تجزیہ زبان و لسان۔ ۔۔۔۔ایم عثمان/قسط1

ہماری ہدایت کا سامان ان ساختوں سے وابستہ ہے جو وحی بن کر رسول اللہ ؐپر نازل ہوئیں۔ لیکن کیا ہر ساخت زمانی ہے؟ یا یہ ہر زمانے کی ہدایت پر محیط ہے ؟۔۔

قرآن مجید زبان کا ایک حصہ ہے نہ کہ مکمل زبان بلکہ یہ خطابات ہیں جو زبان کا ایک جزوی حصہ ہیں۔۔ زبان کا اظہار ساخت کے ذریعے ہوتا ہے لیکن زبان کی ساخت اور تکلم کی ساخت میں کبھی اتفاق ہوتا ہے اور کبھی جزوی اختلاف بھی ہوتا ہے۔ اور تکلم کا تناظر خاص ہوتا ہے جبکہ زبان اس سے ماوراءکلی ہے۔ جو عام و خاص ہر تناظر  میں  شامل بھی ہے اور اس سے ماوراء بھی ہے۔

ساخت ہی ہدایت ہے یا ساخت میں موجود معانی ہدایت ہیں؟ اگر کہا جائے کہ صرف ساخت ہدایت ہے تو ساخت لفظ نہیں بلکہ ایک علامتی نشان ہے جس سے باہر ہدایت و وضاحت نہیں ہے یہ نشان ہی نشان ہدایت ہوگا۔ ان نشانات سے ہدایت کے مطالب خالص ثقافتی عمل ہو گا کیونکہ بلا تعین مطالب ہدایت چہ معنی دارد؟

اگر لفظ و معنی کا مجموعہ ہے تو لفظ کو اس کے معنی و تصور کے مطابق استعمال کیا گیا ہے جو ہو سکتا ہے مخاطب عربی کی رعایت سے متصور ہو کیونکہ عرب ہی عربی زبان کے تصورات سے آگاہ تھے کن مفاہیم کے لیے کیا لفظ استعمال ہوا وہی   بہتر جا نتے تھے۔۔ لیکن ان الفاظ میں معنی کی موجودگی بھی ثقافتی ہے کیونکہ لفظ میں معانی ثقافت پیدا کرتی ہے جو لفظ سے مفہوم ہو سکے اور دیگر مفاہیم سے جدا بھی ہو سکے۔۔ جیسے علم الم بلم۔ صوتی اعتبار سے قریب قریب ہیں لیکن ان کی جدا ساخت ان کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے۔۔

لیکن جو معانی جس ساخت کا متعین کر لیا گیا ہے کیا وہی معنی حقیقی ہے۔ ؟ کیا ساخت اور معانی میں لزوم ہے؟ یا یہ آزادانہ اختیار تھا ؟جو ثقافت نے ثقافتی مظہر کے طور پر خود اختیار کر لیا وہی اس کا خاص معانی و تصور ہو گیا۔۔
اگر ساخت کو یک زمانی مان لیا جائے تو ہدایت کا تعلق یک زمانہ ہو گا اور ساخت کو زمانی قید سے ماوراء کہا جائے تو معانی ثقافت کی قید سے رہا نہیں ہو سکتے۔

جو اس ہدایت کو لفظ و معنی کا مجموعہ کہتے ہیں اور معانی و تصور کو ثقافتی تسلیم کرتے ہیں وہ ترجمہ و تفسیر کے قائل رہے۔۔  نجانے آج اس کے قائل اس کا انکار کیوں کرتے ہیں۔ جبکہ یہ اس ہدایت کے ان قدیم تصورات کے محتاج ہیں جو بوقت نزول موجود تھے۔۔ اس سے بڑھ کر یہ زبان کے محتاج ہیں جو ایک تجریدی کلی ہے۔ جس کی مدد سے یہ خطاب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کسی ثقافتی تصور و معانی کو کسی دوسری زبان سمجھانے کے لیے دوسری زبان کی ساخت استعمال کی جاتی ہے تاکہ ایک ساخت کا علم دوسری ساخت سے حاصل ہو سکے۔۔ اگر وہی ساخت اس زبان میں بعینہ منتقل ہو گی تو یہ ساخت کاصرف بدل نہیں خاتمہ بھی ہے۔۔ جیسے لفظ” شجر” ۔۔ عربی میں جو معانی و تصور رکھتا ہے وہ معنی اردو فارسی ا نگلش میں نہیں رکھتا۔ بلکہ اردو میں درخت کا جو مفہوم ہے وہ شجر کی عربی لفظی ساخت ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply