کردار بھی اس کے سا منے بے نقا ب ہو چکا تھا، وہ جا ن چکا تھا کہ یہ کس طبقے کی نمائندہ ہے لہذا اس نے طبقاتی جدوجہد کا حصہ بننے کے لیے کمیو نسٹ پا رٹی آ ف انڈ یا میں شمو لیت اختیا ر کر لی اور جلپائی گر ی کے پسے ہوئے کسانوں میں کا م شر و ع کر د یا ۔

دوسری عالمگیرجنگ کا آغاز ہوا تو کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ، چا رو مجمدار کو روپوش ہوناپڑا کیونکہ انگر یز سر کا ر نے ان کی گرفتاری کے وا رنٹ جاری کر دیے تھے۔اپنی روپوشی کے زمانے میں بھی کامریڈ مختلف بھیس بدل کر کسانوں میں کام کرتے رہے۔1942 میں کامریڈ کو جلپائی گری کی ضلعی کمیٹی کا رکن بنا دیا گیا،۔943کے تباہ کن قحط کے دوران وہ محنت کشوں میں کام کرتے رہے ۔ 1946کا سال ہندوستان کی تاریخ میں ایک انقلابی سال تھا، جس کے آغاز میں فضائیہ کے ہندوستانی جو انوں کی ہڑتال سے متاثر ہو کربمبئی شپ یارڈ کے مزدوروں نے بغاوت کر دی جو جہازیوں کی بغاوت کے نام سے مشہور ہوئی۔بمبئی سے شروع ہونے والی یہ بغاوت پورے ہندوستان میں پھیل گئی ۔اسی زمانے میں بنگال کی سرزمین پر ایک باقاعدہ مسلح کسان جدوجہد کا آغاز ہوا جس کا نام تبھاگا مومنٹ تھا،28 سالہ چارو مجمدار اس ہاری تحریک کا حصہ بن گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کے وہ محض ایک کتابی کمیونسٹ نہیں بلکہ عملی اور تخلیقی مارکسسٹ تھے۔اسی بنا پر انہیں بعد میں ایک سیمابی زندگی گزارنی پڑی۔داغ داغ اجالے کی شب گزیدہ سحر کے بعد1948 میں کانگریس سرکار کے ہاتھوں کامریڈ چارو مجمدار کو آزادی کا پہلاتحفہ گرفتاری کی صورت میں ملااوروہ تین سال تک پس زنداں رہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین کے عظیم بالشویک انقلاب کے بعد چین میں کامریڈ ماؤزے تنگ کی رہنمائی میں برپا ہو نے والا سوشلسٹ انقلاب ایشیا کے غلاموں کو اپنی زنجیر توڑنے پر اکسارہا تھا۔”ایشیاء سرخ ہے”کے توانا نعروں سے ایشیا کے درو بام گونج رہے تھے ۔ یہ چین کا سوشلسٹ انقلاب ہی تھاجس نے عملی طور پر ثابت کیا کہ کسان بھی انقلابی تحریک کا ہر اول دستہ ہو سکتے ہیں ۔ کامریڈ ماؤزے تنگ کے انقلابی افکار اور جدوجہد نے چارو مجمدار کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے ۔رہائی کے بعد چارو مجمدار نے جلپائی گری میں دوبارہ انقلابی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ بنگال کے محنت کشوں میں اشتراکی نظریات کے پر چار میں کامریڈ چارو مجمدار کا نا قابل فراموش حصہ ہے ۔ جنوری 1954ء میں انہوں نے جلپائی گری سے تعلق رکھنے والی ایک پارٹی کامریڈ لیلا مجمدار سنگپتا سے شادی کرلی اور کچھ عرصہ بعد اپنے آبائی علاقے سیلی گری میں منتقل ہوگئے ۔ یہ مقام اگلے چند برس تک ان کی انقلابی سر گرمیوں کا مرکز رہا۔ یہاں ان کے بیمار سسر اور ایک سالی نہایت غربت میں زندگی بسر کر رہے تھے ، جن کی دیکھ بھال اور کفالت بھی ان کے ذمے تھی لیکن ذاتی مشکلات اور مالی مجبوریاں کبھی کامریڈ چارو کی انقلابی جدو جہد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں اور انہوں نے نامساعد حالات کا مقابلہ کر تے ہوئے بھر پور انقلابی زندگی گزاری ۔

انہوں نے مزدوروں ، چائے کے باغات کے کارکنوں ، دستی رکشہ کھینچنے والے محنت کشوں اور کسانوں کو متحدو منظم کر نے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری و ساری رکھیں۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور چارو کے درمیان اس وقت خلیج حائل ہو گئی جب کمیونسٹ پارٹی نے کانگریس طرزِ سیاست اپنائی ۔ پچاس کی دہائی کے آخر میں پارٹی کے اندر یہ بحث زوروں پر تھی کہ انڈیا کے موجودہ حالات میں انقلابی فلاسفی پر عمل ممکن ہے یا نہیں ۔ اس بحث نے چارو کو سوچنے پر مجبور کیا اور وہ کامریڈ ماؤ کے نقطہء نظر سے قریب ہوتے چلے گئے۔ 1962ء میں انڈیا ، چین جنگ کے زمانے میں کامریڈ چارو کو بائیں بازو کی سرگرمیوں اور ماؤ کے افکار سے متاثر ہو نے کی وجہ سے حوالہء زنداں کر دیا گیا جہاں ان کی صحت بر باد ہو گئی اس اسیری کے دوران انہوں نے کامریڈ ماؤ کے نظریات پڑھنے اور ان پر لکھنے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔1964 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مختلف نظریات کے حامل گروہوں میں تقسیم ہوئی تو کامریڈ چارو نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) میں شمولیت اختیار کر لی لیکن جب پارٹی نے الیکشن کے عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو چارو مجمدار نے اس کی شدید مخالفت کی اور پارلیمانی طریقوں کووقت کا ضیاع قرار دیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے انقلاب ممکن نہیں ہے ، محض اصلاحات سے کچھ نہیں ہو نے والا مکمل تبدیلی مسلح جد و جہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

1964-65کے دوران کامریڈچارو کی صحت مزید خراب ہو گئی اور ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا لیکن وہ ماؤ کے انقلابی نظریات کا مطالعہ کرنے اور لکھنے کا کام زور و شور سے کر تے رہے۔ 65 سے 67کے دوران چارو کی تحریروں اور تقریروں میں مسلح جد و جہد کے خیالات و افکار پو ری شدت سے ملتے ہیں جو بعد میں تاریخی آٹھ نکات کہلائے اور نکسل ازم کی بنیاد بنے۔1967میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے بنگلہ کانگریس سے مل کر یونائٹڈ فرنٹ کے نام سے مغربی بنگال میں حکومت تشکیل دی تو چارو مجمدار ،کانو سنیال اور دیگر انقلابیوں نے یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی نے دغابازی کی ہے، علیحدگی اختیار کر لی ۔ 25 مئی کو کامریڈ چارو مجمدار کی سربراہی میں انقلابیوں نے مغربی بنگال کے ضلع دار جلنگ کے گاؤں نکسل باڑی (یہ گاؤں نیپال کی سرحد پر واقع ہے) سے تاریخی مسلح ہاری بغاوت کا آغاز کیا جو بعد ازاں نکسل باڑی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسلح جدو جہد پر ایقان رکھنے والے ان انقلابیوں کا بنیادی نعرہ تھا’’کھیت کسان کا”۔ریاستی حکومت نے نکسل باڑی تحریک کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی لیکن چارو مجمدار کے انقلابی افکار نہ صرف زندہ رہے بلکہ مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ جنوبی ہند کے علاقوں تامل ناڈو،کیرالہ،کرناٹک،آندھرا،اڑیسہ وغیرہ اور شمالی ہند میں یوپی اور بہار کے علاقوں تک پھیل گئے۔نومبر1967میں انہی علاقوں کے انقلابیوں نے آل انڈیا کو آرڈی نیشن کمیٹی فار ریولوشن (AICCR)تشکیل دی جس نے آگے چل کر 12اپریل 1968کوکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسسٹ،لیننسٹ)کی بنیاد رکھی اور کامریڈ چارو مجمداراس کے پہلا سیکرٹری جنرل چنے گئے۔

ہندوستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے اس تحریک پر ملک بھر میں خوفناک حملے شروع کیے، خاص طور پر مغربی بنگال اور آندھرا پردیش میں وحشت اور بربریت کی انتہا کر دی گئی مگر نکسل باڑی تحریک زندہ رہی۔1971میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعدمغربی بنگال میں سرخ خطرے کے پیش نظر بہت سے چوٹی کے انقلابیوں کو قتل کر دیا گیاجس کی وجہ سے شدید بیماری کے باوجود کامریڈچارومجمدار زیر زمین چلے گئے۔وہ 1972میں انڈیا کے انتہائی مطلوب شخص تھے۔یکم جولائی 1972کو ان کے ایک پیغام رساں کو گرفتار کر لیا گیاجس نے ان کے ٹھکانے کی نشاندہی کر دی۔اسی روز کلکتہ کے ایک خفیہ ٹھکانے سے انھیں گرفتار کر کے مغربی بنگال کی بد نام زمانہ لال بازار تھانےمنتقل کر دیا گیا۔پولیس نے 12دن تک ایک دھان پان اور بیمارمگر عزم عالی کے کوہ گراں انقلابی پر اتنا تشدد کیا کہ 28جولائی1972 کو ان کی موت واقع ہوگئی۔دوران حراست خاندان کے کسی بھی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کے ان کے ڈاکٹر اور وکیل کو بھی ملنے نہیں دیا گیا۔مرنے کے بعد ان کی لاش بھی خاندان والوں کے حوالے نہیں کی گئی نہ ہی خاندان کے کسی فرد کو شمشان گھاٹ کے اندر جانے کی اجازت تھی۔ہندوستانی سرکار سمجھتی تھی کہ چارو مجمدار کو جسمانی طور پر ختم کر دینے سے اس تحریک اور نظریے کی بھی موت واقع ہو جائے گی لیکن ایسا ہوا نہیں اور آنے والے وقتوں نے اس اندازے کو بالکل غلط ثابت کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نکسل واد وقت کی آغوش میں زندہ رہا. سریکاکولم کے قتلِ عام سے لے کر آپریشن گرین ہنٹ اور سلواجدوم تک کوئی نسخہ کام نہ آسکا. کامریڈ چارو مجمدار کی شہادت سے کامریڈ کشن جی کی شہادت تک یہ تحریک ہندوستان کی لبرل بورژوازی کا، سارے ترمیم پسندوں کا، ہندو توا کے ٹھیکہ داروں کا ہروار سہہ گئی.
آج برسوں بعد بھی نکسل باڑی تحریک نہ صرف زندہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتوراور تواناہے،بہت سارے نظریاتی اختلافات،عالمی اشتراکی تحریک کا بحران،خود دیوارِ چین میں ترمیم پسندی کے شگاف اور پھر مشرف بہ سرمایہ داری ہونااور حکومت کا جبر وتشددنکسل باڑی تحریک کو ختم نہیں کر سکا۔آج اس تحریک کا دائرہ ہندوستان کے ایک وسیع علاقے پر محیط ہے ۔ سرخ پرچم بلند کیے یہ تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی منزل سے قریب ہوتی جا رہی ہے جس سے مرض الموت میں مبتلا ظلمتوں کے دیوتا لرزہ براندام ہیں۔۔۔
کامریڈ چارومجمدار اور تمام نکسل شہداء کو سرخ سلام
فسطائی ریاست سے نبرد آزما نکسل گوریلوں کو سرخ سلام!

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply