دیکھیں جی ، تبدیلی تو واقعی آ ئی ہے ۔۔۔سیٹھ وسیم طارق

گزشتہ روز کراچی کی سڑک پہ ہونے والے غیر اخلاقی عمل کی وجہ سے جس طرح پورا  سوشل میڈیا حرکت میں آیا  اور جس کے نتیجے میں  ڈاکٹر عمران چند گھنٹوں بعد متاثرہ شخص سے معافی مانگنے اس کے گھر چلا گیا۔ اور اس کے علاوہ تحریک انصاف کا رکن ہونے کے ناطے ایسا کرنے پہ ڈاکٹر عمران کو شوکاز نوٹس بھی ایشو کیا گیا۔ یہ سب کیسے ہوا کیوں ہوا ؟ یہ حیرانی اس لیے کیونکہ پہلے تو ایسا نہ ہوا کرتا تھا۔ پہلے تو سامنے کھڑی عورت کو ربڑ کی گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا تھا تو کچھ نہ ہوتا تھا بلکہ انصاف کے رکھوالے بھی ابھی تک کچھ نہیں کر پائے۔ جب ایک متکبر آدمی مجھے کیوں نکالا کا بین ڈالے سڑکوں پہ اپنی مہنگی ترین گاڑی  پہ سوار ہو کر احتجاج کر رہا تھا تو ایک معصوم کلی کو کھلنے سے پہلے ہی سڑک پہ روند دیا گیا لیکن سوشل میڈیا پہ کوئی واویلا نہیں ہوا تھا اگر ہوا بھی تو مخالف لوگوں نے یہ معاملہ اٹھایا، لیکن وہ اصل تبدیلی یہ نہیں۔ مخالف تو آپ کے برے عمل پہ آواز اٹھاتے ہی ہیں اصل تبدیلی تو یہ ہے کہ آپ کے حمایتی یہ آواز بلند کریں وہ تنقید کریں ، وہ آپ کا گریبان پکڑیں تبدیلی تب ممکن ہو گی اور الحمداللہ یہ تبدیلی آرہی ہے۔ لوگ کو شعور آنا شروع ہو گیا ہے۔

آج کل سیاست ہی موضوع  ِ گفتگو ہے۔ آپ جہاں دیکھیں  سیاست ہی کی بات ہو رہی ہو گی۔ چائے خانہ پہ بزرگ لوگ اور کیفے سنوکر کلبوں میں جوان لوگ سیاست پہ بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک میں نے اسٹیشن پہ کھلیتے ہوئے بچوں کو بھی سیاست پہ ہی بات کرتے ہوئے سنا ہے۔ یہ سب پہلے نہ ہوا کرتا تھا۔ بزرگوں کی گفت و شنید آپس کا حال احوال پوچھنے اور اس کے طبی مشوروں پہ محیط تھی۔ جوان لوگ کھیل کود میں مصروف رہتے تھے اور بچوں کو بنا ناڑے والی شلوار(جس نے پہنی ہوتی تھی) سنبھالنے سے فرصت نہ ملتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے سکول میں جنرل نالج کا ایک پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں اساتذہ اکرام اکٹھے ہو کر طلباء سے سوال و جواب کیا کرتے تھے۔ میں نہم کلاس میں تھا۔ کتابی سوالوں کے جواب تو سب دے دیا کرتے تھے لیکن سیاسی سوالوں کے جواب  میں چند ایک ہاتھ ہی کھڑے ہوتے تھے۔ کسی کو دلچسپی نہ تھی تو جواب کیسے آتے۔ لیکن آج آپ سوشل میڈیا پہ دیکھ سکتے ہیں کہ جن کے دودھ کے دانت نہیں نکلے وہ بھی سیاست پہ اتنا اچھا تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگ حیران ہو جائیں ۔ کون صادق ہے اور کون امین نہیں ہے یہ آج سب کو معلوم ہے۔

دیکھیں جی شعور تو لوگوں میں آیا ہے اسی لیے تو موبائل پکڑ کر ہر جگہ ہر بندہ صحافی  کا کردار  ادا کرتا نظر آتا ہے۔ نواز چور ہے ، زرداری ڈاکو ہے ، اور عمران خان نشئ ہے ۔۔۔۔۔ یہ جملے صرف مخالفین بولا کرتے تھے لیکن میں نے دیکھا کہ عمران خان کے غلط فیصلے پہ بہت سے انصافینز نے برائے تنقید یہ جملے کہے کہ لگتا ہے خان صاحب واقعی نشہ کرتے ہیں ورنہ ایسا فیصلہ نہ کرتے۔ فاروق بندیال کے پارٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ جو کیا تھا اس کا حشر ہی دیکھ لیں کیا ہوا تھا۔ اس کے برعکس دیکھیں تو وہ لوگ بھی موجود ہیں جو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ جی دیکھیں اگر کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ نواز شریف ہی ہمارے مائی باپ ہیں۔ ہم لوہے کے چنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ فاروق بندیال کی پارٹی میں شمولیت پہ لوگوں نے رولا ڈالا تو اس کو پارٹی  سے نکال دیا ورنہ وہ نون لیگ میں تو پہلے تھا ہی پھر چلا گیا لیکن کسی نے پھر اس کی نون لیگ میں شمولیت پہ آواز نہیں اٹھائی۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اس جماعت پہ تنقید کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جس کے بارے میں ایک اماں جی نے ایک صدر کو دعا دیتے ہوئے کہا تھا کہ جا پتر اللہ تجھے پٹواری بنائے۔ اب یہ دعا تھی یا بددعا اس کے بارے راویوں میں اختلاف ہے۔

وہ عورتیں جو سارا دن پورے محلے کی  خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی   لالچ کے منتقل کیا کرتی تھیں وہ بھی آج کل سیاسی گفتگو میں بھر چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ اور ہر گھر جا کر یہی بتاتی نظر آتی ہیں کہ ” نی پتا چلیا جے ؟؟ عدالت نے نواز شریف تے اودی کڑی نوں جیل کر دتی اے تے نال اودی کڑی دے  بندے نوں وی ۔۔ پتا نئیں  کی ناں اے اودا لیکن کہندے نیں کہ اودا بندہ بڑا شریف سی” لے آپاں شریف کاہدا، او علی دے ابا دس رئے سن کہ اوہنے نواز دی کڑی نال نس کے ویاہ کیتا سی ۔۔۔۔ ہا ہائے لے دس فیر تے جیل ہونی چائی دی سی مر جانے نوں، کسے دی دھی ہپن نوں نسا کے ای لے گیا ۔۔۔۔ او سچ آپاں میں سنیا اے کہ لمبرداراں دا منڈا وی کسے دی کڑی نسا کے لے کے آیا اے ۔۔۔  اے سچ اے کہ نئیں ۔۔۔ سچ اے پیناں دنیا چوں تے شرم حیا اونج ای مک گئی اے ۔۔۔ ( اگر کسی کو پنجابی نہیں آتی تو پھر وہ اس بات کو سمجھ بھی نہیں سکتا اس لیے اردو ترجمہ نہیں کروں گا) ساس بہو جو کبھی آٹے  میں نمک کم یا زیادہ ہو جانے پہ آگ بگولا ہو جایاکرتی تھیں وہ بھی ایک دوسرے سے پوچھ کر ووٹ کاسٹ کرتی نظر آئی ہیں کہ ” پتر دسیں کینوں ووٹ پاواں توں تے پڑھی لکھی ایں مینوں کیہ  پتا میں تے ان پڑھ ہوئی ۔۔۔۔ پچھلی دفعہ وی تیرے ابا جی نے پتا نئیں کیہنوں ووٹ پوا دتا سی ۔۔۔ ایس دفعہ نئیں میں اودی مننی ۔۔۔ توں دس میرا پتر !!

اس کے علاوہ اس مرتبہ14  اگست کو جو واضح اہم تبدیلی دیکھنے کو ملی وہ پہلے کبھی نہ تھی میری مراد اس باجے سے ہے کہ جس نے ہر ایک کی بجا کے رکھ دی تھی اور  میرے جیسا تقریبا ً ہر بزرگ خادم رضوی کی بیعت کرتا نظر آیا۔ جو بچے فقط گوند سے اپنے گھر کی چھتوں پہ کاغذی جھنڈیاں لگانے پہ اکتفا کر لیا کرتے تھے وہ بھی اس دفعہ باجے بجاتے نظر آرہے تھے۔ اور بجا ایسے رہے تھے کہ جیسے صور پھونک رہے ہوں۔ اور یہیں پر ختم نہیں جب رات کو باجے بجنے ذرا بند ہوئے تو شیطان کے شاگردوں نے انباکس میں بجانے شروع کر دیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا تبدیلی ہم سے ہے اگر ہم خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے  تو کوئی بھی ہمیں تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہ شعور جو اب آپ لوگوں میں آ رہاہے خدارا اسے اپنے اندر قائم رکھیے گا کیونکہ اب یہ ملک کس اور لیڈر کی آزمایش   کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔۔۔ جو ملا ہے اسی کو ہی کامیاب بنائیں اس کے اچھے فیصلوں پہ تمام تفرقہ بازی سے بالاتر ہوکر حمایت کریں اور غلط فیصلے پہ اس کے حامیوں سے گزارش ہے کہ یونہی اپنا کردار ادا کرتے جائیں انشاءاللہ پاکستان ترقی ضرور کرے گا۔۔۔ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔ اللہ کریم ہم سب کو اپنے اپنے حقوق مانگنے کے ساتھ اپنے اپنے  فرائض ادا کرنے کی بھی توفیق دے۔۔۔ ہمیشہ مثبت  سوچیے!

Facebook Comments

سیٹھ وسیم طارق
ھڈ حرام ، ویلا مصروف، خودغرض و خوددار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply