گلاسکو : کلچرل ایشیاء کے زیرِاہتمام کامیاب مشاعرہ /طاہر انعام شیخ

مشاعرے برصغیر پاک و ہند کی ثقافت میں ایک ایسی تہذیبی روایت ہیں جس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ ان میں زبان و کلام کے ساتھ ساتھ ادب و آداب اور تقدس کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا مشاعرے تقریبا ً300 سال قبل شروع ہوئے اور دہلی ان کا مرکز بنا۔ ان کو یہاں تک اہمیت ملی کہ شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر قلعہ معلی میں مشاعرے منعقد کرایا کرتے تھے۔

جب لکھنؤ مسلم حکومت تہذیب کے ایک مرکز کے طور پر اُبھرا تو شاعری اور مشاعروں نے وہاں بھی بے پناہ عروج پایا ۔تعلیم کے فروغ اور ذرائع آمدورفت میں آسانیوں کے بعد مشاعروں کی روایات برصغیر کے کونے کونے میں پھیل گئی اور کئی ریاستوں کے نواب بڑے بڑے مشاعرے کرانے لگے۔

مشاعرے پہلے غزل پر مشتمل ہوتے تھے بعد ازاں اس میں نظم بھی شامل ہو گئی اور یہ صرف لب و رخسار اور عشق و محبت تک محدود نہ رہے بلکہ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر بھرپور توجہ مبذول کرانے لگے ۔ سیاست میں جو بات شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی شعر اء اشاروں کنایوں میں اسے بیان کرکے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے لگے ۔

جب برصغیر خصوصاً پاکستان سے لوگ رزق کی تلاش میں باہر نکلے تو اپنے ساتھ مشاعروں کی روایات بھی ساتھ لائے اور فکرِ معاش سے ذرا فرصت ملی تو روح کی تسکین و فرحت کے لیے مشاعروں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ ان افراد نے دیار ِ غیر میں ان مشاعروں کے ذریعے اردو زبان کوزندہ رکھنے اور اس کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

سکاٹ لینڈ میں اردو مشاعروں کے انعقاد کا سہرا سب سے پہلے ڈاکٹر محمد شفیع کوثر اور ان کی بیگم آپابتول کے سر جاتا ہے۔ جنہوں نے حلقہ ادب و فن کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور یہاں بے شمار مشاعرے منعقد کرائے جن میں پاکستان کے نامور شعراء بھی شامل ہوتے۔

یہ وقت برطانیہ میں اردو زبان کے عروج کا وقت تھا۔ ہال مکمل طور پر بھرے ہوتے اور یوں لگتا تھا جیسے ہم دیار غیر میں نہیں اپنے آبائی وطن عزیز پاکستان میں بیٹھے ہیں۔ ان کےساتھ ہی اس زمانے میں احمد ریاض نے ادبی محور کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور یوں خود اپنے اور دوسروں کے ادبی ذوق کی تسکین کا باعث بنتے رہے۔ کونسلر شوکت بٹ مرحوم جو کہ پاکستان کے معروف شاعر قتیل شفائی کے داماد تھے ان کے ہاں بھی پاکستان سے آنے والے شعراء کا تانتا بندھا رہتا اور مشاعروں کی محفلیں جاری رہتیں۔

ملک غلام ربانی اور حنیف راجہ بھی اس سلسلے میں خاصے متحرک رہے۔
اب گلاسگو میں گزشتہ 20سال سے راحت زاہد نے ادب اور مشاعروں کی ترویج کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور وہ تقریبا ً ہر ماہ باقاعدگی سے بزم شعر و نغمہ گلاسگو کے پلیٹ فارم سے مشاعرے و ادبی پروگرام منعقد کرتی ہیں۔ ان کے ساتھیوں میں مسز الماس میر، مسرت سعید، زاہد مرزا، ڈاکٹر اللہ نواز، مسعودسلیم زاہد، ناصرہ چوہدری مسز ستار، عائشہ قریشی، یاسمین علی، نصرت نوشی صادق اور حمیدہ چودھری وغیرہ شامل ہیں۔

ایڈنبرا میں بزم اردو کے پلیٹ فارم سے سعیدمجید خاں، ڈاکٹر طارق منیر ، جلال الدین چودھری اور شاہدہ علائوالدین نے بڑی تعداد میں بڑے بڑے مشاعرے منعقد کرائے جہاں برطانیہ بھر سے شعرا ء کو بلایا جاتا۔

آج کل طاہر بشیر ادبی ڈیرا کے پلیٹ فارم سے اہل شوق کے ذوق کی تسکین کا سامان کر رہے ہیں۔
گلاسگو میں محمد اظہر نے قلم قبیلہ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس میں انعام الحق انعام اور گل محمد وغیرہ شامل ہیں۔
سید صفدر جعفری، سید ناصر جعفری، امتیاز علی گوہر، فرح ملک، شبنم خلجی اور اشرف شیخ نے کلچرل ایشیاءکے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے، وہ وقتا فوقتا مشاعرے اور دیگر ادبی پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔

چند روز پیشتر کلچرل ایشیا کے پلیٹ فارم سے ایک پر وقار مشاعرہ منعقد ہوا۔ پاکستان کے قونصل جنرل ادب دوست شخصیت سید زاہد رضا جو پاکستانی کمیونٹی کے کاموں میں بھرپور تعاون فراہم کرتے ہیں نہوں نے مشاعرے کے لیے پاکستانی قونصلیٹ کا ہال مہیا کر دیا جبکہ قونصلیٹ کے سٹاف ممبران ربنوازہیڑ، چوہدری شبیر اور محمد عقیل نے اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کیے۔

مشاعرے کی نظامت کے فرائض سید صفدر جعفری نے ادا کیے جو کہ ایک بہترین کمپیئر اور الفاظ کے بادشاہ ہیں ۔ ان کا منفرد اندازادائیگی الفاظ اور موضوع میں جان ڈال دیتا ہے۔ انہوں نے سید محسن نقوی کی برسی کی مناسبت سے ان کا کلام شاندار طریقے سے پیش کیا۔

سید زاہد رضا نے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ میری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کی بہتری کے لیے اپنی ہر ممکن مدد کر سکوں۔یہاں کی ادبی تنظیمیں اپنے آبائی وطن پاکستان اور اس کی زبان اردو کی ترقی و ترویج کے لیے جو کوششیں کر رہی ہیں میں ان کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتا ہوں ۔

مشاعرے سے راحت زاہد، امتیاز علی گوہر، انعام الحق انعام پاکستان سے آئے ہوئے مشہور صحافی و کمپیئر شکیل قمر، شمشادغنی، مسزکشورصباحت، مسرت سعید، مدیحہ شکیل، معصومہ حسین، سید ناصر جعفری اور اشتیاق احمد نے اپنا اپنا کلام سنا کر حاضرین سے زبردست داد وصول کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں تمام مہمانوں کی پُر تکلف کھانے سے تواضع کی گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply