آزادی،آزادیء رائے اور معاشرہ

معاشرے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ معاشرہ انسانوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔رہ گیا معاشرے کے سدھار یا بگاڑ کا معاملہ تو وہ سراسر افراد کے سدھار اور بگاڑ سے منسلک ہے۔اچھا معاشرہ ان افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو عوام میں ظلم, جبر, زیادتی, رشوت ستانی, بے حیائی اور حق تلفی کو پنپنے نہیں دیتے۔ جبکہ برے معاشرے میں افراد اچھے معاشرے کے متضاد ظلم, جبر, زیادتی, زیادتی, رشوت ستانی, بے حیائی اور حق تلفی کو پروان چڑھاتے ہیں۔لوگوں کو جب من پسند اشخاص کی برائی برائی نہ لگے،جب من پسند لوگوں کی زیادتی زیادتی نہ لگے۔جب من پسند لوگوں کی رشوت ستانی رشوت ستانی نہ لگے۔جب من پسند لوگوں کا ظلم ظلم نہ لگے۔جب من پسند لوگوں کی بے حیائی بے حیائی نہ لگے۔جب لوگ من حیث القوم شخصیت پرستی کی دلدل میں اتر جائیں تو معاشرہ صرف بگاڑ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ تباہ ہوجاتا ہے۔عوام برے معاشرے میں تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر تباہ معاشرے میں زندگی کا دوسرا اور اصل نام جیتے جی موت ہے۔قوم کا وجود تب نابود ہو جاتا ہے جب دھڑے بن جاتے ہیں۔آزادی کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اور قوم پس پردہ ذہنی غلامی کی جکڑن کا شکار ہوجاتی ہے ۔ہر دھڑے کا سرکردہ جب الگ سمت کی طرف لے کر گامزن ہو تو آپس میں پھوٹ پڑتی ہے۔

اتحاد اور نفاق کے مابین ایک معمولی سے لکیر ہی ہے جودونوں کو الگ رکھتی ہے۔جسے ہم مہذب لوگ “آزادی رائے اظہار” کا “اختیار” کہتے ہیں۔اس آزادی اس اختیار نے سوائے ملت کا شیرازہ بکھیر کر عوامی سطح پر”میں”،”میرا”،”میرے لیئے”،”میں ہی کیوں؟” جیسی سوچ کو پروان چڑھانے کے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔اس آزادی ،اس اختیار نے معاشرے کو سوائے “تو کافر تو کافر”،”میں جنتی میں جنتی”اور “تو غلط تو غلط” اور”میں صحیح میں صحیح”کے علاوہ دیا کیا ہے۔اس آزادی اس اختیار نے عوام کوکھوکھلے نعروں, جھوٹے وعدوں, بدنما کرداروں, مذہبی و سیاسی منافرت, مذہبی وسیاسی فرقہ واریت, قومیت و لسانیت, افرا تفری و لالچ, بے حیائی و بے شرمی, شخصیت پرستی, تقلید و بھیڑ چال اور منافقت و نفاق کے علاوہ کچھ نہیں دیا ۔

کیا اس آزادی اس اختیار کا شعور اور اس کا استعمال ہی سب سے بڑی کامیابی ہے؟کیا اس آزادی اس اختیار کا بے باک اور بے دھڑک استعمال منفیعت بخش ہی رہا؟کتنے فیصد مثبت نتائج اس آزادی اس اختیار کی بدولت حاصل ہوئے؟ہم عوام بھی نہ رہے, ہم معاشرا بھی اچھا تشکیل نہ دے پائے, ہم ملک بھی سنبھال نہ پائے اور ہم قوم بھی نہ بن پائے۔مگر ہاں ہم اس پر خوش ہیں کہ اس آزادی اس اختیار کی بدولت ہم لبرل بن گئے, متشدد بن گئے, سیاسی بن گئے, لسانی بن گئے, مسلکی بن گئے, کاروباری بن گئے اور ہماری آزادی اور اظہار کا اختیار محفوظ ہے۔بات پھر وہیں آکر ختم ہوتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ معاشرے کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ معاشرہ انسانوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔اگر بطور معاشرہ ہم جڑے رہنا اور متحد رہنا چاہتے ہیں تو آزادی اور آزادی رائے اظہار کی اہمیت کا غلط مطلب اخذ کرنا اور اس کا بے لاگ استعمال ترک کرکے منظم اور با اخلاق طریقہ استعمال اپنانا ہوگا۔

آزادی بری چیز نہیں بلکہ ایک نعمت خداوندی ہے مگر آزادی دراصل ایک احساس ہے اختیار نہیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔آزادی انسانیت کو وسعت اور جلا بخشتی ہے مگر خودمختاری غرور اور تکبر کا شکار کردیتی ہے۔آزادی کو آزاد رہنے دو۔۔۔آزادی کو آباد رہنے دو،ہم آزاد ہیں مگر آزاد نہیں ہیں۔کیونکہ ہم نے آزادی کو خودمختاری سے بڑھ کر کچھ نہیں جانا۔اور اس سوچ نے سنگین مقابلے بازی, حرص اور لالچ کو پروان چڑھایا ہے۔ظلم اور زیادتی کی بنیادی وجہ کسی با اختیار کا ظالم اور جابر ہونا نہیں بلکہ آزادی کو خودمختاری جان کر لوگوں کی آزادی دراصل خود مختاری کو سلب کرنے کا جنون ہی دراصل وجہ ہے۔جب حقارت اور حوس دل میں گھر کر جائے تو رعایا ہی اولین دشمن لگتی ہے۔اور جب دشمن آپ کے سامنے ہو تو آپ اپنے لالچ کو آزادی کا نام دے کر بچانے پر جت جاتے ہیں جہاں سے معاشرہ بگاڑ کی جانب گامزن ہوتا ہے اور جب معاشرے میں دھڑے ذاتی خواہشات و مفادات کی خاطر بن جائیں تو معاشرہ تصادم کا شکار ہو کر تباہ ہوجاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال آزادی ایک نعمت ہے اور آزادی رائے اظہار ایک سخت اور اہم ذمہ داری ہے بطور فرد اور بطور معاشرہ۔اگر ان کا فرق برقرار رکھ کر ان کا درست استعمال کیا جائے تو اچھا معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔یہ مشکلات میں سے تو ہو سکتا ہے مگر ناممکنات میں نہیں۔آزاد رہو اور آزاد رہنے دو۔آزادی کی قدر کرو اس کو سزا مت بناؤ۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply