امجد شعیب ہمیں پاکستانی ہی رہنے دیں ۔۔۔ میثم اینگوتی

یہ چودہ اگست کامبارک دن تھا۔میں اٹھا اور دن بھر کی اور خاص کر چودہ اگست کی تقریب کی ذمہ داریوں کابوجھ مزید قریب تر دیکھتے ہوئے سخت اضطراب اور ذہنی کشمکش میں مبتلاتھا۔ مجھے اپنے ادارے کی طرف سے یوم آزادی کے پروگرام کی مکمل ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ ناشتے کے بعد میں نے دیکھا کہ بہت سے دوستوں نے ایک ویڈیو لنک شئیر کی ہے۔ مجھے لگا کہ کوئی خاص بات ہے ۔ بدقسمتی سے جب میں نے لنک پر کلک ہی کیاتھا کہ 92 نیوز چینل کا کوئی پروگرام سکرین پرنمودارہوا جس کی میزبانی سنئیر اینکرپرسن محمدمالک کررہے تھے اور چند دیگر مہمان بشمول دفاعی امور اور سیکیورٹی کے نام نہاد دانشورجنرل امجدشعیب دیامر( گلگت بلتستان) میں حالیہ دہشت گردی کے پے درپے واقعات پر گفتگوفرمارہے تھے۔
میں جو ایک جوشیلا اور سچاپاکستانی بن کر چودہ اگست کی تقریبات منعقد کرانے اور دیکھنے میں جتاہواتھااتناچکرا کر بیٹھ گیا۔ میں اپنی آنکھوں ، کانوں اور دل پر یقین کرلیتایا امجد شعیب کی اس ہذیانی گفتگوپر۔ میں نے رات بھر سکردو کی مسجدوں،عمارتوں اور پہاڑوں پر چراغاں کاسماں دیکھاتھا۔ میں نے دن بھر گلیوں، بازاروں، چوراہوں اور گھروں پر جیوے جیوے پاکستان کے نغمے سناتھا۔ میں نے جنگ آزادی سے لے کر 65 اور71 کی جنگ، کرگل سے لے کر دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ ہر میدان میں بلتیوں کوسرسے کفن باندھ کر نہ صرف لڑتے دیکھا بلکہ کئی عزیزوں کی خون میں لت پت لاشے بھی فخرسے وصول کی تھیں۔
جنرل امجد شعیب نے بلتی قوم کے ساتھ یہ خیانت کی کہ وہ اپنے موضوع سے بالکل ہٹ گئے۔ دیامرسکول جلانے ، سیکیورٹی فورسز کو قتل کرنے اور دیگر دہشت گردانہ کےتناظرمیں بحث ہورہی تھی لیکن جنرل صاحب دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اس واقعے اور اس کے ذمہ داروں کو مکمل معاف کرتے ہوئے اہلیان بلتستان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ آپ کا ارشاد یوں تھا کہ دیامر میں وقوع پذیر دہشت گردی کےواقعات پریشان کن نہیں ہیں۔ اصل پریشانی بلتیوں سے ہے جوکہ مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک میں بسلسلہ روزگار بیٹھے ہیں یہ لوگ انڈیا جاتے ہیں ، پیسے لیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف کام کرتے ہیں۔ جنرل صاحب اتنے جاہل اور گئے گذرے تو نہیں ہونگے کہ وہ اہلیان بلتستان کی وطن سے بے لوث محبت کونہ جانتے ہو۔ ان کے علم میں ہوگا کہ آج تک بلتستان میں پاکستان مخالف بیانیے کو پنپنے کاموقع ہی نہیں ملا کیونکہ یہاں کے تمام طبقہ ہائے فکر پاکستانیت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ سیاسی مذہبی اور سماجی سبھی نظریہ پاکستان کے حامی اور الحاق پاکستان کے داعی ہیں۔ باوجود ستر سالہ محرومیوں اور خامیوں کے بلتستان کے عوام کی لبوں پر کبھی کبھار صرف پاکستانی اشرافیہ سے گلے شکوے سنے گئے ہیں لیکن کہیں بھی کوئی بغاوت دیکھنے کونہیں ملی۔ اس حوالے بلتستان کے نوجوان شاعر ذیشان مہدی نے خوب کہاہے۔
؎ زبان پرنے وفائی کے گلے شکوے توہیں لیکن میں اپنے دل کے ہرگوشے میں پاکستان رکھتاہوںلیکن۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ امجد شعیب بلتستان سے ایک خاص قسم کا بغض اور تعصب رکھتے ہیں۔ ان کو سرزمین امن بلتستان کوبدنام کرنے کا ٹاسک سونپاگیاہے۔ ان کایہ ایجنڈا ملک دشمنی پر محمول کیاجائے گا کیونکہ یہ شخص وفادارن پاکستان کی حب الوطنی پر سوال اٹھا کر، انھیں غدارقرار دے کر پاکستان مخالف بناناچاہتاہے ۔ تاریخ اس بات کی گواہی دے گی کہ بلتستان کے عوام غدار نہیں ہیں۔ ملک میں ذمہ دار ادارے اس متعصب شخص کے خلاف ایکشن اور اہلیان بلتستان کے غم وغصے کو نوٹ کریں پھر ایسا نہ ہو دیر ہوجائے اور ہمارے پاس پچھتاوے کے سواکوئی راستہ نہ بچے۔
وطن عزیز میں آخر یہ سللسہ کب تک چلے گا کہ ہو ایرا غیرا دوسرے پر کفر کا فتویٰ صادر کرتاہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئےتوہین رسالت کاالزام لگاکر ” گستاخ کی ایک سزا سرتن سے جدا ” کا نعرہ لگایاجاتاہے۔ یہاں امجد شعیب جیسے مداری غداری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔ خدارا اس ملک پر اور اس کے غریب عوام پر رحم کریں اور کافر، ایجنٹ ، گستاخ ، غدار جیسی اصطلاحات گھڑ کر خلق خدا کاجیان دوھرنہ کریں، لوگوں کو جینے دیں۔ فیض احمد فیض نے شاید ایسے ہی حالات کی عکاسی کی تھی،
؎ نثار میں تیری گلیوں میں اے وطن کہ یہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظرجھکاکے چلے جسم وجاں بچاکے چلے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply