گوتم سروپ کی یاد میں/ٹھاکر لچھمن سنگھ

’’دنیا بھر میں سب سے نچلا طبقہ ناخواندہ ہے جو تقریباً نوے فیصد ہے۔ اسی کے درمیان تجارتی اور سیاسی طبقات ہیں جو اپنے اپنے مفادات میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔سب سے آخری طبقہ قلم کار کا ہے جو تقریباً دس فیصد ہے، اس کا مذہب انسانیت ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ ناخواندہ طبقہ کی رہنمائی کرے۔ بکاؤ نہ ہو اور غیر انسانی فسادات اور فرقہ واریت کے خلاف اپنے قلم کا بھرپور استعمال کرے جو ایک طرح کی پیمبری ہے۔‘‘
ان خیالات کا اظہار جناب گوتمؔ سروپ نے ’’ادارہ ادب صادق‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار ’’فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف شعراء اور ادیبوں کا رول‘‘ کے عنوان پر کیا تھا۔
جناب گوتم سروپ گوتمؔ کا اصل نام ٹھاکر سروپ سنگھ تھا۔ گوتم سروپ ادبی نام انہوں نے اپنے لیے منتخب کرلیا تھا ۔ ان کے دادا کا نام کشن سنگھ تھا۔ اترپردیش کے بندیل کھنڈ کے رہنے والے تھے۔ ریاست حیدرآباد میں نواب محبوب علی خاں بہادر آصف جاہ سادس کے دور حکومت میں حیدرآباد آئے تھے۔ کشن سنگھ صاحب کے جملہ14 لڑکے لڑکیاں تھے۔ داروغہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سلطان شاہی میں قیام پذیر تھے اور اطراف و اکناف میں داروغہ کشن سنگھ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کس محکمہ میں انہوں نے داروغہ کی حیثیت سے ملازمت کی۔

1904ء میں موسیٰ ندی کی طغیانی نے جو تباہی مچائی تھی وہ حیدرآباد کی تاریخ کاعظیم سانحہ تھا۔ کشن سنگھ صاحب کی 12 اولادیں اس عظیم سانحہ کی نذر ہوگئیں اور صرف 2 لڑکے رہ گئے۔ ٹھاکر بلدیوسنگھ اور ٹھاکر درگا سنگھ۔ ٹھاکر بلدیو سنگھ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ٹھاکر درگا سنگھ کے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں ۔ انہیں درگا سنگھ کی چوتھی اولاد جناب گوتم سروپ گوتمؔ ہیں ۔ مذکورہ طغیانی سے اپنے خاندان کی وابستگی کا گوتمؔ نے ایک نظم میں اشارہ بھی کیا ہے۔

آکے ندی کی باڑھ گئی جب سارے درودیوار لیے
بوڑھا برگد ڈول رہا تھا جسموں کا انبار لیے
جیون میرا گہرا اس میں ہیں طوفان کئی
تن کی نیا کھیتا ہوں میں سانسوں کی پتوار لیے

ٹھاکر درگاسنگھ نے مختلف شعبوں میں جدوجہد ملازمت کی بالآخر ٹرانسپورٹ کے محکمہ میں نوکر ہوئے جو اُس وقت نظام اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ NSRT کہلاتا تھا۔ درگا سنگھ کو ملازمت کے سلسلہ میں کریم نگر آنا پڑا۔ وہ یہیں مقیم ہوگئے۔ 18/ مئی 1941ھ کو جناب گوتم سروپ کریم نگر میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن کریم نگر میں گزرا۔ ہائی اسکول تک تعلیم یہیں سے مکمل کی۔ کریم نگر میں اردو ادب کا اچھا ماحول تھا۔ آپ پر بھی مقامی ادبی حلقہ کا اثر پڑا۔ طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوئی۔ موصوف نے بتایا کہ 1962ء کا سال ان کی زندگی کا اہم سال گزرا ہے۔ اسی سال سروے اینڈ لینڈ کار Survey and Land Record کے محکمہ میں سرویر Surveyer کے عہدہ پر نوکری ملی۔ ادبی دُھن سرپر سوار تھی اس لیے نوکری میں دلچسپی نہیں لی اور ملازمت چھوڑدی۔ اسی سال کئی صنفوں کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا۔ ان کے جوہر کھلنے لگے کھل کر اسٹیج پر آئے۔ بحیثیت شاعر کریم نگر کے بڑے بڑے جلسوں میں اپنی پہچان بنائی۔ 1963ء میں اقتصادی پریشانیوں اور غم روزگار نے ان کو کریم نگر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ سلطان شاہی میں اُن کا ابائی مکان تھا۔ یہیں آکر بس گئے۔ کریم نگر گاہے بہ گاہے جایا کرتے تھے۔ گوتمؔ زندگی بھر کریم نگر کو بھول نہیں پائے۔ وہ لکھتے ہیں ۔

’’کریم نگر کے حلقہ احباب کی ادبی محفلیں یاد آتی ہیں ۔ ہائے کیا دن تھے، کیا زمانہ تھا‘‘ حیدرآباد آنے کے بعد روڈ ٹرانسپورٹ میں نوکری مل گئی۔ انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا اور ترقی بھی ملی۔ لیکن نوکر ی ان کے ادبی مزاج کے مغائر تھی۔20/21 جون 1963ء کے ادبی اجلاس میں گوتم سروپ نے اپنے دو دوستوں کمال کریم نگری اور رشید درانی کے ہمراہ شرکت کی تھی۔ اسی اجلاس میں ہنس راج رہبر نے اردو کے رسم الخط کو دیونا گری میں بدلنے کی تجویز رکھی تھی۔ جس کی مخالفت گوتم سروپ نے فوراً کردی تھی اور کہا تھا’’اردو کا رسم الخط تبدیل کرنا اردو کو مٹادینے کے مترادف ہوگا‘‘
جناب گوتمؔ سروپ خدا پرست تھے لیکن مذہب کے نام پردقیانوسی خیالات اور بے بنیاد رواجوں کے وہ قائل نہیں تھے۔ چنانچہ اپنے ہی خاندان کی بابت اپنی ڈائری میں لکھا ہے۔’’میرے خاندان کے تمام افراد بہت قدامت پسند ہیں ۔ اس ایٹمی دور میں ان لوگوں کے خیالات پر ہنسی آتی ہے۔’’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو‘‘ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہوں ‘‘

گوتم مخلص انسان اور مہمان نواز شخص تھا۔ کسی رسالے سے ماخوذ دوستی کے متعلق مجھے اُس نے یہ سطور لکھوائی تھیں ’’ انسانیت نے ہزاروں برس پہلے پہاڑوں کی بلندی، جھرنوں کے ترنم، کلیوں کی معصومیت اور فرشتوں کے نور کو یکجا کرکے جس مقدس رشتے کو جنم دیا اسی کا نام دوستی ہے۔‘‘یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ گوتمؔ نے دوستی کے مقدس رشتے کو بخوبی نبھایا۔ وہ دوستوں میں ہر دلعزیز تھا۔ اس کی ڈائری کے اوراق میں کچھ دوستوں سے ناچاقی کا تذکرہ بھی موجود ہے لیکن ان دوستوں کا ذکر بھی بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے ۔ اس سے گوتمؔ کی دیانتداری اور کردار کی بلندی کا اظہار ہوتا ہے ۔گوتم نے جس گھرانہ میں شادی کی اس کے سارے افراد نہ صرف یہ کہ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ شعر و ادب کا اچھا ذوق بھی رکھتے ہیں چنانچہ گوتم کا رویہ ان کے ساتھ کافی پر خلوص اور ہم آہنگ تھا۔ ان کے مزاج اور ذوق کے لحاظ سے باتیں ہوتیں ۔ وہ انہیں اپنے ساتھ شعری نشستوں اور ادبی محفلوں میں لے جاتے۔

گوتم ؔاپنے دوستوں میں اور رشتہ داروں میں بے حد ہر دلعزیز رہا۔ جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا تب بھی مہمانوں میں گھرا ہوا تھا۔
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہردم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔
گوتمؔ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ 18!نومبر 2003ء کو گھر پر چھوٹی سی تقریب منعقد کی اور مہمانوں کو وداع کرنے کے کچھ دیر بعد ہی وہ دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ آبگینہ کوٹھیس لگ گئی۔گوتمؔ نے زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے اور پرکھا ہے۔ ہر قسم کے حالات کو خندہ پیشانی سے جھیلا ہے۔اپنے کلام میں ایک جگہ لکھتا ہے۔
سیلِ غم، موجِ تبسم، بوئے گل یاخون دل
ہیں تیرے عنوان کتنے اے کتابِ زندگی
مرتبہ تیرا کہاں اور گوتمؔ خستہ کہاں
تو سراپا زندگی ہے وہ خرابِ زندگی

سرویس کے بعد گوتمؔ کا بیشتر وقت ادبی محفلوں میں گزرتا تھا۔ غزل، رباعی، قطعات اور نظم پر اُنہوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ اردو رسائل اور دیگر کتابوں کا انہوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا شاعری کی ہر صنف میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے ۔ کلام میں بے پناہ پختگی تھی۔ جس محفل میں اپنا کلام سناتے غیرمعمولی داد و تحسین ملتی حمد اور نعت بھی نہایت عقیدت سے سناتے۔ انسان دنیا میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے اُسے کتنی ہی دولت اور شہرت حاصل کیوں نہ ہو روحانی تسکین کے بغیر یہ سب بیکار ہیں ۔ روحانی تسکین پانے کے لیے انسان ممکنہ کوشش کرتا ہے اور پھر اُسے یہ تسکین رام میں ملے یا رحیم میں وہ یہ نہیں دیکھتا۔ اس مقام پر آکر مذہب کی تنگ خیالی کی دیواریں گرجاتی ہیں ۔ اس کی نظم میں رام کرشن اور پیغمبر محمدؐ محدود دائرہ میں نہ رہ کر عظیم انسانیت کے لامحدود دائرہ کے علمبردار بن جاتے ہیں جہاں ہر انسان اپنی روحانی تسکین حاصل کرتا ہے ۔ گوتمؔ اسی روحانی تسکین کا متلاشی تھا۔ وہ حمد و نعت تعریف و تحسین کے لیے نہیں پڑھتا تھا بلکہ اپنی روحانی تسکین کے لیے پڑھتا تھا اور نہایت ادب سے پڑھتا تھا۔ چند شعر ملاحظہ ہوں ۔

عرش بریں پہ پاس بلایا، تاجِ فضیلت سرپر رکھا
میرے خدا نے میرے نبی کو مقبول و محبوب کیا!

مجھے یہ آتشِ نمرودِ دوراں کیا جلائے گی
نبی کے عشق کا دریا میرے سینے کے اندر ہے
شہنشاہ دو عالم کی قناعت دیکھنا گوتمؔ
چٹائی ایک سادہ سی، نہ تکیہ ہے نہ بستر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹھاکر لچھمن سنگھ (ایم ۔ اے عثمانیہ)، (گوتم کے برادر نسبتی)​

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply