سویلین بالادستی کا خواب۔۔عبدالحلیم

پاکستان میں سویلین بالادستی کی تبلیغ کو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ مادرِ ملت متحرمہ فاطمہ جناح کا ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینا ہو یا ایم آر ڈی کی تحر یک، سویلین بالادستی کا خواب اب بھی تعبیر کا منتظر ہے۔ بظاہر ملک میں متفقہ آئین نافذ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو انقلابی پیش رفت بھی قرارد یا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود سویلین بالادستی کا حصول تشنگی کا شکار ہے۔ امید تھی کہ موجودہ عہد میں ظہور پذیر اپوزیشن اتحاد یعنی پی ڈی ایم سویلین بالادستی کے قیام کے لیے تاریخ رقم کرے گی، لیکن پی ڈی ایم شاید خود تاریخ بننے جا رہی ہے۔

پی پی پی جو سوشلزم کا نعرہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘ لے کر آئی تھی اور چھا بھی گئی لیکن رفتہ رفتہ اس جماعت کی ہیئت اور حیثیت کی چادر میں چھید پڑگئے۔ ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی قومی جماعت ہوا کرتی تھی، اب اس کی وہ حیثیت نہیں رہی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کی اہم وجہ پی پی پی میں روایتی سیاست کی پود کا پیدا ہونا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی پی پی نے جمہوریت کے قیام کے لیے لازوال قربانیاں پیش کی ہیں اور اس کے جیالوں نے آمریت کا مردانہ وار مقابلہ بھی کیا ہے لیکن اب اس میں وہ رومانس باقی نہیں رہا جس کی وجہ تسمیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ پی پی پی مصلحت پسندی کا شکار ہوگئی ہے۔

پی پی پی کا مؤقف ہے کہ پی ڈی ایم اس کی خواہش پر بنی تھی لیکن پی ڈی ایم کے مبینہ دھڑن تختہ کا الزام بھی پی پی پی پر لگایا جا رہا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں پی پی پی کے مرکزی رہنما سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کی غیرمعمولی فتح کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ شاید پی ڈی ایم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی لیکن سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے بعد ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کی مثال غالب آ گئی اور نظام کو ہائی جیک کرنے والوں کی نیت کا پتہ بھی چل گیا۔

پی ڈی ایم کی جدوجہد کا محور کوئی چھبیس نکات تھے۔

لیکن جب سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کے چناؤ کا وقت آیا تو پی ڈی ایم میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ جب پی پی پی نے دیکھا کہ بات نہیں بن رہی ہے تو اس نے حکمران جماعت کے اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کو اپنے ساتھ ملا کر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپنا قائد حزبِ اختلاف منتخب کرا لیا۔ جماعت اسلامی سینیٹ کے مجموعی اور اس کے بعد چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں غیر جانب دار رہی تھی۔ جماعت اسلامی کا اس حوالے سے مؤقف تھا کہ ملک کو جو حالات در پیش ہیں اس کا ذمہ دار موجودہ حکمرانوں کے علاوہ سابقہ حکمران بھی ہیں، اس لیے وہ اس گناہِ بے لذت میں شامل نہیں ہو سکتے۔

حیرانی کا امر یہ ہے کہ پھر یہی جماعت اسلامی، پی پی پی کو سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کے لیے اپنا تعاون پیش کرتی ہے۔ سیاست میں اس کو دہرے معیار کا نام دیا جا رہا ہے۔ خیر، بات ہو رہی تھی سویلین بالادستی کی مگر پی ڈی ایم میں شگاف کے بعد جمہوریت پسند قوتوں کو اس کے لیے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک مرتبہ مرحوم حاصل خان بزنجو نے کہا تھا ’’جب بھی ملک میں جمہوریت کے قیام کے لیے راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہے تو قومی دھارے کی بڑی جماعتیں جُل دے کر اپنی چادر اپنا پاؤں کے مصداق ”کچھ لو کچھ دو“ پر اکتفا کر لیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں سویلین بالادستی کی امید دم توڈ دیتی ہے‘‘۔

سویلین بالادستی کے لیے ایک طویل اور صبر آزما جدو جہد درکا ہے لیکن فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اسے مصلحت پسندی کہا جائے یا حصہ داری کا حصول، بجا ہی ہوگا۔ نظام کی تبدیلی تمام کشتیاں جلانے کے اصول کا تقاضا کرتی ہے لیکن جب یہاں نظام میں حصہ داری کو ترجیح دی جائے تو سویلین بالادستی ایک خوش نما نعرہ ہی ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ مفاہمت یا زیرک نظری اچھی چیز ہے لیکن مفادات کا ٹکراؤ اور دہرا معیار اس کو عیب دار بناتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ دہرے معیار کی مٹی سے آلودہ ہوگئی ہے۔

پی پی پی موجودہ حکمرانوں کو سلیکٹڈ کا طعنہ دیتی ہے لیکن دہرے معیار کا یہ عالم ہے کہ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کے چناؤ کے لیے پی پی پی نے اس باپ پارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جس پر بھی خود سلیکٹڈ کا طعنہ موجود ہے۔ اسی طرح ن لیگ پر بھی مصلحت پسندی کے گرداب میں پھنس جانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں رائے عامہ کا ایک بڑا حلقہ کسی معجزہ کی امید رکھنے کو آب و سراب سمجھتا ہے۔ جس کی اہم وجہ اس میں دہرے معیار کا سرایت کر جانا ہے۔ کیوں کہ اقتدار کے حصول اور نظام سے منفعت کا چسکا سویلین بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاسی قوتوں کے قول و فعل میں موجود دہرے معیارات اور تضادات کی وجہ سے یہ تاثر موجود ہے کہ وہ اقتدار یا نظام سے منفعت کے لیے لڑ تی ہیں اور سویلین بالادستی یا نظام کی تبدیلی ثانوی چیزیں ہوتی ہیں۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب سمجھوتوں پر اکتفا کیا گیا اور جو جیسا ہے اس پر چلنے کی عادت اپنائی گئی۔ اگر ان کا محور سویلین بالادستی ہوتی تو وہ سمجھوتوں سے گریز ضرور کرتیں۔ اس بداعتمادی نے تبدیلی کی امیدوں کو محدود کر دیا ہے۔ یہ رویہ جمہوری نظام کی مضبوطی کی بجائے عوام کا اس نظام پر سے بھروسہ ختم کر دیتا ہے۔

Facebook Comments