تبصرہ کتب : دیپ جلتے رہے ۔۔۔ عفت نوَید۔۔۔۔ تبصرہ نگار: صادقہ نصیر

“دیپ جلتے رہے”کراچی میں مقیم محترمہ عفت نوید صاحبہ کی خود نوشت سوانح عمری یا  سرگزشت ہے ۔
عفت سے مری دوستی کی وجہ میری ایک تحریر تھی جو ایک میگزین میں شائع ہوئی اور انہوں نے اس پر مجھے جانے بغیر میری اس تحریر پر کھلے دل اور کھلے قلم سے حوصلہ افزائی کرتے ہوۓ سراہا۔ کسی بھی اچھے ادیب کا ہی یہ وصف ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے لکھنے والے خاص طور پر نئے لکھنے والے کے کام کا تعارف کراتے ہوۓ تنگئ دل اور تنگئ قلم سے کام نہیں لیتا۔


پھر انہوں نے میری مزید حوصلہ افزائی کے لئے میری کتاب پر بھرپور ریویو لکھا جس سے ان کی ادب دوستی اور ادب نوازی کا اندازہ ہوا۔ ان کی اس  ادب نوازی نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کا شکریہ ادا کروں ۔ کراچی میں مقیم عفت نوید کو فون کیا تو ان کی شخصیت کے مزید اوصاف سامنے آۓ۔ عفت ایک اعلی تعلیم یافتہ لاء گریجویٹ اور تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں اور دلچسپ انکشاف یہ بھی ہوا کہ وہ میر انیس کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر میر احمد نوید کی شریک حیات ہیں۔
دریں اثنا فیس بک پر “دیپ جلتے رہے” کے چرچے زبان زد عام ہوۓ تو تجسس ہوا کہ نام سے یہ ایک ناول نظر آتا ہے لیکن وضاحت یہ ہے کہ یہ محترمہ عفت نوید کی آپ بیتی ہے اور یہ کتاب ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی پا رہی ہے۔ یو ٹیوب پر یہ کتاب آڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں بھی موجود ہے ۔جس میں عفت نے اپنی اپ بیتی کو نہایت پر اعتماد آواز اور اردو کے بہترین تلفظ کے ساتھ اپنی کہانی کو سنا کر داستان گوئی کی روایت کو زندہ کیا ہے وہیں اپنے اہل زبان ہونے کا حق بھی ادا کیا ہے۔ریکارڈنگ کا معیار بھی بہت اعلی ہے کہ مصنفہ نے کہانی سناتے وقت واقعات، مناظر اور جذباتی لمحات کی مناسبت سے اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ کو جذبات و واقعات کے زیرو بم میں ڈھالا ہے جس سے سننے والے کو بھی ان کیفیات اور قلبی وارداتوں کو بہت قریب سے محسوس کرتے ہوۓ مصنفہ کی آپ بیتی میں ڈوب جانے کا سرور ملتا ہے۔


“دیپ جلتے رہے” کتاب پر نام کے مطابق ناول کا گمان ہوتا ہے لیکن کتاب کے مکمل مطالعے سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ ایک سچی کھری اور براہ راست کہانی ہے جس میں مصنفہ نے کہیں بھی فکشن کا سہارا نہیں لیا ۔ ان کی سچائی کا اندازہ یہاں سے لگاسکتے ہیں کہ ان کی اس خود نوشت میں تمام واقعات، کراداروں اور مقامات کے نام اور جذبات مکمل طور پر سچے ہیں۔ بالکل ایسے لگتا ہے کوئی اپنے کسی بہت قریبی کو اپنی بیتی سنا رہا ہے جیسے وہ کتھارسس کر رہا ہو۔  عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ بیتی میں وہ باتیں جو ہم زبان سے نہیں کہہ پارہے ہوتے وہ لکھ دی جاتی ہیں۔ خود نوشت سوانح حیات خواہ وہ کسی عام شخص کی ہوں یا خواص کی بظاہر یوں ہی لگتا ہے کہ زندگی کے عمومی نشیب و فراز اور روزنامچوں پر مبنی واقعات ہیں لیکن حقیقت میں ان عام سی سرگزشتوں میں مصنف کا ان عام وارداتوں اور واقعات اور اس پر بیتے دکھوں ،سکھوں اور خوشیوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا اپنا فلسفہ ہوتا ہے اور یہیں سے کسی بھی خود نوشت کا قاری ان میں سےحکمت کے موتی ڈھونڈھ نکالتا ہے۔ محترمہ عفت نوید نے بھی کمال فن سے اپنی آپ بیتی کو اپنی نظر سے دیکھا،اور ہر واقعے کو اپنے فلسفۂ حیات میں لپیٹ کر ادب کے حوالے کرکے ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے۔
بظاہر عفت نوید کے ہاتھوں تحریر ہونے والی یہ خود نوشت سوانح حیات ان کی اپنی آپ بیتی اور زندگی کی کہانی ہے جس میں عمومی تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے دکھوں ،مصائب اور جہد مسلسل سے تنگ آکر کتھارسس کی کوشش کی ہے اور ادبی تخلیق کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ فرد کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی لگتا ہے کہ عفت نے بھی ادب کے کاندھے پر سر رکھ کر اپنے آنسو گراۓ ہیں جو وہ بڑی بہادری سے پیتی رہیں۔ یہ ان کا حق ہے ۔ لیکن میں عفت کے ناقدین کو عفت کے دفاع میں چیلنج کرتی ہوں کہ اگر عفت نے ایسا کیا بھی ہے تو ٹھیک کیا ہے۔ وہ چاہتیں تو عام عورتوں کی طرح عام عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر گلے شکوے کرتی رہتیں اور اپنی اور دوسروں کی زندگی کو جہنم بنا دیتیں۔ ہمیں ان کی کتاب کو حرف بہ حرف پڑھ کر غور کرکے یہ معلوم ہوا کہ اس کتاب کے ذریعہ عفت نے بہت کچھ کہہ ڈالا جو ایک کمزور عورت نہ کہہ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے
“دیپ جلتے رہے” کہنے کو صرف عفت کی آپ بیتی ہے جو انہوں نے ہی تحریر کی ہے لیکن در حقیقت یہ دوافراد کی کہانی ہے عفت اور ان کے شریک حیات میر احمد نوید۔ یہ عجیب سی داستان ہے جس میں کبھی عفت مرکزی کردار کے روپ میں نظر آتی ہیں اور کبھی احمد نوید۔ یہ داستان اپنی نوعیت میں اس تصویر کی طرح ہےجس میں پس منظر اور منظر ذرا سی جنبش اور ارتکاز نگاہ کی کاوش سے یک ثانیے بعد بدل جاتے ہیں۔ ابھی غور سے دیکھا تو نظارہ کچھ اور تھا اور پلک جھپکی تو کچھ اور۔ نفسیاتی زبان میں اسے گراؤنڈ اور فورگراؤنڈ کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔ عفت نےاپنی خود نوشت میں گراؤنڈ اور فور گراؤنڈ کو جوڑے رکھنے کی بھرپور سعی کی ہے اوراس میں کامیاب رہی ہیں۔
پہلے ہی منظر میں یہ عفت کے شوہر احمد نوید کی کیس ہسٹری ہے جو شدید ذہنی امراض میں مبتلا ہیں اور عفت ان کی بیماری کا احوال لکھتی ہیں کہ شادی کے فورا بعد سے ہی عفت کو احمد کے بیمار ذہنی اور کرداری رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ احمد کی ہر پل بدلتی شدید ذہنی کیفیات شور شرابہ، مار دھاڑ اپنے آپ سے بیگانگی ، زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار, کئی کئی دن گھر سے غائب رہنا، روزگار میں عدم دلچسپی علاج سے گریزاں رہنا بلکہ علاج سے انکار وغیرہ یہ وہ رویے ہیں جو ذہنی مریضوں کا خاصہ ہیں۔ عفت ان رویوں کو تحریر میں لا کر ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہیں۔ اور جب وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح وہ شدید معاشی بحران سے گزرتے ہوۓ بھی اپنے شوہر کو سائیکاٹرسٹ کے تجویز کردہ انجکشن کے بر وقت لگوانے کا بندو بست کرتی ہیں ۔ ایثار اور قربانی کے علاوہ یہاں ان کی سائینسی سوچ اور ذہنی مرض کو دیگر جسمانی امراض کی طرح سمجھنے کا پیغام بھی ملتا ہے جب وہ کہتی ہیں کہ احمد کی بگڑتی حالت سے انہیں اندازہ ہو رہا تھا کہ انہوں نے یقینا انجکشن نہیں لگوایا ہوگایہ عفت کا خدشہ اور فکر تو ہے ہی مگر ان کی علاج کی اہمیت اجاگر کرنے کا پیغام بھی ہے۔ورنہ اگر وہ کوئی عام عورت ہوتیں تو اپنے شوہر کو کسی پیر فقیر کے پاس لے جاتیں۔وہ اپنے شوہر کی بیماری اس کے علاج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں کا بڑی بہادری اور سچائی سے ذکر کرتی ہیں اور اپنی دلی اور جذباتی کیفیات کو بھی کہیں نہیں چھپاتیں۔ دوسری جانب جب احمد نوید اپنے ہی مرض سے برسر پیکار ہیں  اور کرب میں مبتلا ہیں ،بادی النظر میں دیوانہ ارد گرد سے بیگانہ نظر آتا ہے مگر وہ اپنی منتشر ذات کے کرب کو کیسے سہتا ہے یہ وہی جانتا ہے۔ اس مقام پر یوں لگتا ہے وہ اپنی حد سے بڑھی ہوئی دیوانگی کے ہاتھوں لاچار اور بے بس نظر آتے ہیں اور قاری کی توجہ کھنچ لیتے ہیں اور اس لمحے بدلتے منظر میں اپنی جگہ بنا کر کہانی کا مرکزی کردار نظر آتے ہیں ۔شاید یہ بھی عفت کی شعوری کاوش ہو جب وہ لکھتی ہیں کہ جب احمد کو شدید دورہ پڑنے پر سرکاری ہسپتال کی گاڑی بلائی جو ایک جیل کی گاڑی جیسی تھی جس میں مینٹل ہسپتال کے جلاد صفت عملے نے انہیں بے دردی سے گھسیٹ کر گاڑی میں دھکیلا تو احمد بے بسی کے ساتھ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئے اور خالی نظروں سے جیل نما گاڑی کی کھڑکی کے شیشے سے ملتجیانہ نظروں سے سب گھر والوں کو دیکھتے رہے جیسے کہہ رہے ہوں میرا کیا قصور ہے۔ اور یہ سارا بیان بھی عفت کی حساس فطرت نے کیا ہے جس نے بڑی ہمدردی سے اپنے شوہر کی دلی کیفیت کو بھانپا ۔ اور جب گھر والے ایک ہفتہ بعد انہیں ہسپتال ملنے جاتے ہیں تو عفت ہسپتال کی غفلت، بے رحمانہ سلوک اور احمد جیسے تنو مند شخص کا ایک ہی ہفتہ میں لاغر ہوجانے پر بھی عفت سراپا احتجاج ہوتی ہیں یہاں یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ پاکستان میں ذہی مریضوں کے علاج معا لجہ کے لئے سہولتوں کا فقدان اور مریضوں کے اہل خانہ کی مشکلات کا گلہ شکوہ ہے جو کتاب پڑھنے والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ ارباب اقتدار اور اختیار کو یہ آواز پہنچائیں۔ مصنفہ عفت نوید کی اس سر گزشت میں عفت ایک بے انتہا مذہبی رواداری کے خیالات اور نظریہ رکھتی ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ وہ خود سنی ہیں اور شیعہ گھرانے کی بہو بنتی ہیں تو ان کے مذہبی عقائد کا احترام کرتی ہیں بلکہ شوہر کے شانہ بشانہ مجالس میں بھی شرکت کرتی ہیں۔ لیکن کئی مقامات پر وہ مذہب سے دور بھی نظر آتی ہیں ۔وہ لکھتی ہیں کہ ہم نے بچوں کی کبھی بھی مذہبی کنڈیشننگ نہیں کہ بلکہ انسان دوستی کا ہی سبق انہیں سکھایا ہے۔لیکن وہ دوسرے لوگوں کی دوسرے مسالک اور فرقوں کے بارے میں عدم برداشت اور عدم رواداری کا شکوہ بھی کرتی ہیں جب کراۓ کے مکانات کی تلاش میں ان کے مسلک کی وجہ سے مشکلات پیش آتی رہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ اس تحریر کے ذریعہ پاکستانی نظام تعلیم کی خرابیوں کا ذکر بھی کرتی ہیں۔عفت کی سوانح حیات میں زیادہ تر شادی کے بعد کی مشکلات کا تذکرہ ملتا ہے جس میں شدید مالی بحران اور روٹی کپڑے مکان کی تگ و دو شامل ہے جسے عفت نے بڑی بہادری اور سمجھ بوجھ کے ساتھ نمٹایا۔ لیکن اس بات پر زیادہ چونکا نہیں جا سکتا کیونکہ اس دنیا میں تقریبا ہر فرد ہی آلام روزگار سے دوچار اور آشنا ہے۔ عفت کی اس خود نوشت کا مرکزی کردار ان کی اپنے ذہنی بیمار شوہر کے ساتھ وفاداری اور انسانی بنیادوں پر دیکھ بھال اور عقلی فیصلوں کی بنیاد پر قرار دیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر کے ساتھ ہمدرد و غمگسار ہیں بلکہ ان کی والدہ کے ساتھ بھی ہمدردی رکھتی ہیں کہ بار ہا لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے اس دیوانے شوہر کو چھوڑ دیں اور خود بھی کئی بار دل برداشتہ ہوکر اس نہج پر پہنچیں کہ وہ انہیں چھوڑنے کا فیصہ کر لیا لیکن اپنی ساس یعنی احمد نوید کی والدہ کی آنکھوں آنکھوں میں ان سے احمد کو نہ چھوڑنے کی التجا ان کے قدموں سے لپٹتی رہی۔ اس سے یوں لگا کہ عفت جیسی خود مختار، بلند حوصلہ اور نڈر خاتون ماں کی ممتا کے لطیف اور گہرے جذبات نہ صرف رکھتی ہے بلکہ دوسری ماؤں کے جذبات کی بھی پاسداری کرتے ہوۓ انسانیت کی اعلی اقار کی علم بردار ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ عفت اس کہانی میں ایک دیوانے کی ہی شریک حیات نہی بلکہ ایک دل پھینک شاعر کی بھی شریک حیات ہیں جو اپنی شاعری کی وجہ سے ہر وقت حلقۂ یاراں میں گھرا رہتاہے جن میں اکثریت خواتین اور نو جوان خواتین شامل ہیں۔ یعنی ایک طرف دماغی دیوانگی اور دوسری طرف تخلیقی دیوانگی جو بیک وقت ایک تھیلے میں دو آزمائشی تحفے جنہیں عفت نے بھی اپنی خرد اور جنون کے امتزاج سے گندھی شخصی خواص کے ساتھ خوب سنبھالا اس طرح کہ تخلیقی دیوانگی کو بھی بقا بخشی اور یہ کمال فن زندگی ہے۔
دیوانگی اور فرزانگی کے گراؤنڈ اور فور گراؤنڈ کا تاثر دیتی ہوئی اس کہانی کا اختتام عفت کی انوکھی خواہش اور انوکھے جملے سے ہوتا ہے جہاں وہ کہتی ہیں کہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ان کے شوہر کو ان سے پہلے موت آۓ۔ مشرقی عورت کبھی ایسا نہیں کہتی کہ وہ بیوہ ہو جاۓ ۔وہ کہتی ہیں وہ ایسا اس لئے چاہتی ہیں کہ اگر وہ پہلے اس دنیا سے چلی جائیں گی تو ان کے دیوانے کی دیکھ بھال کون کرے گا۔
اس انوکھی منطق کے پیچھے سچے خلوص ، وفاداری کے علاوہ عفت جیسی نڈر عورت کا جذبۂ خدمت اور بے لوث انسانی ہمدردی ہے۔ اس مقام پر عفت بھی اپنے جنون محبت کا اظہار کرتی ہیں لیکن ان انسانوں کے لئے شرم دلاتا ہوا پیغام ہے جو اپنے جان سے پیارے ذہنی مریضوں کو مینٹل ہسپتالوں میں ساری زندگی کے لئے بے آسرا چھوڑ آتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں یا گھروں سے نکال کر فرزانوں کے پتھر کھانے گلیوں سڑکوں کی نذر کر دیتے ہیں۔
آخر میں یہ کہ یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کتاب کو حاصل کرنے کے لئیے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے
کتاب کے لئے رابطہ :03412809946

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply