میرے نبی جی ﷺ کا شہر اور رمضان۔۔۔عائشہ یاسین

مت پوچھو کیا مزہ ہے سرکار کی  گلی میں
اک جشن کا سما ہے سرکار کی گلی میں ۔۔

میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر مدینہ۔جب مدینہ کی  جانب سفر کا ارادہ ہوتا ہے تو تمام معاملات اور جذبات یکسر مختلف ہوجاتے ہیں ۔جب سے ہوش سنبھالا تو مدینہ منورہ کی گلیوں کے قصے سنے۔۔وہاں کی فضا کی پاکیزگی کی  بابت قصیدے پڑھے۔ ۔وہاں کی مہمان نوازیوں کی باتیں  سنیں ۔وہ کیا کچھ نہ تھا جو کانوں نے سن رکھا تھا اور آنکھوں نے پڑھ کر آرزوؤں کی چادر میں رکھ چھوڑا تھا۔ بالآخر قسمت نے ساتھ دیا اور رمضان المبارک کی آمد سے دو دن قبل جانا نصیب ہوا ۔

ماہ رمضان اک با برکت اور افضل ترین اسلامی مہینہ نصیب ہوا جاتا تھا ۔جس کا لمحہ لمحہ رحمت و فضیلت سے آراستہ ہے ۔جس کی رحمت و عظمت کو ہم سب جانتے ہیں ۔مسلمانوں کے لئے اک خاص تحفہ دیا گیا ہے اک تربیتی عمل ایک پروگرام جس کے تحت ہر  مسلمان کو پورے سال زندگی  گزارنی ہوتی ہے ۔ باطنی و ظاہری تمام معاملات کو پورے سال اسی طرح جاری رکھنا ہوتا ہے ۔ناصرف نفس کو حقوق اللہ کی طرف مائل رکھنا ہوتا ہے بلکہ حقوق العباد پر خاص توجہ دینی ہوتی  ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ میں نے اپنے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ منورہ میں دیکھا۔
مہمان نوازی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے کوئی  مدینہ والوں سے سیکھے۔ کیا اعلی اخلاق اور رویوں کا مظہر نظر آتا ہے۔ بے پناہ خلوص اور محبت کی چاشنی میں ڈوبے تبکرات کے کیا کہنے۔ ایسے سحر و افطار ہمیں بھی نصیب ہوئے۔ جس کا احوال حاضر خدمت ہے ۔

رمضان  المبارک  میں مدینہ کا رنگ ہی اور ہوتا ہے ۔افطار سے کئی  گھنٹوں پہلے روزے داروں کی خاطر داری کے لئے مدینے کے باسی مصروف عمل نظر آتے ہیں ۔سب کے انداز منفرد اور ادب و احترام سے مزین ۔ہر کسی کی کوشش کے مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو ۔ عجزوانکساری کا یہ عالم کہ اشیاء کے بانٹتے وقت نظر اٹھا کے دیکھتے نہیں اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کو رد نہیں کرتے۔
دسترخوان کا یہ عالم کہ  منظر آنکھوں میں سمانے سے قاصر ۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کے اطراف کی ساری سڑکوں پر ہرے رنگ کے دسترخوان دور دور تک دیکھے جاسکتے ہیں ۔ لوگوں کا اک سمندر ہے جو راہ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم  کے دستر پر براجمان ہے پر اک بات جو اس نگری کو جدا رنگ دیتی ہے وہ یہ کہ یہاں لینے والا بھی سوالی اور دستر سجانے والا بھی سوالی محسوس ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگری ہے۔ یہاں جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کی خدمت کے لئے چن لئے گئے ہیں ان کا ادب اور منزلت قابل دید و تحسین ہے۔

یہاں دینے والے سے زیادہ لینے والے کی مرضی چلتی ہے ۔۔۔۔لینے والا چاہے ایک لینا چاہے یا دس ،دینے والا بغیر کچھ کہے اور بلا تاخیر دیتا نظر آتا ہے ۔تعظیم کا وہ عالم کہ  کوئی  اونچی آواز میں بولتا  تک نہیں  ، کوئی  نظر کسی کا تعاقب نہیں کرتی کوئی  کسی کو نہیں تکتا۔ نہ کوئی  لڑتا دکھائی  دیتا ہے نہ کوئی  کسی کو رد کرتا ہے اور نہ دھتکارتا  ہے ۔
لوگوں کا ذوق اس قدر اعلی ہے کہ لوگوں نے دسترخوانوں کی قطاریں بانٹ رکھی  ہیں اس میں نہ صرف مدینے والے سر فہرست نظر آتے ہیں بلکہ پاکستانی ،انڈیں اور حبشی بھی ہیں۔لوگوں کی میزبانی ان کے لئے اعزاز سے کم نہیں ۔جبھی ہر روزے دار کو اپنے دسترخوان پہ دعوت دینا اور خود لے جاکر ان کی مہمانداری کرنا مدینے کا حسن ہے۔ میں وہاں کے لوگوں کو آپس میں بحث کرتے دیکھا کہ حاجی آپ ہمارے دستر پہ آئیں اور دوسرا کہتا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔
کیا منظر اور کیا نظارے میری آنکھوں نے دیکھے بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

ا س انداز محبت نے جیسے دل موہ لیا ۔آج جب اسلام کو آئے 1400سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے   تو مدینے کا اتنا دلکش اور دل فریب منظر ہے تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں سخاوت اور خلوص کا کیا عالم ہوگا ۔انصاری برادران کس قدر محبوب ہوں گے۔ یہ گلیاں یہ راستے آج بھی ان کے تقدس میں مہکتے ہیں ۔آج بھی بچیاں طلع ال بدرو علینا پڑھتی محسوس ہوتی ہیں ۔
آئے سرکار مدینہ
لائے انوار مدینہ ۔۔۔۔
یہی فضا گاتی محسوس ہوتی ہے ۔

مہمان نوازی یہاں تلف نہیں ہوتی بلکہ یہ تو جیسے شروعات ہے ۔نماز سے فارغ ہوتے ہی لوگ آپ کو ہاتھوں میں قہوے کے بڑے تھرماس لئے نظر آئیں گے ۔جی بھر افطار کے بعد عربی طرز پر بنا پودینہ کا قہوہ جسم میں  چستی بھرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔لوگ نہ صرف خود سیر ہو کے کھاتے نظر آتے ہیں بلکہ تھیلے بھی بھر بھر لے جاتے ہیں ۔ابھی بھی ہم مسجد کے حدود میں ہی ہیں جناب جہاں قہوہ پیش کردیا گیا ہے ۔اب ہم صحن تک بھی نہیں آتے کہ کبھی کوئی  ٹھنڈا لال شربت دے جاتاہے تو کبھی گرما گرم چائے ورنہ گھر کا بنا آلوبخارے کا مزے دار شربت اور دل اتنا مست و مسرور کہ کیا کہنے نبی جی صلی اللہ علیہ وسلم  پر قربان ،میں ایسی عزت افزائی پر ۔مسجد سے نکلتے ہوئے بے شمار لوگ آپ کو نظر آئیں گے جو ابھی تک دستر بچھاے آپ کو خوش آمدید کہے گے۔ مسجد کے اطراف سڑکوں پر بےشمار لوگ لبن یعنی دہی کی لسی ،میٹھا دودھ بڑے بڑے کولر وین میں لئے کھڑے ہوں گے اور لوگ آتے جاتے اپنی روح کو تراوت کرتے دکھائی  دیں  گے ۔

کچھ ایسا ہی آپ نماز عشاء اور تراویح کے بعد پائیں گے ۔۔۔۔۔۔صحن کے چپے چپے پر مدینے کے رہنے والے آپ کی آمد کے منتظر ہوں گے۔ عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کھانا اور چائے پیش کرتے نظر آئیں اور ہر طرف سے حاجی حجہ کے القابات سے مخاطب کرتے رہے گے ۔اتنی محبت اور اپنائیت کہاں ملتی ہے ۔نہ رنگ و نسل کی پرواہ اور نہ ہی روپے پیسے کی روک اور نہ ہی زبان کا فرق۔ یہ نگری تو اپنی نگری ہے۔ جہاں کسی کو فوقیت حاصل نہیں ۔ہر اک خدمت کے جذبے سے سرشار ۔نہ کوئی  بڑا نہ چھوٹا ۔نہ ادنا نہ عالی۔کیا لوگ ہیں اور کیا دلفریب منظر ۔ہر اک فدا ہے ۔ہر اک مودب ۔سب اک دوسرے کے لیے صلہ رحمی اور شفقت سے بھرپور۔صفائی  کرنے والےایسے اعلی ظرف کہ ماتھے پہ بل نہیں لاتے ۔بار بار مسکراتے ہوئے اپنی ڈیوٹی کرتے ہیں ۔کوئی  مسجد کی صحن میں سو رہا ہوتا ہے ۔کوئی  کھانا کھاتے کھاتے گند کردیتا ہے پر مجال ہے کہ یہ حضرات زبان سے کچھ کہیں  بس خاموشی سے آکر اپنی مطلوبہ جگہ صاف کی اور آگے چلے گئے۔

مسجد نبوی کا صحن اک باغ کی مانند ہے ۔جہاں سے سبز گنبد کا نظارہ آنکھوں کو سکون بخشتا ہے تو دوسری طرف ہستے مسکراتے اور کھلکھلا تے بچوں کا شور مسکان پھیلادیتا ہے ۔وہاں بچوں کو آزادی ہے۔بچوں کو نہ روکا جاتا ہے نہ ٹوکا ۔وہاں ان کی بادشاہت چلتی ہے ۔آتے جاتے لوگ بچوں کو پیار کرتے اور دعا دیتے جاتے ہیں ۔ کبھی کوئی  ان کو ٹافی دے جاتا ہے تو کبھی جوس چاکلیٹ یا بسکٹ اور اگر بچے شرارت کرتے ہوئے کسی سامان کو نقصان پہنچا دے تو ناراض ہونے کے بجائے ان کو ٹافی دی جاتی ہے۔ہیں نہ جادو کی نگری کے پیارے لوگ۔ کیا ہیں یہ تو مدینے جاکے ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔ وہاں کی فضا وہاں کے مکیں وہاں کی صبح وہاں کی شام آج بھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو میں بسی ہوئ ی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ آج بھی حسین اور اعلی اخلاق کا نمونہ ہے ۔خوش اخلاقی کا تاج آج بھی مدینہ والوں کے سر پر جگمگاتا ہے اور تاحیات جگمگاے گا۔
مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ ۔۔۔۔
نبی کا شہر ہے یہ شہر مدینہ۔۔۔۔
کیاجذبیت ہے کیا پر کیف فضا ہے۔محبت ہی محبت ۔نوازشیں ہی نوازشیں ۔بخشش ہی بخشش۔اگر یقین نہ آئے تو خود جاکے دیکھ آئیں ۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ۔۔۔۔
اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ماہ رمضان مدینے میں گزار آئیں ۔۔۔۔۔آمین ثم آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply