خلائی مخلوق؟ (3)/وہاراامباکر

ملاڈینو کہتے ہیں، “میرا خیال ہے کہ زمین کے باہر زندگی موجود ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے اس خیال کے حق میں کوئی بھی شواہد نہیں۔ میرے لئے یہ ایک faith کی پوزیشن ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملاڈینو اس سوال کا صاف گوئی سے جواب دیتے ہیں اور اس میں روایتی انداز نہیں اپناتے۔ لیکن یہاں پر فیتھ سے ملاڈینو کی مراد کیا ہے۔
کارل سیگن کا کہنا ہے کہ، “اگر آپ کے پاس کسی چیز کے حق میں شواہد نہ ہوں اور آپ اس پر یقین کرنا چاہیں تو یہ آپ کا faith ہے”۔
ساگان اسے “شواہد کی عدم موجودگی میں یقین” (Belief in absence of evidence) کہتے ہیں۔
اور اس وجہ سے ملاڈینو اپنی اس پوزیشن کو faith کی بنیاد پر کہتے ہیں۔ اور اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ غیرارضی زندگی پائی جاتی ہے تو یہ faith ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ اگر سیگن کی ایک اور بات کا حوالہ دے کر یہ کہیں کہ “شواہد کی عدم موجودگی کا مطلب عدم موجوگی کے شواہد کا ہونا نہیں”۔ تو یہ بھی ایک اچھا نکتہ ہے۔
کیونکہ اگر آپ یہ یقین رکتے ہیں کہ غیرارضی زندگی یقیناً نہیں پائی جاتی تو یہ بھی faith ہی ہے۔
یہاں پر ذہن میں رکھنے کی ایک بات یہ کہ کسی بھی طرح کا faith رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ صرف اتنا کہ ہمیں یہ پہچان لینا چاہیے کہ ہمارے کونسے خیالات اس بنیاد پر ہیں۔
ابھی تک جتنا ہم جانتے ہیں، اس کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
Everything we know about our ‘galaxy’ is currently compatible with lonely galaxy.
غیرارضی ذہانت کے بارے میں اس سے بڑھ کر کوئی بھی پوزیشن “سائنسی” نہیں کہی جا سکتی۔ یہ تفریق کسی سائنسدان کے لئے اہم ہے۔ اور کئی نامور سائنسدانوں کی طرف سے اس سوال کے جواب میں پراعتماد بیانات میں مسئلہ ہے۔
کیونکہ اگر آپ سائنسدان ہیں تو پھر اپنی دلچسپی یا کھوج کے موضوع پر ناکافی ڈیٹا کی بنیاد پر مضبوط رائے قائم کر لینا نہ صرف غلط بلکہ خطرناک ہے۔ کیونکہ کسی خاص یقین کو اپنا لینا expectancy blast کی طرف لے جاتا ہے۔
اور یہ وجہ ہے کہ ابتدائی تین مثالوں میں جن سائنسدانوں سے سوال کیا گیا، انہیں ہاں یا نہیں کے بجائے “معلوم نہیں” کہنا چاہیے تھا۔ اگرچہ آپ کو اپنی کوئی بھی ذاتی رائے رکھنے کا حق ہے لیکن آپ “بطور سکالر” اپنی رائے دے رہے ہیں تو پھر یہاں پر ذمہ داری دکھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ توقع یہ کی جاتی ہے کہ یہ کسی بنیاد پر ہو گی، نہ کہ faith یا امید پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نفسیات میں expectancy blast کی سٹڈی نصف صدی سے ہو رہی ہے۔ مختصر یہ کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ اسے کسی چیز کے جواب کا علم ہے تو وہ اپنی رائے کا اثر دوسروں پر بھی ڈالتا ہے۔ اور یہ verification bias کا سائیکل شروع کر دیتا ہے۔
اس کی مشہور مثال پرسیوال لوول تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ایک بہت قابل اور ماہر آسٹرونومر جنہیں یقین تھا کہ مریخ پر خلائی مخلوق رہتی ہے۔ اور پھر کیا ہوا؟
انہوں نے جب مریخ کو ٹیلی سکوپ سے دیکھا تو اس میں لکیروں کے جال نظر آئے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مریخ کی خلائی مخلوق کی کھودی گئی نہریں ہیں۔ وہ ان کے نقشے بناتے رہے۔ کئی دہائیوں تک بہت سے لوگ اس خیال کے قائل رہے کہ مریخ میں نہروں کا جال ہے۔
لوول کی بصارت بہترین تھی۔ (وہ جو دیکھ رہے تھے، وہ اپنی آنکھ کی پتلیوں کے آگے کی خون کی vessels تھیں)۔
ان کی آنکھ کے ڈاکٹر نے بھی انہیں بتایا تھا کہ ان کی نظر بہت اچھی ہے۔ اور اس نے ان کے یقین کو دوچند کر دیا تھا کہ چونکہ ان کی نظر اتنی زبردست ہے تو پھر وہ جو دیکھ رہے ہیں، وہ درست ہے۔ یہ reinforcement bias ہے۔
اکیسویں صدی میں ہمیں علم ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ اور مریخ بے آب و گیاہ مردہ دنیا ہے۔ لیکن ڈیٹا سے پہلے یقین رکھنے کا یہ نقصان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ۔
سائنس evidence کی بنیاد پر ہے۔
ایسا کوئی evidence نہیں جو بتاتا ہو کہ زمین سے باہر کہیں زندگی پائی جاتی ہے۔ (اور نہ ہی اس کی عدم موجودگی کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے)
اس بارے میں optimism کی بھی کوئی اچھی وجہ نہیں۔ صرف خود کو دیکھ کر اندازہ لگانا بے بنیاد ہے۔
جہاں پر faith کی بنیاد پر پوزیشن رکھنے میں حرج نہیں لیکن سائنس کے سوالات میں جواب اس بنیاد پر نہیں دینا چاہیے۔ اگر ایک بار ایک چیز کے بارے میں کسی ایک جگہ پر پیر پھنسا لیا تو یہ واپس نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک اور بھی جگہ جہاں پر ہمیں ممکنہ ذہین زندگی مل سکتی ہے۔
سپیس ناقابلِ بیان حد تک وسیع ہے لیکن ایک اور ڈائمنشن بھی ہے جو وسعت میں کم نہیں۔ یہ وقت کی ہے۔ کیا ماضی میں ذہین زندگی وجود رکھتی ہو گی؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply