کانٹ کی ایک انٹینامی اور اس کا تجزیہ/زاہد مغل

مشہور فلسفی ایمانیول کانٹ (م 1804 ء) کا ماننا ہے کہ بذریعہ عقل وجود خداوندی اور اس کے خلاف استدلال قائم کرنا درست نہیں، اس لئے کہ عقل جن تفہیمی مقولات (categories) کے ذریعے مابعد الطبعیات پر لنگر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے وہ زمان و مکان سے باہر کسی طور پر کارآمد نہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک دعوی ہے جو اپنی صحت کے لئے دلیل کا محتاج ہے۔ الہیاتی امور میں عقلاً کسی تصدیق کے ناممکن ہونے کی دلیل کانٹ یہ دیتا ہے کہ عقل کی ان تفہیمی کیٹیگریز کو جب ہم مشاہدے سے ماوراء لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو عقل ایک “لازمی تضاد ” کا شکار ہوجاتی ہے جس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ ہر دو متضاد میں سے ہر ایک موقف کا درست و غلط ہونا دونوں لازم آتے ہیں۔ اس کیفیت کو کانٹ antinomy کہتا ہے۔ یہ انٹینامی گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ عقل اس دائرے میں کسی کام کی نہیں۔

اسی نوع کی ایک انٹینامی کانٹ اس مسئلے سے متعلق پیش کرتاہے جسے قدم و حدوث عالم کہتے ہیں، یعنی کیا کائنات قدیم ہے یا حادث؟ چنانچہ:

• ایک طرف عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ :
– کائنات حادث ہو، یعنی اس کی ابتدا ہو
– کیونکہ اگر اسے قدیم مانا جائے تو اس سے یہ ماننا لازم آئے گا کہ اب تک (یا کسی خاص وقت تک) لامتناہی زمانہ گزر چکا ہے اور جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس خاص وقت تک علل و معلول کے تعلق پر مبنی واقعات گزر چکے۔ تاہم ایسی لامتناہی سیریز کا وجود ممکن نہیں کیونکہ لامتناہی کا مطلب ہی وہ شے ہے جس کا گزر چکنا ممکن نہ ہو
– پس ماننا ہوگا کہ کائنات کی ابتدا ہے ، ورنہ کائنات موجود نہیں ہوسکتی

• دوسری جانب عقل یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ کائنات حادث نہیں بلکہ قدیم ہو
– کیونکہ اگر کائنات زمانے کے کسی خاص لمحے میں وجود میں آئی، تو اس سے قبل ایسا خالی زمانہ (void time) ماننا ضروری ہوگا جب کائنات موجود نہ تھی
– اس لئے کہ کسی شے کی ابتدا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے قبل زمانے میں وہ شے موجود نہ تھی (“a beginning is an existence which is preceded by a time in which the thing did not exist.”)
– لیکن ایسے “خالی زمانے ” میں کسی شے کا وجود میں آنا ممکن نہیں کیونکہ یہ زمانہ ان شرائط سے خالی ہے جو نہ ہونے کے مقابلے میں ہونے کے لئے ترجیح بن کر علت بن سکے (“no part of such time contains a distinctive condition of being in preference to that of nonbeing.”)
– معلوم ہوا کہ کائنات کا کوئی آغاز نہیں

چونکہ ان دو متضاد مواقف کا بیک وقت درست و غلط ہونا دونوں لازم آرہا ہے، یہ انٹینامی ہے۔ یہ نتیجہ اس لئے برآمد ہوا کیونکہ “عقل نظری ” (Theoretical reason) نے اپنی جائز حدود پھلانگنے کی کوشش کی ہے۔کانٹ اس نوع کی چند دیگر انٹینامیز بھی پیش کرتا ہے۔

تاہم کانٹ کا یہ اعتراض وزنی نہیں۔ اس اعتراض کے پس پشت دو مفروضے کار فرما ہیں: (1) حدوث عالم سے قبل کسی نہ کسی معنی میں زمانہ موجود تھا، (2) علل و معلول کا تصور زمانے میں پائی جانے والی شرائط کا محتاج ہے ۔ یہ دونوں مفروضات غلط ہیں۔ “تھافۃ الفلاسفۃ ” باب اول میں قدم عالم کی بحث میں عالم کو قدیم کہنے والوں کی جانب سے امام غزالی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے کہ عالم حادث (یعنی اس کا آغاز) ہے تو اس سے تضاد لازم آئے گا، اس لئے کہ اس حدوث عالم کے خاص لمحے سے قبل لامتناہی زمانہ گزرنا لازم آتا ہے، ایسا لامتناہی زمانہ جو اس خاص لمحے پر مکمل ہوگیا۔ تاہم یہ لامتناہی کے تصور کے خلاف ہے، لہذا ماننا پڑے گا کہ عالم قدیم ہے ، بصورت دیگر “لامتناہی کے گزر چکنے” کو ماننے کا تضاد لازم آئے گا۔ امام غزالی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدوث عالم سے قبل زمانے کا وجود نہیں تھا، بلکہ زمانہ عالم کے ساتھ ہی حادث ہوا ہے۔ پس چونکہ عالم سے قبل زمانے کا کوئی وجود نہیں، لہذا حدوث عالم سے قبل زمانے کے وجود کے مفروضے پر اعتراض کرنا درست نہیں (یاد رہے کہ عالم سے مراد ماسواء اللہ سب کچھ ہے)۔

اس مقام پر امام غزالی کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ “حدوث سے قبل” جیسی ترکیب زمانے پر دلالت کرتی معلوم ہورہی ہے، لہذا وہ واضح کرتے ہیں کہ ہماری مراد صرف یہ ہے کہ “خدا تھا اور عالم نہ تھا، پھر عالم خدا کے ساتھ موجود ہے”۔ اس قضیے کی درستگی کے لئے “زمانے” یا اس جیسے کسی تیسرے تصور کا وجود فرض کرنا لازم نہیں، اگرچہ بات یونہی ہے کہ انسانی ذہن کی وہ فیکلٹی جسے “وھم” کہتے ہیں وہ جب “کسی شے کے آغاز ” کا تصور قائم کرتی ہے تو ساتھ ہی “اس سے قبل” کسی شے کا تصور بھی قائم کرلیتی ہے، مگر “عقل” یہ بات جانتی ہے کہ حدوث عالم کے تناظر میں وھم کا یہ حکم لگانا درست نہیں۔ مدمقابل کو یہ بات سمجھانے کے لئے امام غزالی “مکان” کی مثال دیتے ہیں۔ فلاسفہ کا ماننا تھا کہ عالم متناہی (finite)ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ اس “متناہی ” کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا سرا ہے جس سے پرے عدم کے سواء کچھ نہیں، تاہم وھم جب اس آخری سرے کو سوچتا ہے تو ساتھ ہی اس سے پرے خلا وغیرہ کا کوئی تصور بھی قائم کرلیتا ہے، لیکن عقل وھم کو بتاتی ہے کہ تمہارا دائر کردہ یہ حکم غلط ہے، اگرچہ تم اس کی کیفیت نہ سمجھ سکو۔ امام غزالی نے اس نکتے پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور ناقد کی جانب سے متعدد جہات سے اعتراض وارد کرکے بات کو واضح کیا ہے۔ پس “حدوث عالم سے قبل زمانے” کا مفروضہ ہی غلط ہے، جب یہ مفروضہ ہی غلط ہے تو انٹینامی میں جو اعتراض وارد کیا گیاہےوہ بھی غلط ہوگیا۔

اب اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زمان و مکان کا تصور ختم ہوتے ہی لازما “عدم” ماننا لازم آئے گا تو ایسا نہیں ہے کیونکہ حدوث عالم کی دلیل میں عقل یہ صریح حکم لگاتی ہے کہ عالم (نیز زمان و مکان) سے ماوراء عدم محض نہیں ہوسکتا بلکہ عقل قطعی طور پر ایک ایسے وجود کی تصدیق کا حکم لاگو کرتی ہے جو عالم سے ماورا ہو، اگرچہ اس کی کیفیت اس کی گرفت سے باہر ہو، اور وہ وجود “عدم محض ” نہیں ہوسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعتراض و سوال بھی کوئی نیا نہیں کہ “کیا عقل زمان و مکان اور وضع سے ماورا ذھن سے خارج کسی وجود کی تصدیق کرسکتی ہے؟”، امام رازی نے اس سوال کو لیا ہے (آپ کے الفاظ یوں ہیں: ھل یوجد فی الاعیان وجود مجرد عن الوضع و الحیز؟”)۔ یہ سوال دراصل اس گروہ مجسمہ کی جانب سے اٹھایا جاتا تھا جو اللہ کے لئے جہت کا اقرار کرتے تھے۔ یعنی یہ سوال ایک حد تک گروہ مجسمہ کے نقد سے ماخوذ ہے، اس میں بھی کوئی نیا پن نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رہا یہ مفروضہ کہ علل و معلول زمانے میں کارفرما تصورات ہیں، یہ اعتراض اکواناس کی دلیل کونیات پر بھلے سے وارد ہوتا ہو تاہم متکلمین کی دلیل حدوث پر وارد نہیں ہوتا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ علت کے تصور کے تحت انسانی عقل صرف اسی وجود کی تصدیق کرسکتی ہے جو زمان و مکان میں ہو، تو ہم کہیں گے کہ یہ تحکم ہے، لہذا ہم مدعی سے پوچھیں گے کہ پہلے اپنا تصور علت واضح کیجئے اور پھر دعوے پر دلیل دیجئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply