ڈاکٹر خالد سہیل کا ایک اور نیا علمی سفر۔۔عبدالستار

ڈاکٹر خالدسہیل کا ایک ٹی وی پروگرام “اِن سرچ آف پِیس” میری نظروں سے گزرا اور اس پروگرام نے گزشتہ سے پیوستہ ایک اور علمی پروگرام کی یاد تازہ کر دی جس کا نام ” ان سرچ آف وزڈم “ہوا کرتا تھا ۔یہ پروگرام تقریباََ 36اقساط پر مشتمل تھا اور اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہوا ۔اس علمی پروگرام کے روح روا ں ذہن کی الجھی ڈور کو سلجھانے والے ایک درویش سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر خالد سہیل اور برصغیر کے مشہور ادیب اور دانشور حمایت علی شاعر کے فرزند ڈاکٹر بلند اقبال تھے ۔

ان دونوں صاحبانِ علم نے ہمیں قدیم اور جدید وزڈم سے روشناس کروایا اور دانائی کی اس یاترا کے دوران کبھی سقراط ،افلاطون اور ارسطو کا ذکر ہوا تو کبھی ابن رشد،غزالی ،اقبال اور ٹیگور کا ،کبھی بوعلی سینا ،جابر بن حیان اور ابن تیمیہ کا ،کبھی کبیر داس اور مہاویرا کا ،کبھی برٹنڈ رسل ، اسٹیون ہاکنگ اور کارل مارکس کا،کبھی شمس تبریز تو کبھی رابعہ بصری کا تذکرہ ہوا ،اور سب سے بڑھ کر مختلف کتابوں کا تذکرہ ہوا ۔ان دونوں صاحبان علم نے نہ صرف سچائی کو ڈھونڈا بلکہ ڈھونڈنے والوں کی ایک طرح سے راہنمائی بھی کی ۔

روایتی معاشروں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ یہاں پر بہت ساری باتیں شجر ممنوعہ کا درجہ اختیار کر چکی ہوتی ہیں اس لیے سوچنے والے غیر روایتی اذہان کھل کر آپس میں گفت وشنید بھی نہیں کر سکتے کیونکہ معاشرتی قدریں اس بات کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتیں۔یہ علمی پروگرام اس طرح کے اذہان کے لیے ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ۔میں بے شمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے اس پروگرام کی 36 اقساط کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان پروگرامز میں متعارف ہونے والی کتابوں کو خرید کر پڑھنا شروع کردیا ۔

میں ایک ایسے سماج سے تعلق رکھتا ہوں کہ جہاں پر روایات کو پوجا جاتا ہے اور حقائق سے صرف نظر کیا جاتا ہے ۔ یہاں پر کئی اس طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد سرکاری نوکری کی صورت میں ایک رُوٹین لَائف کوہلو کے بیل کی طرح گزار رہے ہیں اور ان کی سرشت میں نیا پڑھنا ،نیا سیکھنا اور روایات سے ہٹ کر سوچنا ایک فضول سا عمل ہے اور اسی وجہ سے کریٹیکل تھنکنگ اور تنقید کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جیسا کہ دنیا کے کھلے معاشروں میں ہوتا ہے۔اس سماج میں آج بھی تنقیدی عمل کو کفروالحاد کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور روایات سے ہٹ کر سوچنے والوں کو مختلف القابات سے نواز کر سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے ۔

ہمارے نظام تعلیم میں لَرن ،ری لَرن اور اَن لَرن کا تصور ہی نہیں سیکھایا جاتا بلکہ یہاں پر صرف یہ سیکھایا جاتا ہے کہ رٹا کیسے لگانا ہے ، رٹے کو ریوائز کیسے کرنا ہے اور رٹی ہوئی معلومات کو کیسے امتحانی پیپرز پر لکھ کر مکت ہو جانا ہے ۔جوابات کے اندر اپنی سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے ایڈیشن کرنے کو گستاخی یا غلطی تصور کیا جاتا ہے ۔ذہن کو چند بنے بنائے دائروں کا اسیر بنا دیا جاتا ہے اور آؤٹ آف دی باکس جانے والی تھنکنگ کو روایات کے نام پر مسخ کر دیا جاتا ہے ۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریشنل تھنکنگ کا وہ ڈھانچہ ہی تشکیل نہ پا سکا کہ جس میں غیر روایتی انداز سے سوچنے والوں کو خوش آمدید کہہ کر ان کے خیالات کو بھی سماج کا حصہ بننے دیا جاتا ہے اور معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے ایک باوقار علمی فضاء پروان چڑھائی جاتی ہے ۔جبرکے اس ماحول میں اس طرح کے پروگرام جس میں زندگی کے ہر پہلو پر کھل کر بات ہو نعمت سے کم نہیں ہوتے ۔ہمارے گھٹن زدہ سماج کو اس نعمت سے سرفراز کرنے والے یہ دونوں صاحبانِ علم ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر بلند اقبال مبارک باد کے مستحق ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی امید کی گزشتہ دنوں ایک اور علمی کلی پھوٹی اور اس پھوٹنے والی کلی کا نام “اِن سرچ آف پیس”ہے ۔اس پروگرام کے روح روا ں ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر کامران احمد ہیں ۔اس پروگرام کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں لوگ نفسیات دان ہیں اور ذہنی گتھیوں کو سلجھانے کا ہنر جانتے ہیں ۔جہاں ہمیں ان دونوں شخصیات کی علمی گفتگو کے ذریعے سے ان کی ذات کے اندر جھانکنے کا موقع ملے گا وہی ہمیں بھی اپنی ذہنی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد ملے گی ۔یہ پروگرام ہفت روزہ ہوگا ۔آخر میں کینیڈا ون ٹی وی کے روح رواں بدر منیر چوہدری اور عامر اختر کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کیونکہ انہی لوگوں کی بدولت ہم ان علمی پروگرامز سے مستفید ہو پائے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply