کارپوریٹ جنرلز اور جنرل حمید گل ۔۔۔رعایت اللہ فاروقی

آج میرے بڑے اساتذہ میں سے ایک جنرل حمید گل رحمہ اللہ کی برسی ہے۔ اس ملک کے جمہوریت پسندوں کی سوئی ان کے حوالے سے ہمیشہ آئی جے آئی پر اٹکی رہی اور یوں اپنی تحریک کے لئے جو فکری قوت ان سے حاصل کی جاسکتی تھی وہ حاصل کرنے میں یہ ناکام رہے۔ آپ جانتے ہیں وہ برملا اور دوٹوک بات کرنے والے انسان تھے۔ ایسے لوگوں سے یا بے پناہ عقیدت ہوجاتی ہے یا بے پناہ نفرت۔ ان کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ جنہیں ان سے عقیدت ہوئی بے پناہ ہوئی اور جنہیں ان سے ایلرجی ہوئی بے تحاشا ہوئی۔ لیکن کسی کو ان کی دو بہت ہی اہم باتوں پر غور کی توفیق نہ ہوئی۔ میں چاہتا ہوں آج آپ کو انہی باتوں کی جانب متوجہ کروں تاکہ مشرقی روایت کے مطابق “مردہ پرستی” کا بند وبست ہوسکے۔

پہلی بات یہ کہ وہ ہمیشہ پوری قوت کے ساتھ کہتے تھے

“میں نے آئی جے آئی بنائی، اس جرم میرا ٹرائل کیا جائے، مجھے عدالت طلب کرے اور مجھ سے پوچھے کہ میں نے یہ کام کیوں کیا ؟ اور پھر بیشک مجھے لٹکا دے”

جمہوریت پسند الو کے پٹھے یہ سمجھتے رہے کہ یہ کوئی “ٹریپ” ہے جبکہ اس موضوع پر میری خود ان سے کئی بار تفصیلی گفتگو ہوئی تھی، چنانچہ میں جانتا ہوں کہ ان کے پیش نظر چیز یہ تھی کہ “سیاست میں فوجی مداخلت” کا ایک باقاعدہ سسٹم موجود ہے۔ جب تک اس سسٹم پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا آئی جے آئی اور پی ٹی آئیاں بنتی رہیں گی۔ میں نے ان سے یہاں تک کہا

“یہ تو آپ قوم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، اودھر عدالت آپ کو بلائے گی اور ادھر آپ کا ادارہ سپریم کورٹ کا بازو مروڑ دے گا کہ خبردار جو ہمارے ارسطو کو کچھ کہا !”

انہوں نے بہت ہی بھرپور انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا

“جب میرا ادارہ ایسا کرے گا تو حمید گل اس معاملے میں اپنے ادارے کے ساتھ نہیں سول سوسائٹی کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا اور اس کی مزاحمت کرے گا”

اسی چیز کو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں بعض انٹرویوز میں تھوڑا مزید بھی کھولا تھا۔ لیکن وہ اپنے سارے پتے کبھی شو نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ زیادہ تفصیل میں نہیں گئے لیکن افتخار احمد والے دوسرے “جوابدہ” میں انہوں نے کہا

“فوجی افسر کو یہ تحفظ دینا ہوگا کہ وہ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کرسکے۔ موجودہ وقت میں اگر کوئی غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کرے گا تو ملکی قانون اے کوئی تحفظ نہیں دے گا، ہمیں “اَن لاء فل کمانڈ” سے انکار کی گنجائش پیدا کرنی ہوگی”

جانتے ہیں وہ یہ کیا کہہ رہے تھے ؟ وہ کہہ رہے تھے کہ ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کے پاس یہ قانونی طاقت ہونی چاہئے کہ جب آرمی چیف اور ٹین کور کا کمانڈر اسے وزیر اعظم ہاؤس پر قبضے کا حکم دے تو وہ یہ کہہ کر انکار بھی کردے کہ “میں اس غیر آئینی اور غیر قانونی حکم کو نہیں مانتا” اور اس کی جاب بھی محفوظ رہے۔ آرمی چیف کیا پوری فوج مل کر بھی ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ اگر افسر انکار کردے تو اسے حکم عدولی کے مجرم کے طور پر اس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں اور ملکی قانون اسے کوئی تحفظ نہیں دیتا۔ اسی لئے وہ کہتے تھے

“میرا ٹرائل کرو”

وہ اپنے ٹرائل کے ذریعے اس غلاظت کو جڑ سے اکھڑوانا چاہتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے مان لیا جائے کہ آئی جے آئی بنانے والا حمید گل اتنا جمہوریت پسند بھی ہو سکتا ہے ؟ تو یوں مان لیا جائے کہ جب جنرل ضیاء نے محمد خان جونیجو کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا تو اسے اس منصوبے کو اپنے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل سے چھپانا پڑا اور اس کے باوجود آئی ایس آئی نے اپنے باس کو خبردار کردیا کہ جنرل ضیاء جونیجو کو ہٹانے لگے ہیں۔ جانتے ہیں جب جنرل حمید گل کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے کیا کیا ؟ انہوں نے اپنے باس وزیر اعظم پاکستان کو “ٹاپ سیکریٹ” رپورٹ دیتے ہوئے اپنے آرمی چیف اور صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے منصوبے سے آگاہ کردیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جونیجو کو رخصت کرنے کے کچھ عرصے بعد جنرل ضیاء نے جنرل حمید گل سے پوچھا

“کیا یہ درست ہے کہ آپ نے جونیجو کو میرے عزائم سے آگاہ کردیا تھا ؟”

“جی سر ! یہ درست ہے !”

“آپ نے ایسا کیوں کیا ؟”

“کیونکہ یہ میری آئینی ذمہ داری تھی، میں وزیر اعظم پاکستان کے ماتحت ہوں اور انہیں باخبر رکھنا میری ڈیوٹی تھی”

یہ سوال میرے قارئین کے لئے میں تشنہ ہی چھوڑ دیتا ہوں تاکہ وہ اس پر خود غور و فکر کرسکیں کہ جونیجو کے معاملے میں جنرل ضیاء سے مذکورہ مکالمہ کرنے والا حمید گل کچھ ہی عرصے بعد آئی جے آئی بناتا کیوں نظر آتا ہے ؟ اور وہ کیوں بہت زور دے کر کہتا تھا کہ “میرا ٹرائل کرو !”

ایک اور بہت ہی اہم بات جس کا ہمارے کمبخت جمہوریت پسند فائدہ نہ اٹھا سکے یہ تھی کہ جنرل حمید گل کو ملتان کور سے ہٹا کر ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کا چیئرمین لگانے کا حکم نامہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز نے امریکہ سے جاری کیا تھا۔ آپ اس زمانے کے اخبارات نکال کر دیکھ لیجئے جنرل آصف نواز امریکہ میں ملیں گے۔ دوسری بات یہ کہ یہ وہی آصف نواز ہے جس نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی ڈیل امریکیوں سے کرلی تھی لیکن “سسٹم” حرکت میں آیا اور پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔ فوج کے اس نظام کو داد تو دینی پڑے گی کہ جب اپنا چیف بھی قومی سلامتی کے لئے “رسک” بن جائے تو سسٹم تب بھی حرکت میں آتا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ جب ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کا چارج لینے کے احکامات اس وقت کے کور کمانڈر ملتان جنرل حمید گل کو موصول ہوئے تو اس نے اس حکم نامے کی پشت پر یہ لکھ کر واپس بھجوادیا

“میں فوج میں ٹینک چلانے کے لئے آیا ہوں ٹیک بنانے کے لئے نہیں”

نتیجہ یہ کہ جبری ریٹائرڈ کردئے گئے۔ پاک فوج کے ارسطو کو خود اس کے کارپوریٹ جنرلز نے لات مار کر اسی فوج سے باہر پھینک دیا کیونکہ اس نے “کارخانہ” چلانے سے انکار کردیا تھا۔ اسی مسئلے کو وہ افتخار احمد والے دوسرے جوابدہ میں کیا شاندار انداز سے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ جب افتخار ان سے پوچھتے ہیں

“آپ نے ہیوی انڈسٹریز کا چارج لینے سے انکار کیوں کردیا ؟”

“کیونکہ میں ایک سپاہی ہوں فیکٹری منیجر نہیں ہوں، ایک فوجی کا کیا کام ہے کہ وہ کارخانے چلائے ؟ کیا ہم فوج میں فیکٹریاں چلانے کے لئے بھرتی ہوتے ہیں ؟”

“جنرل صاحب ! آپ بہت بڑی بات کر رہے ہیں، اس وقت بھی کچھ جرنیل یہ ذامہ داریاں ادا کر رہے ہیں، کیا وہ فیکٹری منیجر ہیں ؟”

“جی ہاں ! وہ جرنیل نہیں فیکٹری منیجر ہی ہیں”

Advertisements
julia rana solicitors london

ذرا مجھے بتائے اتنے دبنگ طریقے سے کس مائی کے لعل نے کارپوریٹ جنرلز کو ذلیل کیا ہے ؟ کیا آپ کی اس پہلو کی جانب توجہ بھی ہے یا یہ بھی مجھے ہی بتانا پڑے گا کہ جنرل حمید گل فوجی سیمنٹ یا فوجی فرٹیلائزر کی نہیں اس ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کی بات کر رہے ہیں جو فوجی ہتھیار بنانے والا کارخانہ ہے۔ ذرا سوچئے جس حمید گل کو فوجی کارخانے میں بیٹھا جنرل بھی “فیکٹری منیجر” نظر آتا تھا وہ فوجی سیمنٹ والوں کو کس نظر سے دیکھتا رہا ہوگا ؟ انصاف سے بتائے جب جنرل حمید گل یہ باتیں کر رہے تھے تو سول سوسائٹی نامی پکوڑے فروش ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ؟ یہ اس لئے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے کہ سول سوسائٹی کے پکوڑوں کے لئے تیل کہیں اور سے آتا ہے۔ جنرل حمید گل میں اور ان پکوڑے فروشوں میں یہ فرق ہے کہ یہ کہتے ہیں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو فوج کو کمزور کرو، جبکہ جنرل حمید گل کہتے تھے فوج نہیں اس کے “سیاسی کردار” کو کمزور کرو۔ یہ کہتے ہیں آئی ایس آئی کے پر کاٹ دو اور جنرل حمید گل کہتا تھا آئی ایس آئی کو مزید طاقتور کرو مگر اس کا سیاسی ونگ ختم کرو !

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply