شعر،شاعری اور شاعر۔۔عارف خٹک

بندہ شاعر ہو، مشاعروں کا شوقین ہو، ہر روز قریہ قریہ نگر نگر گھوم کر ہجوم دیکھ کر آپے سے باہر ہوجائے یہ اچھنبے کی بات ہرگز نہیں ہے کہ میری محبوب کی کمریا بائیس انچ کی ہے۔ فگر وہی ہے جو کاماسوترا میں ہزاروں سال قبل عیاں کیا گیا ہے۔ وہ سانس لیتی ہیں تو سینے کے زیرو بم سے پوری کائنات ہل جاتی ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ میاں اگر ایسا کچھ ایک خاتون شاعرہ لکھے کہ ‘میرا محبوب جب سانس لیتا ہے تو بتائیں بھلا کون سی چیز ہلے  گی؟۔
سو سال سے اپنے ہاں بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ بقول داغ
لے لیے ہم نے لپٹ کر بوسے
وہ تو کہتے رہے ہربار یہ کیا
آگے چچا غالب گویا توپ داغتے ہیں
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں

Advertisements
julia rana solicitors

چلیں یہ فنون لطیفہ ہے پشاور کا یہ پٹھان کیا جانیں۔۔ تشبیہ،استعارہ،کنایہ ،علامت مگر اس بات پر سخت احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں کہ اکیلے گالیاں میں کیوں کھاؤں؟۔ میں اکیسویں صدی میں رہ کر جو گندی بات نثر میں کرتا ہوں وہ میرے بزرگوں نے صدیوں پہلے فنون لطیفہ کا جامہ پہنا کر کی  ہیں۔ خود کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں کہ واقعی صدیوں بعد لوگ مجھے بھی عزت دیں گے؟۔
بلکہ اگر درجہ بالا اشعار آپ کرک یا وزیرستان میں کسی کو پشتو میں ترجمہ کرکے سنا دیں  تو یقینا ًآپ کا سر کھول دیا جائیگا کیونکہ ہم جو کچھ محبوب کیساتھ تنہائیوں میں کرتے ہیں مجال ہے کہ اس کا ذکر سرعام  کرپائیں، جو ایسا کرتا ہے اس کیلئے پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے۔
کہتے ہیں کہ خوبصورت لوگ اپنی بات آسانی سے منوا سکتے ہیں مگر نفسیات داں کہتے ہیں کہ خوبصورت لوگوں میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ میں ہرگز اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرے نفی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آجکل ڈیجیٹل زمانے میں بھی لوگ محترمہ فاخرہ نورین کو سنتے ہیں۔ محترمہ فرح رضوی کو سنتے ہیں بقول ایک بزرگ کے کہ فاخرہ نورین کے مشاعروں کیلئے وہ ہر اس جگہ جا پہنچتے ہیں جہاں اس کا مشاعرہ برپا ہونے کی اطلاع ہو۔ مجھے اس کی غزل ہمیشہ اچھی لگتی ہیں۔ پوچھا فاخرہ نورین کی کون سی غزل پسند ہے؟۔ میری شکل دیکھی پھر گویا ہوئے
مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہم سایہ  ء خدا ہے
میں وا ء منہ کیساتھ ان کو دیکھا کیا کہ چچاجان یہ تو اپنے غالب کی اشتعال انگیزیاں ہیں۔ بے اعتنائی سے چہرہ موڑا کہ “ظالم کی آنکھیں اتنی خوبصورت ہیں کہ اب کون شعر سنے اور سمجھے”۔
محرم میں جیسے ہمارے نوے فی صد ملحدین بھائی “مرگ بر یزید سلام است حسین” کی آوازیں لگاکر ہم مذہب پسندوں کو ایک دفعہ پھر پورے سال کیلئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے دیتے ہیں ایسے ہی المیوں میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور تہذیب حافی کے جیسے آرٹیفیشلز جون ایلیاز کھمبیوں کی طرح اچانک اُگ آتے ہیں۔ والدہ ان کو زبردستی کھانسی کا شربت پلا دیتی ہیں تاکہ نشہ ہوکر بچہ سکون کیساتھ رات بسر کرسکے مگر یہ نگوڑے گھونٹ بھرتے ہی فیس بک یا ٹویٹر پر بیٹھ کر لکھتے ہیں۔
“پائل چھنک رہی ہے نگار خیال کی
کچھ اہتمام رقص کرو میں نشے میں ہوں
میں ڈگمگا رہا ہوں بیابان ہوش میں
میرے ابھی قریب رہو میں نشے میں ہوں”
شاعر تو پھر بادشاہ لوگ ہیں مشکل الفاظ بول کر کھسک لیتے ہیں برا ہو نثرنگار کا جس کو بیگم سو روپے پکڑا کر سبزی لینے بھیجتی ہیں تو مرزا سلیم جیسوں کو یاد  آجاتا ہے کہ کامونکی شریف جیسے شہر میں بیگم حضور نے شلوار میں ازاربند کے بجائے الاسٹک ڈالی کر دی ہے۔ اور بچہ بار بار اس کی شلوار کھینچ کر سرکس دیکھنے کی ضد کررہا ہے۔ اوکاڑہ کا ظفر اقبال سال بھر میں محض ایک ماہ چھٹی پر اپنے پنڈ وارد ہوتا ہے تو پورا مہینہ بیگم جان کو یقین دلانے میں کٹ جاتا ہے کہ آپ کا میاں ناول نگار ہے اور پانچواں ناول “حاتم طائی جدید” آنیوالا ہے۔ بیگم کے جوابات یقیناً وہی ہوں گے جو میری والی کے ہوتے ہیں “دنیا کے سارے ویلے تیرے پاس اکٹھے ہیں۔ تیری طرح فارغ ہیں سارے کے سارے۔ جس دن مروگے ان سے جگتیں لگوا کر درگور کراؤں گی۔ ان شاءاللہ
ایسے لوگ اگر خوبصورت نازنینوں کیساتھ تصویریں کھینچوا کر وال پر نہ لگائیں تو کیا کتابیں لکھیں؟۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply