میرا خواب میرا پاکستان

14 اگست 1947 تاریخ کا وہ روشن ترین دن ہے جب میرے آباواجداد کی قربانیاں رنگ لائیں اور ان کے خواب کو تعبیر ملی۔ یہ خواب انہوں نے میرے لیے دیکھا تھا ایک آزاد اور خودمختاراسلامی ملک کا خواب۔ جہاں میں آزادی سے اپنی زندگی کو اسلامی نظریات کے مطابق بسر کر سکوں ۔ آج 6 دہائیوں بعد ان کا خواب کچھ یوں شرمندہ ِ تعبیرہے کہ،
اگر میں خود کو مکمل طور پہ اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں تو روشن خیال طبقہ مجھ پہ انتہاء پسند کا لیبل لگا دیتا ہے۔
اگر دنیا اور دین کو جدید دور کے مطابق لے کے چلنےکی کوشش کروں تو مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو تکلیف ہو جاتی ہے اور میں بے دین کہلاتا ہوں۔
اگر میلادِ مصطفیﷺ کا جشن مناوں اور کسی ولی کا سہارا تلاش کروں تو مجھے مشرک قرار دے دیا جاتا ہے۔
اگر غمِ حسینؑ میں دو آنسو بہا دوں تو مجھے کافرکہا جاتا ہے ۔۔۔
اگر صحابہ ؒ سے اظہارِ عقیدت کر دوں تو دشمنِ اہلیبیت بن جاتا ہوں۔
ہاں مجھے پاکستان میں اتنی مذہبی آزادی ضرور ہے کہ میں جسے دل چاہے کافر اور مشرک کہہ دوں،، اور جسے دل چاہے مردِ مومن بنا دوں۔
اتنی مذہبی آزادی کا تو میرے آباواجدادنے سوچا تک بھی نہ ہو گا۔
میرے آباواجداد نے میرے لیے غیروں سے آزادی کا خواب دیکھا تھا مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے مجھے یہ آزادی برطانیہ سے دلوائی ہے کہ یہود و نصاریٰ سے، اگر مجھے برطانیہ سے آزادی دلوائی تھی پھر تو میں بہت آزاد ہوں اور اگر یہود و نصاریٰ سے تو یہ ان کی خوش فہمی ہی تھی، آج 6 دہائیوں بعد برطانیہ ہم پہ براہ ِ راست قابص نہیں ہے مگر امریکہ اور آئی ایم ایف کی شکل میں یہود و نصاریٰ جو چاہتے ہیں ہم سے منوا لیتے ہیں اور اپنے چیلوں کے ذریعے میرے ملک پہ حکومت بھی کر رہے ہیں۔
میرے آباواجداد نے مجھے آزادی لے کے دی تھی کہ میرے جان و مال محفوظ رہیں اور آج 6 دہائیوں کے بعد میرے جان و مال یوں محفوظ ہیں کہ صبح گھر سے نکلتے وقت گھروالوں کو آخری بار الوداع کہہ کے آتا ہوں ۔۔کیا پتا اب کی بار اگر میں دہشت گردوں اور قاتلوں کا نشانہ بننے سے بچ گیا تو کہیں محافظوں کی گولیوں کا شکار نہ بن جاوں۔
میرے آباواجداد اپنی الگ پہچان چاہتے تھے تو آج دہشت گردی اور کرپشن کے میدان میں پاکستان کی خوب پہچان بن رہی ہے۔
پچھلی 6 دہائیوں میں جہاں اس ملک کو دو لخت کر دیا گیا تو وہیں کبھی مارشل لاء آیا تو کبھی ملااِزم ،کبھی روشن خیال اور آج کل مفامت کی سیاست کا دور ہے ۔اقتدار کی باریا ں لگائے بیٹھے ( پہلے تواڈی باری تے پھر ساڈی باری والے ) سیاست دان ملک کو کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں اوپر سے اوپر لے کے جانے کی ،جی جان سے کوشش کر رہے ہیں اور اگر یہ کوششیں اسی طرح ہوتی رہیں تو ایک ،دو دہائیوں بعد ہم سب سے آگے ہوں گے۔
میرے آباواجداد نے جس خواب کی تعبیرکے لیے بےتحاشا قربانیاں دی تھیں آج 6 دہائیوں بعد اس خواب کی نامکمل تعبیر شاید ان کی روحوں کو بھی تڑپاتی ہو گی ،کیوںکہ ہم نے پاکستان کے لیے زمین توحاصل کر لی پر ویسی آزادی اور نظام زندگی حاصل نہیں کر پائے جیسا انہوں نے سوچا تھا ۔
اس لیے اب کے میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں خود مختار، کرپشن سے پاک ، عوام کے پاکستان کا خواب، ایسے پاکستان کا خواب
جہاں نفرت، فرقہ واریت ، کرپشن اور طبقاتی تفریق نہ ہو۔
جہاں بے انصافی ، حق تلفی نہ ہو اور سچ بولنے پہ زبانیں نہ کاٹی جاتی ہوں۔
جہاں پیار ہو، امن ہو، مساوات ہو ،ماں ،بہنوں کی اور بزرگوں کی عزت ہو۔
جہاں پولیس بلکہ ہر سرکاری ادارے کی پہچان عوام کی خدمت ہو۔
جہاں والدین کو غربت کی وجہ سے اپنی اولادوں کو نہ مارنا پڑے۔
مختصر الفاظ میں میرا خواب پیار، امن، مساوات اور انسانیت کا ترجمان اور نفرت، دہشت گردی، طبقاتی تفریق اور فرقہ واریت سے پاک پاکستان ہے۔
میرے آباواجداد خوش قسمت تھے کہ انہوں نے پاکستان بنانے کا جو خواب دیکھا اس کی تعبیر کے لیے ان کو بے لوث اور مخلص لیڈربھی مل گے تھے اور سچے کارکن بھی، مگر مجھے اپنے اردگرد کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا جو میرے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے اور ہم عوام کے پاس بھی ملک کے لیے سوچنے کی فرصت کہاں ہے ۔سارا دن محنت کے بعد دو وقت کی روٹی مل جائے تو کافی ہے۔
یہ خواب میرے آباو اجداد کے خواب کی مکمل تعبیر ہے، لکھنے کی حد تک سوچنے کی حد تک میں بہت کچھ سوچتا ہوں پر سچ کہوں تو میں بھی سب جیسا ہوں یا شاید ان سے بھی کم تر ۔
کیوں کہ لوگ کم از کم اپنی ذات کے ساتھ تو مخلص ہیں میں تو اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکا۔ تو اپنے پیارے پاکستان کے لیے کیا کر سکوں گا ۔ویسے بھی خواب دیکھنے میں کیا ہے جو مرضی خواب دیکھو اب سب خواب شرمندہ ِ تعبیر تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

محمدیاسرعلی
اصل نام یاسرمحمود ہے تعارف کے لیے نام کے سوا کچھ بھی نہیں ایک مزدور ہوں اور مزدوروں کی کون سنتا ہے اس لیے جو لکھتا ہوں اس کو محمد یاسر علی کی خود کلامی کا نام دے دیتا ہوں اور اس کو یاسرنامہ کہہ کے خوش ہو لیتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply