یہ کہانی نہیں ہے ۔۔۔۔قراۃ العین حیدر

افضل بھائی میرے پھوپھی زاد تھے۔ سانولے سے مسکراتی آنکھوں والے۔۔۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ میں نے مسکراتی آنکھوں والے کیوں کہا؟ میں انہیں ساری عمر ہنستے نہیں دیکھا قہقہہ تو بالکل بھی بھی نہیں۔۔۔ البتہ بہت ہنسنے والی بات پر وہ مسکرا دیا کرتے تھے۔ کم گو تھے اور دوسروں کی باتیں سنتے رہتے۔ میں کھیلوں تو کس کے ساتھ کھیلوں؟ مجھے ہمیشہ یہی مسئلہ رہتا، میرا چھوٹا بھائی پپو مجھ سے سات سال چھوٹا تھا اس سے میں کھیل نہیں سکتا تھا۔ میری عمر کا صرف جاوید تھا میرا سگا بھتیجا۔۔۔۔ میرا دوست لیکن وہ پنڈی میں رہتا تھا۔ چچا کا بیٹا نصرت ٹھاکر بھی مجھ سے سات آٹھ برس بڑا تھا اور افضل بھائی انہی کے ہم عمر تھے۔ باقی میری ہم عمر چچا کی لڑکیاں تھیں عجب بےڈھنگی اور بدشکل سی۔۔۔۔ اب بھلا ان کے ساتھ کون کھیلے۔ ایک اور بھی تھا میرا ہم عمر میرا ایک اور پھوپھی زاد ،بابر! لیکن وہ اتنا کالا تھا کہ میں اس کے ساتھ کھیلنا بالکل بھی پسند نہیں کرتا تھا۔

بات ہورہی تھی افضل بھائی کی اور اللہ جانے کہاں سے تمام خاندان کا  ذکر آگیا۔ افضل بھائی کو میری والدہ نے پالا۔ ان کی بس ایک ہی بہن تھیں بالو آپا یعنی کہ اقبال بیگم ان کے شوہر  بیوروکریٹ تھے۔ میرے بچپن میں شاید اوکاڑہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ لیکن افضل بھائی ہمارے ساتھ رہتے تھے۔
امی جی ہم سب بہن بھائیوں کا خیال رکھا کرتیں۔۔۔ لیکن اب تھا ہی کون؟ دو بہنوں اور دو بڑے بھائیوں کی شادی کے بعد امی کی ذمہ داری میری، پپو اور افضل بھائی کی تھی۔ وہ ہمارے گھر کیوں رہتے تھے۔۔۔۔ اس لئے کہ ان کے والدین شہید ہوگئے تھے سینتالیس کے دنگوں میں ۔۔۔ میں یہی سنتا آیا تھا کچھ سمجھ آتا تھا کچھ نہیں ۔ لیکن تھوڑا بڑا ہونے کے بعد سب سمجھ میں آگیا۔ میری دونوں سگی پھوپھیاں برٹش آرمی میں نرسیں تھیں۔ بڑی والی سی ایم ایچ لاہور میں تھی اور چھوٹی والی ایم ایچ دہلی میں تھی۔ مجھے اپنی چھوٹی پھپھو یاد نہیں ہے تقسیم کے وقت میری عمر لگ بھگ ڈیڑھ سال کی تھی۔ پھپھو کے پانچ بچے تھے جن میں افضل بھائی سب میں چھوٹے تھے۔ ان سے بڑی چار بیٹیاں تھیں جن میں سے تین جوان تھیں۔ اور اس وقت افضل بھائی تقریباً سات سال کے تھے۔ اور ان سے دو برس بڑی بالو آپا تھیں۔

جب تقسیم کا اعلان ہوا تو پہلے پلان کے مطابق دہلی تک کا علاقہ پاکستان میں آنا تھا اس لئے دہلی کے مسلمان بہت اطمینان سے بیٹھے رہے۔ اس لئے انہوں نے ہجرت کے بارے میں بالکل نہ سوچا۔ یہی حال ہماری پھوپھی کے گھرانے کا تھا۔ پھپھو اور میرے بڑے بھائی اس وقت اپنے خاندان سمیت دہلی میں تھے۔ اگست کے مہینے میں دنگے شروع ہوگئے تو پورے برصغیر میں ہی کھلبلی مچ گئی۔ ہوتے ہوتے یہ دنگے دہلی تک بھی پہنچ گئے۔ پھپھو کا گھر پرانی دہلی میں تھا بلبلیں خانہ محلے میں۔ یہ وہی محلہ بلبلیں خانہ ہے جہاں رضیہ سلطان کا مزار ہے۔ ان کا ارادہ تھا کہ فوری طور پر سپیشل ٹرین کے  ذریعے لاہور روانہ ہوجائیں مگر یہ ہو نہ سکا اور ان کے محلے پہ بلوائیوں نے حملہ کردیا۔ کئی گھر جلا دیے اور بےشمار لوگ قتل کردیئے۔ ہوتے ہوتے یہ لوگ افضل بھائی کے گھر بھی پہنچ گئے خوف کے مارے پھپھا جی نے اکلوتے کمسن بیٹے کو باورچی خانے کے ساتھ ایک سٹور تھا جس میں جلانے کیلئے ایندھن رکھا ہوتا تھا۔ اس سٹور میں لکڑی، کوئلہ، اپلے اور پرالی رکھی جاتی تھی۔ ننھے افضل کو وہاں چھپا دیا تھا۔ اس کے پیچھے چھوٹی بہن بالو بھی وہاں چُھپ گئی۔ پُھپھا جی کو قتل کردیا گیا اور وہ گھر جہاں بہت سے پودے اور پھول ان کی محنت اور کوشش سے بہار دکھا رہے تھے اب اس کی ہی کیاریوں میں ان کا خون بہہ رہا تھا۔ بلوائیوں نے گھر کے اکلوتے مرد کو شہید کرکے چار جوان عورتوں کو اٹھایا اور چلتے بنے۔ ادھ کھلے دروازے سے دو کمسن بچے یہ منظر دیکھ کر غش کھا کے گر پڑے۔

میرے بڑے بھائی جو جی ایچ کیو دہلی میں کلرک تھے سرکاری کالونی میں رہتے تھے۔ انہیں رات گئے اطلاع ملی کہ بلوائیوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ کیا ہے ان گنت مردوں کا قتلِ عام کردیا اور خواتین کی بےحرمتی کی۔ انہوں نے اپنے سرکاری وسائل بروئے کار لاکر اپنی پُھوپھی کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ صبح کاذب کے وقت وہ فوج کے چند سپاہیوں کے ساتھ محلے میں داخل ہوئے۔ محلے میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی اور جابجا لاشیں گلیوں میں بکھری پڑی تھیں۔ اور پھر وہ پھپھو کے گھر پہنچے جہاں باغ نما آنگن میں پُھپھا جان کی لاش اپنے خون سے نہائی ہوئی پڑی تھی۔ تمام گھر میں ہُو کا عالم تھا۔ بہت حوصلے کے ساتھ انہوں نے پورے گھر میں باقی لوگوں کی لاشیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ ملا۔ صحن کے ایک کونے سے سسکیوں کی آواز آرہی تھی وہ لپک کے وہاں پہنچے اور افضل بھائی کو کوئلوں کی بوریوں کے پیچھے سسکتے ہوئے پایا ۔ افضل کو سینے سے لگایا اور پوچھا باقی لوگ کہاں ہیں؟ وہ معصوم صدمے سے کچھ بولنے کے قابل ہی نہ تھا۔ اچانک کراہا بالو آپا بھی یہیں ہے جو رو رو کے صدمے سے نڈھال گم سم بیٹھی ہے۔ باقی تینوں لڑکیوں اور پُھپھو کا کچھ اتا پتا نہ تھا۔ ان بچوں کو ساتھ لئے بھائی جی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

گھر آکر اپنے دو بچوں کے ساتھ ان کزنز کو بھی بیوی کی تحویل میں دے دیا اور کہنے لگے کہ میں کس منہ سے لاہور اطلاع کروں کہ پُھپھو کا خاندان ختم ہوگیا ہے۔ شاید کوئی لڑکی زندہ ہو شاید کوئی مل جائے اس آس میں محلے کے کئی چکر لگائے۔ ایم ایچ ہسپتال میں جا جا کر لاشیں دیکھتے۔ ایک دن وہاں کئی لاشیں لائیں گئیں جن میں ایک لڑکی کی بھنبھوڑی ہوئی لاش بھی تھی جس کی کلائی پہ اس کا نام گُدا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کے تو ان کے اوسان ہی خطا ہوگئے کہ یہ تو پُھوپھو کی منجھلی بیٹی تھی۔ لیکن پھر اس طرح کے درجنوں نہیں سینکڑوں واقعات روزانہ ہورہے تھے۔ کس کا دکھ کرتے۔۔۔۔ کس کا ماتم مناتے۔ خاور صاحب ان کے ہمسائے تھے جن کے ایک چچا بھی اسی محلے میں رہائش پذیر تھے ان کے ہاں سے بلاوہ آیا کہ محلے کے ایک کنویں سے چھ مسلمان لڑکیوں کی لاشیں نکلی ہیں ان میں سے ایک پُھوپھو کی بڑی بیٹی کی تھی۔ دل پر پتھر رکھ لیا لیکن آج تک پُھوپھو اور ان کی تیسری بیٹی کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ نہ جانے کہاں مرکھپ گئی ہونگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک سپیشل ٹرین سے بھائی جی اپنے خاندان اور لٹے ہوئے افضل بھائی اور بالو آپا کے ساتھ لاہور تو آگئے لیکن ان دونوں بہن بھائی کو ذہنی طور پر بہتر ہونے میں بہت وقت لگا۔ بالو آپا کی تو شادی ہوگئی تھی لیکن وہ تمام عمر اس حادثے سے نکل نہ سکیں۔ افضل بھائی نے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ وہ ایک اچھے فیزیشن بن گئے شادی ہوگئی بچوں والے ہوگئے لیکن اس حادثے نے ان کے چہرے کی مسکراہٹ چھین لی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ کبھی بھی آزادی کے جشن میں شریک نہیں ہوئے۔ ہمیشہ گم صم رہتے۔ اور اس دکھ نے ان کے اندر ہی اندر کینسر جیسے ناسور کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کل پینتالیس سال عمر پائی ۔۔۔۔ پاکستان تو پھلتا پھولتا رہا لیکن تقسیم کے وہ زخم آج تک لاکھوں گھروں کے کبھی بھی مندمل نہ ہوسکے۔ اس وطن کی جڑوں میں ہماری قربانیاں ہیں، ہمارا خون ہے، ہماری عزت اور حرمت ہے۔ یہ ہمیں کسی پلیٹ میں رکھ کے پیش نہیں کیا گیا تھا۔ اور اب آج کے لٹیرے سیاستدان کیا جانیں کہ ہم نے کیا کھویا ہے اے کاش کہ وہ کبھی ہمارا درد محسوس کرسکیں۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”یہ کہانی نہیں ہے ۔۔۔۔قراۃ العین حیدر

  1. رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔۔۔۔
    ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات وقفے وقفے سے پڑھ کر یاد رکھے جائیں اور آج کی نسل کو باور کرایا جائے کہ پاکستان کی بنیادوں میں کتنے شہیدوں کا لہو ہے۔ کتنی ماؤں کے بیٹے ہیں۔ کتنے باپوں کی بیٹیاں ہیں۔ کتنے بھائیوں کی بہنیں اور کتنی بہنوں کے بھائی ہیں۔ یہ ملک ہمیں طشت میں رکھ کر نہیں پیش کیا گیا تھا۔۔۔۔

Leave a Reply