دیامرمیں دہشت گردی۔۔۔میثم اینگوتی

دیامر باب گلگت بلتستان ہے۔ دیامر گلگت بلتستان کے دس اضلاع میں سے ایک ہے ۔ مرکزی شہر چلاس ہے ۔ داریل اور تانگیر دو بڑی تحصیلیں ہیں۔ دیامر ایک اہم اور تاریخ پس منظر کاحامل ضلع ہے لیکن موجودہ حالات میں دیامر کی اہمیت وطن عزیز کے لئے انتہائی اہم ہے۔ ملک میں صنعتی اور معاشی انقلاب کاپیش خیمہ بننے والامعروف منصوبہ سی پیک کاروٹ دیامر سے گذرتاہے۔ ملک میں پانی کی قلت کی وجہ سے زمیںیں بنجر ہورہی ہیں اور ان حالات میں دیامر ڈیم امید کی ایک کرن ہے۔ اس میگاپروجیکٹ کے زریعے ہم نہ صرف پانی کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ اپنی توانائی کی ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔دیامر ہی گلگت بلتستان کو شاہرائے قراقرم کے زریعے وطن عزیز پاکستان سے زمینی راستہ فراہم کرتاہے۔ گلگت بلتستان اور صوبہ خیبرپختونخواہ کا سرحدی علاقے ہونے کے ناطے دیامر ماضی میں بھی اور اب بھی امن وامان کے حوالے ایک حساس علاقہ شمار ہوتاہے۔ پاکستان میں دہشت گردی نام نہاد افغان جہاد کے نتیجے میں پھیلی اور افغان جہاد کے جہادی خیبرپخونخواہ میں ہی مختلف ٹریننگ سینٹرز میں تربیت پاتے رہے۔ دیامر کے ساتھ ملحق سرحدی علاقے ہزارہ ڈویژن میں بھی سخت گیر مذہبی موقف کے حامل لوگ بڑی تعدادمیں آباد ہیں اور دیامر میں بھی فکری اور مسلکی طور یہی مماثلت موجودتھی۔ افغان جہاد اور اس کے بعد کی تمام صورت حال میں اس پٹی پر دہشت پسند اور شرپسند عناصر ہمیشہ موجود رہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان عناصر کے لئے مقامی سطح پر بھی بدقسمتی سے نرم گوشہ پایاگیا ۔یوں کئی مفروراور اشتہاری دہشت گرد جرم کے ارتکاب کے بعد مختلف علاقوں سے بھاگ کر یہاں آجاتے اور کمانڈر یامجاہد کاروپ دھارکر پہاڑوں میں روپوش رہتے۔
دیامر بنیادی طور پر سادہ ، غیور اور مہمان نواز لوگوں کی دھرتی ہے اور یہ لوگ مذہب سے زیادہ لگاؤ بھی رکھتے ہیں۔ مذہب سے ان کے جذباتی لگاؤ کو ماضی میں چند بیرونی اور چند اندرونی عناصر نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا اور دیامر ریجن میں شدت پسندی کی فصل بوئی گئی ۔ شرپسند عناصرنے مذہب کامقدس لبادہ اوڑھ کر دیامر کے عوام کی ہمدردی حاصل کی۔ ان عناصر کاتعلق کبھی تو علاقائی کالعدم فرقہ پرست جماعتوں سے رہا ہے اور کبھی یہ لوگ عالمی دہشت گردتنظیموں داعش اور القاعدہ سے بھی منسلک رہے ہیں۔ جیسے کہ سانحہ کوہستان اور لولوسر لشکرجھنگوی سے متاثر دہشت گردوں کی کاروئی تھی جبکہ سانحہ نانگاپربت میں دس غیر ملکی سیاحوں کے قتل میں تحقیقات سے پتہ چلاکہ یہ کاروائی داعش نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہے 6 اگست 2013 کی رات چلاس میں تین سیکیورٹی آفیسرز کو حملہ کرکے شہید کردیاگیا۔
انسانیت کے یہی دشمن تعلیم کے بھی دشمن ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ لوگ جب پڑھ لکھ جائیں گے تو ان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ خاص کر پڑھی لکھی ماؤں کے زیر تربیت بچے ان کےمذموم مقاصد کو رد کریں گے لہذا انھوں نے ماضی میں بھی کئی بار اور اب بھی مادرعلمی پر حملہ کیا۔ قلم اور کتاب پر حملہ کیا۔ عقل اور شعور کوپابند کرکے جہالت کاثبوت دیا۔ یہ لوگ چاہتے یہی ہے کہ دیامر کی عوام جاہل رہے اور یہ اپنے فتوؤں کے زریعے آگ اور خون کاکھیل جاری رکھ سکے۔ حالیہ دہشت گردانہ کاروائی کے بعد دیامر کے عوام کا سڑکوں پر نکل آنا اور تعلیم دشمن عناصر کوللکارنا خوش آئندہے ۔ اہلیان دیامر بیداری کا ثبوت دیں تو یہ واقعہ آخری واقعہ ہوگا اور آئندہ کسی کو ایسی بزدلانہ کاروائی کی ہمت نہیں ہوگی۔
جیسے کہ بتایاگیا کہ دیامر میں دہشت گردی کا یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے اور یہ بھی سب کومعلوم ہے کہ داریل تانگیر کی پہاڑوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجودہیں لیکن اس کے باوجود امن عامہ کی ذمہ دار ایجنسیاں اور ضلعی انتظامیہ کیوں ستو پی کر سوئی رہتی ہے ؟ آخر اس ملک کے غریب عوام کاکیاقصور ہے کہ مٹھی بھر شرپسندہر دوسرے ہفتے ان کاجیناحرام کردیتے ہیں۔ دیامرڈیم جیسا میگا پراجیکٹ اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کا دیامر سے براہ راست تعلق بنتاہے اور ادھرحلومٹی رٹ کا یہ حال ہے کہ کل ایک پولیس کاجوان شہید ہوااورزرائع کے مطابق جو دہشت گرد پکڑے گئے تھے وہ بھی چھڑالئے گئےاور آج دن بھر دہشت گردوں نے داریل اور تانگیر کو محاصرے میں لئے رکھا اور سول جج کی گاڑی پر بھی حملہ کردیا۔ چند خدشات، چندتحفظات چند شکایتیں اورچند سوال نہ صرف دیامر بلکہ گلگت بلتستان کے عوام رکھتے ہیں لیکن ان کا نہ پہلے جواب دیاگیا ہے اور نہ اب دیاجائے گا۔ رہے نام بس اللہ کا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply